• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام! آئین نو کے چار ناغوں کے بعد حاضر خدمت۔ ناغے بھی ایسے ہوئے جن میں بھارتی بنیاد پرست مودی حکومت کے، حکومت پاکستان کے خلاف جنگی جنون سے پیدا ہونے والی پُرخطر پاک بھارت کشیدگی جیسی اہم ترین حالتِ حاضر میں ’’آئین نو‘‘ خاموش رہا کہ اللہ کے گھر سے ادائیگی عمرہ کا بلاوا آ گیا، سو بیگم اور بیٹی کے ساتھ ایسے مبارک سفر پر روانہ ہوا کہ قدم قدم ظفر یاب ثابت ہوا۔ بیت اللہ اور روضہ رسولﷺ پر پاکستان کی سلامتی کی بھیگی دعائوں کے بعد اس یقین سے واپسی ہوئی کہ پاکستان اسلامی جمہوریہ بننے کے سفر پر آچکا، جس کا یقین بھارت اور اس کے اتحادیوں اور ہمارے خیر خواہوں کو بھی ہو چلا ہے۔ قدرت کی مدد واضح طور پر شامل ہو چکی۔ مکہ اور مسجد نبویﷺ میں مانگی دعائوں کے قبول ہونے کا ہمیں پختہ یقین ہو گیا۔ ہم واپسی کے سفر میں ہی تھے کہ نیوزی لینڈ میں نماز جمعہ ادا کرتے ہوئے مسلمانوں پر اسلام اور اس کی تاریخ کے مغز سے بھرا آسٹریلوی دہشت گرد ایسے حملہ آور ہوا کہ اس نے اپنی اور اسلام کے خلاف نفرت کی علامت بن جانے والی بندوق سے جتنا قتل عام کر سکتا تھا کیا۔ ادائیگی عبادت کے لئے 49بے گناہ مسلمان مسجد میں شہید کر دیئے گئے۔

کیا نیوزی لینڈ جیسے عالمی گوشہِ عافیت میں دہشت گردی کا یہ ہولناک مظاہرہ فقط دہشت گردی کا کوئی عام واقعہ ہے، جسے مغرب میں اپنے ہاں ہونے پر انفرادی رویے اور نفسیاتی مرض کا شاخسانہ قرار دے کر ہفتوں نہیں دنوں میں بھلا دیا جاتا ہے۔ نہیں نیوزی لینڈ کے 3/15نے ایسا نہیں ہونے دیا، لگتا ہے کہ اگر اب بھی مسلم دنیا دبی سہمی رہی تو گوری دنیا میں داخلی استحکام کی فکر ایسا نہیں ہونے دے گی۔ دہشت گردی خصوصاً 9/11 پر جب امت مسلمہ کے مین اسٹریم کے پُرامن اجتماعی رویے کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ کر اس ذہنیت سے مسلمانوں کے دہشت گرد اور اسلام کے انتہا پسند ہونے کا بیانیہ بڑی مکاری سے تیار کیا تو مسلم امہ خصوصاً حکومتیں تو جیسے سہم کر رہ گئیں اور یہ کیفیت تادم جاری رہی، اتنی کہ انتہاء پسندوں کے رویے کی وجوہات اور محدود پریشر گروپس تشکیل ہونے کی وضاحت محال ہو گئی کیونکہ مسلمانوں کو بڑی مکاری سے پوری عالمی برادری کے سامنے جارح اور انتہا پسند قرار دینے کا سلسلہ تواتر سے جاری رہا۔ کشمیر، فلسطین اور برما میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے، اس میں دہشت اور وحشت کا کوئی پہلو نظر آیا نہ آرہا ہے۔ لیکن سانحہ کرائسٹ چرچ پر کیوی گورنمنٹ اور قوم نے جس طرح پوری جرأت اور دیانت سے دہشت گردی کو دہشت گردی قرار دیا اور جس انداز میں اپنی مسلم کمیونٹی سے یکجہتی کا اظہار کیا، اس سے مسلمانوں کی 49شہادتوں اور نیوزی لینڈ کی وزیراعظم اور قوم سے اندازِ یکجہتی سے جیسے مسلمانوں پر عالمی درجے کا یہ دبائو ختم ہو گیا کہ کوئی مخصوص مذہب ہی دہشت گردی کا مرتکب ہے باقی سب فرشتے ہیں۔ مسلم امہ کی دوسری بڑی ضرورت ہے کہ یہ واضح ہو کہ ان میں جو انتہاپسند گروہ یا افراد پیدا ہوئے اس کا آغاز کیسے اور کب ہوا اور اس کا ذمہ دار کون ہے کیونکہ بھارت میں بنیاد پرست حکومت کے قیام اور سیکولر سیاسی طاقت کی انتخابی شکست اور یہی کچھ امریکہ میں ہونے کے بعد انتہا پسندی اور مذہبی بغض و تعصب کو اسلام اور مسلمانوں سے ہی وابستہ کیا جا رہا تھا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مدد کی پیشکش کے جواب میں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کا پہلے سانحہ کرائسٹ چرچ کی مذمت کرنے کا مطالبہ اور کیوی گورنمنٹ کا سانحہ کو فوری دہشت گردی قرار دے کر اگلے ہی روز ملزم کو عدالت میں پیش کرنا، ہر قسم کی مصلحت سے بالاتر تھا اور کیوی گورنمنٹ اور قوم نے وہی کیا جو ایک شفاف جمہوری مملکت کو کرنا چاہئے تھا۔ وقت آ گیا ہے کہ او آئی سی اگر اب بھی تنظیم میں شامل بااثر ممالک کے مفادات کے باعث کسی مصلحت یا دبائو میں مبتلا ہے تو وزیراعظم عمران خاں، پاکستانی پارلیمنٹ، میڈیا اور سوشل میڈیا یوزر کی پاکستانی فورس اسلام اور مسلمانوں پر برسوں سے جاری رکیک حملوں کے جواب کے لئے ان مسلم ممالک کے اشتراک سے پوری جرأت سے خود کو منظم کرے۔ یہ ذمہ داری پاکستان پر اس لئے بھی عائد ہوتی ہے کہ قطع نظر مذہب و نسل ہمارے 9شہری کرائسٹ چرچ کی دہشت گردی میں شہید ہوئے ہیں۔ جس طرح عمران حکومت نے اپنے قیام کے ابتداء میں ہی ہالینڈ کی حکومت سے رجوع کر کے بلاسفیمی کے مرتکب ڈچ انتہا پسندوں کو قابو میں رکھنے کے لئے ڈچ حکومت سے رابطہ کر کے اسے آمادہ کیا تھا، ایسے ہی اب ان تمام ممالک، جن میں کسی بھی طرز کی دہشت پھیلانے والی تنظیمیں موجود ہیں یا نسلی تعصب اور بلاسفیمی کے انتہا پسند گروپ موجود ہیں، ان کی حکومتوں سے مطالبہ کیا جائے کہ ان پر قانونی پابندی لگائیں جیسا کہ بھارت میں گائے ذبح کرنے اور اُس کا گوشت کھانے والوں پر راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے عرصہ حیات تنگ کیا ہوا ہے۔ امریکہ میں کے کے کے کھل کھلا کر سیام فام اور یہودیوں کے خلاف تعصب کا زہر اگلتی ہے۔ یہ سوال بھی پوری شدت سے اٹھانے کی ضرورت ہے کہ امیگریشن پالیسی کی آڑ میں غیر ملکی پیشہ وروں، مہارت کی حامل لیبر اور طلبہ کے خلاف جو پریشر گروپ اپنی جارحانہ سرگرمیوں سے انہیں مسلسل ہراساں رکھتے ہیں، کیا اسے بین الاقوامیت کے فروغ کے دعوئوں اور نعروں کے ساتھ ایسے ہی ہضم کرتے رہنا چاہئے جیسا کہ یہ برسوں سے ہو رہا ہے اور بڑھتا جا رہا ہے؟ اور اگر یہ ایسے ہی جاری رہتا ہے تو ترقی پذیر اور متاثرہ ممالک کو بھی یہ حق ہے کہ وہ پوری آزادی سے اور دبائو اور ہراساں ہوئے بغیر اپنے ممالک میں سفارتی عملہ محدود کر سکتے ہیں؟ جو کچھ مغرب اور ترقی یافتہ ممالک میں اس حوالے سے جاری ہے، وہ شدت سے عالمگیریت کے خلاف ہے، سوال یہ ہے کہ اس ناانصافی اور ناقابل برداشت چوہدراہٹ کو کون اور کیسے چیلنج کرے؟ گویا دہشت گردی کی عالمی تعریف و توضیح ناگزیر ہو گئی ہے۔

تازہ ترین