• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السّلام (دوسرا اورآخری حصّہ)

نمرود سے مناظرہ

تاریخی کُتب میں ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام آگ سے صحیح سلامت واپس آگئے، تو نمرود اور اس کے لوگ بڑے حیران بھی ہوئے اور پریشان بھی۔اس موقعے پر نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام سے کہا،’’اے ابراہیم ؑ! کیا تم نے اپنے اس ربّ کو دیکھا بھی ہے کہ وہ کون ہے اور کہاں رہتا ہے؟‘‘حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے کہا ’’میرا ربّ تو وہ ہے، جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ258:) نمرود بولا’’ یہ کیا مشکل ہے، یہ تو میں بھی کر سکتا ہوں‘‘۔ اُس نے اپنے دو غلاموں کو دربار میں بُلایا، اُن میں سے ایک کو قتل اور دوسرے کو چھوڑ دیا۔ پھر بولا’’ دیکھو میں نے ایک کو مار دیا اور دوسرے کو زندگی دے دی۔‘‘حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اس کی بے وقوفی کی بات سُن کر فرمایا’’میرا اللہ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے،تم اسے مغرب سے نکال دو۔‘‘ (البقرہ258:) حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے اس سوال کا نمرود کے پاس کوئی جواب نہ تھا، چناں چہ وہ حواس باختہ ہو کر دربار سے اٹھ کر چلا گیا۔

بابل سے ہجرت

آگ میں ڈالے جانے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے بابل سے ہجرت کا ارادہ فرمایا اور پھر ایک دن اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ’’ حران‘‘ نامی علاقے میں ہجرت کر گئے۔حضرت ابراہیمؑ نے بابل ہی میں اپنی چچا زاد بہن، حضرت سارہؑ سے شادی کرلی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ ؑکو بیت المقدس جانے کا حکم فرمایا، اُس وقت آپ ؑ کی عُمر 75سال تھی۔ بیت المقدس میں کچھ عرصہ قیام کے بعد آپؑ مِصر ہجرت کر گئے۔

حضرت سارہؑ فرعون کے دربار میں

حضرت ابراہیمؑ جس وقت مِصر پہنچے، تو وہاں فرعونوں کی حکومت تھی اور عمرو بن امرتی القیس وہاں کا فرعون (بادشاہ) تھا، جو نہایت عیّاش، ظالم اور جابر تھا۔ کسی نے بادشاہ کو بتایا کہ ہمارے شہر میں ایک پردیسی آیا ہے، جس کے ساتھ ایک حَسین و جمیل عورت بھی ہے۔ فرعون نے یہ سُن کر فوری طور پر حضرت ابراہیمؑ کو دربار میں طلب کیا اور حضرت سارہؑ کے بارے میں سوال و جواب کیے۔ حضرت سارہؑ اللہ کی برگزیدہ بندی تھیں اور اُنہیں اپنے اللہ پر بڑا یقین تھا۔ چناں چہ وہ طلب کرنے پر بادشاہ کے پاس تشریف لے گئیں۔ بادشاہ نے جب اُنھیں دیکھا، تو خود پر قابو نہ رکھ سکا اور بُرے ارادے سے اُنہیں پکڑنے کے لیے آگے بڑھا۔ حضرت سارہؑ اُس وقت اپنے ربّ سے دُعا میں مصروف تھیں۔ جیسے ہی فرعون آگے بڑھا، اُس کے قدم زمین میں دھنس گئے۔ بادشاہ بدحواس ہوگیا اور جلدی سے بولا’’ تم میرے لیے اپنے اللہ سے دُعا کرو، مَیں تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچائوں گا۔‘‘ حضرت سارہؑ نے دُعا فرمائی کہ’’اے اللہ! اگر یہ مرگیا، تو کہا جائے گا کہ مَیں نے اسے قتل کیا ہے۔ اے اللہ! تُو اسے آزاد کردے‘‘۔ اس دُعا کے بعد اللہ نے اسے آزاد کردیا، لیکن وہ اپنی حرکت سے باز نہ آیا۔ دوبارہ آگے بڑھا، تو مزید اندر گھس گیا۔ اُس نے پھر دُعا کے لیے کہا۔ حضرت سارہؑ نے دُعا کی، وہ پھر آزاد ہوگیا۔ راوی کہتے ہیں کہ تیسری یا چوتھی بار میں وہ پکار اٹھا اور اپنے درباریوں سے کہا کہ’’ تم میرے پاس کسی انسان کو نہیں لائے ہو۔‘‘ پھر اس نے حضرت سارہؑ کو عزّت و احترام سے رخصت کیا بلکہ ایک خادمہ (حضرت حاجرہؑ) بھی اُن کی خدمت میں پیش کی۔ کئی محقّقین کے مطابق، حضرت حاجرہ بادشاہ کی لونڈی نہیں، بلکہ بیٹی تھیں۔حضرت سارہؑ، حضرت حاجرہؑ کو ساتھ لے کر حضرت ابراہیمؑ کے پاس تشریف لائیں، تو دیکھا کہ وہ نماز میں مصروف ہیں۔ فارغ ہوکر بیوی سے سوال کیا کہ کیا ہوا؟ حضرت سارہؑ نے جواب دیا کہ’’ اللہ نے کافر کے مکر کو رَد کردیا اور فاجر کی برائی کو اس کے سینے میں دفن کردیا۔‘‘

حضرت اسماعیلؑ کی ولادت

اس واقعے کے بعد حضرت ابراہیمؑ دوبارہ فلسطین منتقل ہوگئے۔ کچھ عرصہ بیتا، تو ایک دن حضرت سارہؑ نے حضرت ابراہیمؑ سے فرمایا کہ’’مَیں چاہتی ہوں کہ آپ ؑ حاجرہ سے نکاح کرلیں۔ شاید اللہ آپؑ کو اولاد کی نعمت سے نواز دے۔‘‘( اُس وقت تک آپؑ کے اولاد نہیں ہوئی تھی)، اور پھر حضرت سارہؑ نے آپؑ کا نکاح، حضرت حاجرہؑ سے کروا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے سال بھر بعد ہی حضرت حاجرہؑ کے بطن سے حضرت اسماعیلؑ کو پیدا فرمایا۔ بعدازاں، حضرت ابراہیم ؑ اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت حاجرہؑ اور نومولود بیٹے کو لے کر فلسطین سے نامعلوم منزل کی جانب چل پڑے۔

خانوادۂ ابراہیمؑ فاران کے بیابانوں میں

حضرت ابراہیمؑ اپنی زوجہ اور لختِ جگر کے ساتھ صحرائوں، پہاڑوں اور میدانوں کو عبور کرتے ہوئے ایک ایسی وادی میں پہنچے، جہاں دُور دُور تک چرند پرند تھے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان۔ لیکن حیران کُن طور پر اس وادی کے درمیان ایک بوڑھا درخت نہ جانے کب سے اپنے مکینوں کے انتظار میں تنہا کھڑا تھا۔ حضرت ابراہیمؑ نے اہلیہ کو دودھ پیتے معصوم جانِ جگر سمیت درخت کے نیچے بٹھایا۔ کھجور کا تھیلا اور پانی کا مشکیزہ پاس رکھا اور کچھ کہے بغیر واپسی کے لیے پلٹے۔ حضرت حاجرہؑ نے جب یہ دیکھا، تو لپک کر دامن پکڑا اور بولیں’’ اے ابراہیمؑ! ہمیں اس دشت بیابان میں چھوڑ کر کہاں جارہے ہیں؟‘‘ حضرت حاجرہؑ کے بار بار فریاد کرنے پر بھی آپؑ خاموش رہے، تو اُنھوں نے عرض کیا’’ اے ابراہیمؑ! کیا یہ اللہ کا حکم ہے!‘‘ آپ ؑنے فرمایا ’’ ہاں۔‘‘ حضرت حاجرہؑ نے یہ سُنا تو بڑے یقین اور اعتماد کے ساتھ فرمایا ’’پھر ہمارا پروردگار ہمیں ضائع نہیں فرمائے گا۔‘‘ حضرت ابراہیمؑ آگے بڑھ گئے، لیکن الفتِ پدری کے تحت مجبور ہوکر ایک ٹیلے کی اوٹ میں پہنچ گئے۔ جہاں سے حضرت حاجرہؑ اُن کو نہ دیکھ سکتی تھیں اور پھر باری تعالیٰ کے حضور دُعا کے لیے ہاتھ اٹھالیے’’اے پروردگار! مَیں نے اپنی اولاد کو اس میدان بیابان میں تیرے عزّت والے گھر کے پاس لا بسایا ہے تاکہ یہ نماز پڑھیں۔ تُو لوگوں کے دِلوں کو ایسا کردے کہ ان کی طرف جُھکے رہیں اور ان کو میووں سے روزی دے تاکہ (تیرا) شُکر کریں۔‘‘(سورۂ ابراہیم37) پھر حضرت ابراہیمؑ وہاں سے واپس پلٹ گئے۔ حضرت حاجرہؑ پر اللہ کی رحمت سایہ فگن تھی۔ ابھی زادِ راہ ختم ہی ہوا تھا کہ اللہ نے معصوم اسماعیلؑ کے قدموں تلے آبِ زم زم جاری کردیا۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا’’ اللہ پاک، حضرت اسماعیلؑ کی والدہ پر رحمت فرمائے۔ اگر وہ پانی سے چلّو نہ بھرتیں، اسے بہنے دیتیں، تو وہ ایک بہتے ہوئے چشمے کی صُورت اختیار کرلیتا۔‘‘ (بخاری شریف) کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ بنو جرہم کا قبیلہ حضرت حاجرہؑ کی اجازت سے وہاں آباد ہوگیا اور پھر اللہ عزّو جل نے جلد ہی اس غیر آباد وادی کو شہر میں بدل دیا۔

حضرت اسحاق ؑکی پیدائش

حضرت ابراہیمؑ کی عُمر 100؍سال اور حضرت سارہؑ کی عُمر 90سال تھی، جب اللہ تعالیٰ نے اُنہیں فرشتوں کے ذریعے حضرت اسحاق ؑکی ولادت کی خوش خبری سُنائی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’ہم نے اس (حضرت سارہ) کو اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خُوش خبری دی۔ اس نے کہا،’’ اے ہے! میرے بچّہ ہوگا، مَیں تو بڑھیا ہوں اور میرے میاں بھی بوڑھے ہیں۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے؟‘‘ اُنہوں نے کہا’’ کیا تم اللہ کی قدرت سے تعجّب کرتی ہو؟ اے اہلِ بیت! تم پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں۔ ‘‘(سورۂ ھود 73۔71) حضرت اسحاق کی پیدائش کے وقت حضرت اسماعیلؑ کی عُمر 13 یا 14سال تھی۔

آدابِ فرزندی اور ذبحِ عظیم

حضرت ابراہیمؑ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عزیز ترین شئے قربان کرنے کا حکم دیا۔ یہ خواب آپؑ کو کئی دن تک، لگاتار نظر آتا رہا تو آپ ؑسمجھ گئے کہ اللہ تعالیٰ بیٹے کی قربانی کا حکم دے رہا ہے۔ حدیثِ مبارکہؐ میں ہے کہ ’’انبیاء ؑکے خواب بھی وحی ہوتے ہیں‘‘ چناں چہ آپؑ نے مکّہ مکرّمہ جانے کا قصد فرمایا اور صاحب زادے کو اپنا خواب سُنایا۔ اللہ عزّوجل قرآنِ کریم میں فرماتا ہے’’ اور جب وہ اُن کے ساتھ دوڑنے (کی عُمر) کو پہنچا، تو ابراہیم نے کہا’’ بیٹا! مَیں خواب میں دیکھتا ہوں کہ (گویا) تم کو ذبح کررہا ہوں، تو تم سوچو کہ تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘ اُنہوں نے کہا’’ ابّا جان! جو آپ کو حکم ہوا ہے، وہی کیجیے۔ اللہ نے چاہا، تو آپ مجھے صابرین میں پائیں گے۔‘‘ جب دونوں نے حکم مان لیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بَل لِٹا دیا، تو ہم نے اُن کو پکارا کہ’’ اے ابراہیمؑ! تم نے خواب سچّا کر دِکھایا۔ ہم نیکو کاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔‘‘ بلاشبہ یہ صریح آزمائش تھی اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ بنا دیا اور پیچھے آنے والوں میں ابراہیم ؑکا ذکر (خیر باقی) چھوڑ دیا کہ ابراہیمؑ پر سلام ہو۔ نیکوکاروں کو ہم ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں (سورۂ الصٰفٰت 102-110)حضرت ابراہیمؑ کی قربانی بارگاہِ خداوندی میں قبول ہوئی اور اُن کے سعادت مند اور فرماں بردار بیٹے کی جگہ جنّت سے بڑی آنکھوں اور سفید رنگ کا ایک خُوب صورت مینڈھا ذبح ہوا۔ اللہ نے اس عظیم قربانی کو رہتی دنیا تک کے لیے جاری کردیا۔ حضرت اسماعیلؑ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے علّامہ اقبال نے فرمایا؎ ’’یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی…سِکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی۔‘‘

حضرت حاجرہؑ کی وفات اور حضرت اسماعیلؑ کا نکاح

حضرت اسماعیلؑ کی عُمر 15سال تھی کہ آپؑ کی والدہ اور دنیا کی عظیم ترین، صابر و شاکر خاتون، حضرت حاجرہؑ اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ حضرت اسماعیلؑ کو والدہ سے بچھڑنے کا بڑا غم تھا، بلکہ پورا قبیلہ سوگ میں ڈوبا ہوا تھا۔ بنو جرہم کے لوگوں نے حضرت حاجرہؑ کو آبِ زم زم کے چشمے کے قریب ہی دفن کردیا۔ اب حضرت اسماعیلؑ اکیلے رہ گئے تھے۔ چناں چہ قبیلے کے لوگوں نے آپؑ کی شادی ’’عمّارہ‘‘ نامی خاتون سے کردی۔ اُدھر حضرت ابراہیمؑ کو اہلیہ اور صاحب زادے کی یاد ستائی، تو مکّہ مکرّمہ تشریف لے آئے۔ صاحب زادے کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا، حضرت اسماعیلؑ گھر پر نہ تھے۔ اُن کی اہلیہ کی سرد مہری اور نامناسب رویّے کی بناء پر گھر کی چوکھٹ تبدیل کرنے کا مشورہ دے کر چلے گئے۔ حضرت اسماعیلؑ گھر آئے اور والد کا پیغام ملا، تو اہلیہ کو طلاق دے دی۔ کچھ عرصے بعد حضرت ابراہیمؑ پھر تشریف لائے، اس مرتبہ بھی حضرت اسماعیلؑ گھر پر موجود نہ تھے۔ دروازہ کھٹکھٹایا، تو اہلیہ نے دروازہ کھولا۔ یہ بنوجرہم کے سردار، مضاض بن عمرو کی صاحب زادی تھیں۔ اُنہوں نے حضرت ابراہیمؑ کو نہایت عزّت و احترام کے ساتھ گھر کے اندر بلایا، اُن کی خاطر مدارت کی۔ اُن کے ہر سوال کے جواب میں اللہ کا شُکر ادا کیا۔ حضرت ابراہیمؑ بہت خوش ہوئے اور فرمایا، اسماعیل ؑآئے تو کہنا’’ تیرے گھر کی چوکھٹ بہت اچھی ہے، اسے تبدیل نہ کرنا۔‘‘

بیت اللہ شریف کی تعمیر

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو حکم دیا کہ میرے گھر کی تعمیر کرو، چناں چہ ایک بار پھر حضرت ابراہیمؑ مکّہ مکرّمہ تشریف لائے، حضرت اسماعیلؑ کو ساتھ لیا اور حضرت جبرائیلؑ کی نشان دہی اور مدد سے بیت اللہ شریف کی تعمیر شروع کردی۔ حضرت اسماعیلؑ پتھر اور مٹّی کا گارا دیتے جاتے تھے۔ قرآنِ پاک میں ہے کہ جب ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ بیت اللہ کی بنیادیں اونچی کررہے تھے (تو دُعا بھی کرتے جا رہے تھے کہ) اے ہمارے پروردگار! ہم سے یہ خدمت قبول فرما۔ بے شک تو سننے والا (اور) جاننے والا ہے۔‘‘(سورۃ البقرہ:127) جب دیواریں اونچی ہوگئیں، تو اُنہیں مزید اونچا کرنے کے لیے حضرت اسماعیلؑ، حضرت جبرائیلؑ کی نشان دہی پر ایک پتھر لے آئے، جس پر چڑھ کر حضرت ابراہیمؑ کعبے کی دیواریں بلند کرنے لگے۔ یہ پتھر خودکار زینے کی طرح اوپر، نیچے اور دائیں، بائیں حرکت کرتا۔ جنّت کے اس پتھر پر حضرت ابراہیمؑ کے قدموں کے نشان آج بھی موجود ہیں۔ پہلے یہ پتھر ملتزم اور حجرِ اسود کے درمیان کعبہ شریف کی دیوار سے منسلک تھا۔ پھر حضرت عُمر فاروقؓ نے اپنے دورِ خلافت میں اسے وہاں سے ہٹا کر موجودہ جگہ نصب فرمایا۔ کعبۃ اللہ کی تعمیر کے بعد حضرت جبرائیلؑ کی نشان دہی پر حضرت اسماعیلؑ، جبلِ ابو قیس گئے، جس کی آغوش میں جنّت کا ایک اور یاقوت’’ حجرِ اسود‘‘ محفوظ تھا۔ اسے حضرت ابراہیمؑ نے کعبہ شریف کے جنوبی کونے میں نصب فرمایا۔ ترمذی شریف کی ایک حدیث ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا’’ حجرِ اسود جنّت سے آیا ہوا پتھر ہے۔ یہ دودھ سے زیادہ سفید تھا۔ بنی آدم کے گناہوں نے اسے سیاہ کردیا۔‘‘بیت اللہ شریف کی تعمیر سے فارغ ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حکم دیا، لوگوں میں حج کا اعلان کردو (سورۃ الحج27) یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ مکّے کے ایک پہاڑ کی چوٹی سے بلند ہونے والی یہ صدائے دل نواز دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گئی۔ کرّہ ارض و سما پر ہر ذی رُوح نے اسے سُنا۔

حضرت ابراہیمؑ کے دو عظیم فرزند

اللہ عزّوجل نے حضرت ابراہیم، خلیل اللہؑ کو دو عظیم فرزند عطا فرمائے اور دونوں کو نبوّت سے سرفراز فرمایا۔ ایک حضرت اسماعیلؑ، جو حضرت حاجرہؑ کے بطن سے پیدا ہوئے اور دوسرے حضرت اسحاق ؑ، جو حضرت سارہؑ کے بطن سے پیدا ہوئے۔ حضرت اسماعیلؑ کی نسل سے عرب کے تمام قبائل وجود میں آئے۔ آپؑ کی اولاد میں سے امام الانبیاء، آقائے دو جہاں، خاتم النبیّن، حضرت محمّد مصطفیٰﷺ دنیا میں رونق افروز ہوئے، جب کہ حضرت اسحاق ؑسے حضرت یعقوبؑ پیدا ہوئے، جنہیں ’’اسرائیل‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور اسی لیے اُن کی نسل کو’’ بنی اسرائیل‘‘ کہتے ہیں۔ بنی اسرائیل میں سے جو انبیاءؑ دنیا میں مبعوث ہوئے، اُن کی تعداد بہت زیادہ ہے، تاہم بنی اسرائیل میں نبوّت کا سلسلہ حضرت عیسیٰؑ پر ختم ہوا۔

مشاہدۂ قدرت کی فرمائش

حضرت ابراہیمؑ کائنات کی تخلیق پر غور و فکر کرتے اور اس کی اصلیت معلوم کرنے کی جستجو میں رہا کرتے تھے۔ ایک دن اللہ تعالیٰ سے عرض کیا’’ اے معبودِ حقیقی! مَیں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ تُو مُردوں کو کس طرح زندہ کرے گا؟‘‘ قرآنِ پاک میں اس واقعے کا یوں ذکر کیا گیا ہے’’اور جب ابراہیم ؑنے (اللہ سے) کہا کہ اے پروردگار! مجھے دِکھا کہ تو مُردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’ کیا تم نے(اس بات کو) باور نہیں کیا۔‘‘ اُنہوں نے کہا’’ کیوں نہیں، لیکن(مَیں دیکھنا) اس لیے (چاہتا ہوں) کہ میرا دِل اطمینانِ کامل حاصل کرے۔‘‘ اللہ نے فرمایا’’ چار پرندے پکڑ کر اپنے پاس منگوالو (اور ٹکڑے ٹکڑے کر دو) پھر اُن کا ایک ایک ٹکڑا ہر ایک پہاڑ پر رکھ دو۔ پھر ان کو بلائو۔ تو وہ تمہارے پاس دَوڑتے چلے آئیں گے اور جان رکھو کہ اللہ غالب (اور) صاحبِ حکمت ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ60) چناں چہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے چاروں پہاڑوں پر رکھے ہوئے پرندوں کے مختلف اعضاء اُن کی طرف آتے رہے اور جُڑتے رہے، یہاں تک کہ اُن کے بدن کے تمام اجزاء آپس میں جڑ گئے۔ اُن پر پہلے کی طرح پَر آگئے اور وہ زندہ ہوکر اُڑ گئے۔

نمرود کا حشر

روایت میں ہے کہ اللہ نے متکبّر اور جابر نمرود اور اس کے لشکر کو تباہ و برباد کرنے کے لیے مچھروں کے ایک غول کو بھیجا۔ زہریلے مچھروں کے ایک بڑے لشکر نے نمرود کی فوج پر حملہ کردیا اور اُنہیں بے جان ہڈیوں کے ڈھانچوں میں تبدیل کردیا۔ اُن ہی میں سے ایک مچھر، بادشاہ نمرود کی ناک کے اندر گھس گیا اور اُسے عذابِ الٰہی کا مزا چکھاتا رہا۔ نمرود جب تکلیف کی شدّت سے بہت زیادہ تڑپتا، تو اس کے مغرور سر پر جوتوں کی بارش کی جاتی۔ سَر پر جوتے پڑنے سے مچھر کچھ دیر کے لیے رُکتا، جس کی وجہ سے تکلیف میں وقتی طور پر کمی آتی، لیکن کچھ ہی دیر بعد تکلیف میں پھر اضافہ ہوجاتا اور پھر ایک طویل مدّت بعد وہی چھوٹا سا مچھر اُس کے دنیا سے نیست و نابود ہونے کی وجہ بنا۔ یوں دنیا کے سب سے زیادہ طاقت وَر اور خدائی کے دعوے دار کی موت دنیا کی انتہائی حقیر اور کم زور چیز سے کروا کر اللہ تعالیٰ نے رہتی دنیا تک کے متکبّر اور مغرور انسانوں کو سبق دے دیا کہ پروردگار کی فراہم کردہ نعمتوں پر غرور و تکبّر کرنا، دوسروں کو حقیر سمجھنا، اللہ کو سخت ناپسند ہے۔

انتقال اور مزارِ مبارک

حضرت ابراہیمؑ کی اہلیہ، حضرت سارہؑ کا انتقال 127؍برس کی عُمر میں ہوا۔ حضرت ابراہیمؑ نے ان کی تدفین سرزمینِ کنعان کی بستی’’ ھیبرون‘‘ میں کی۔ انتقال کے وقت حضرت ابراہیم ؑ کی عُمر کتابوں میں 175؍سال تحریر ہے۔ اہلِ کتاب نے حضرت ابراہیمؑ کے پاس ملک الموت کے آنے کے بہت سے قصّے نقل کیے ہیں، جن کی تفصیل بہت طویل ہے اور اُن میں بہت زیادہ تضاد بھی ہے۔ ایک قول کے مطابق آپؑ کی وفات اچانک ہوئی اور آپؑ کے دونوں پیغمبر بیٹوں، حضرت اسماعیلؑ اور حضرت اسحاقؑ ؑنے آپ ؑکو اپنی والدہ، حضرت سارہؑ کے پہلو میں بستی ھیبرون یعنی ’’الخلیل‘‘ میں دفن کیا۔ روایت میں ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ، حضرت اسحاق ؑ، حضرت یعقوبؑ، اللہ کے تینوں نبیوں کی قبورِ مبارکہ اس عمارت میں ہیں، جسے حضرت سلیمان بن دائود علیہم السّلام نے تعمیر کروایا تھا۔

تازہ ترین