• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیوزی لینڈ میں مساجد پر حالیہ حملوں نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ ویسے تو یہ سوالات بڑے عرصے سے مسلمانوں کی جانب دیکھ رہے ہیں مگر اُن کا جواب دینے کے لئے مسلمان عوام کے پاس بےبسی کے سوا کچھ نہیں۔ اس بےبسی میں سارا قصور مسلمان حکمرانوں کا ہے جنہوں نے طویل عرصے سے غلامی کا طوق پہنا ہوا ہے۔ اسی غلامی نے مسلمانوں کو بےبس بنا رکھا ہے۔ مسلمان حکمرانوں کو بےبس بنانے میں اقوام متحدہ کا بھی بڑا کردار ہے۔ اقوام متحدہ کو بنے ہوئے پون صدی ہو گئی ہے۔ اس پون صدی کی جھولی میں مسلمانوں کی لاشیں ہیں، مسلمانوں کا خون ہے، مسلمانوں کی بربادی ہے اور اس تباہی کے ساتھ بےبسی کا عالم ہے۔ آپ ذرا غور کریں کہ اس وقت دنیا میں پچاس سے زائد مسلمان ممالک ہیں مگر ان ممالک میں سے کسی ایک کے پاس بھی سلامتی کونسل کی مستقل ممبر شپ نہیں ہے۔ اقوام متحدہ پر عیسائیوں کی اجارہ داری ہے، ویٹو پاور کے حامل ممالک میں سے چار عیسائی اکثریت کے حامل ہیں۔ آپ مزید غور کریں تو آپ کو سمجھ آئے گی کہ جب سے اقوام متحدہ قائم ہوئی ہے مسلمان دنیا مسائل کا شکار ہے، اقوام متحدہ کے قیام سے لے کر آج تک صرف مسلمانوں کا قتل عام ہوا ہے۔ ابھی اقوام متحدہ کو بنے ہوئے صرف دو سال ہوئے تھے کہ برصغیر کی تقسیم کا مرحلہ آگیا۔ تقسیم کے وقت مسلمان ہجرت کر کے پاکستان کی طرف آئے۔ اس سفر میں انہیں بےشمار تکلیفوں کے ساتھ جانوں کی قربانیاں بھی دینا پڑیں۔ حال سنانے والے بتاتے ہیں کہ راوی، چناب اور ستلج بیاس کا پانی مسلمانوں کے خون سے سرخ ہو گیا تھا۔ دریائوں کو سرخی بخش دینے والے مسلمانوں کے خون پر اقوام متحدہ پر خاموشی چھائی رہی۔ جب یہ احساس ہوا کہ کہیں کشمیر پاکستان کا حصہ نہ بن جائے تو اقوام متحدہ کو مداخلت یاد آگئی۔ اقوام متحدہ نے جواہر لعل نہرو کی زبان پر یقین کر لیا اور کشمیر کو متنازع علاقہ قرار دے دیا، ساتھ ہی کشمیریوں کو ایک لمبا لارا دے دیا گیا۔ کشمیر کے معاملے میں اقوام متحدہ کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ ستر برس گزر جانے کے باوجود اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ یہی رویہ فلسطین کے ساتھ روا رکھا گیا ہے۔ عالم اسلام کے سینے میں ناجائز خنجر اسرائیل کی صورت میں گڑا ہوا ہے، ایک ناجائز ریاست کی حمایت امریکہ اور اس کے حواری کر رہے ہیں، یہاں بھی اقوام متحدہ کا کردار کہیں نظر نہیں آتا۔ آج تک کشمیر اور فلسطین میں ہزاروں مسلمان شہید ہو چکے ہیں جو زندہ ہیں وہ سخت ترین زندگی گزار رہے ہیں، کشمیر اور فلسطین کے عوام پر ظلم ہو رہا ہے اور اقوام متحدہ اس ظلم پر خاموش ہے۔ جو اقوام متحدہ ستر برسوں سے کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ حل نہیں کر سکی اس نے راتوں رات ایک ملک کا سینہ چیر کر ایسٹ تیمور کے نام سے عیسائی ریاست بنا دی۔ عربوں پر کتنی بار جنگ مسلط کی گئی مگر اقوام متحدہ خاموش رہی۔ امریکہ اور اس کے حواریوں نے عرب ملکوں میں مختلف تنظیمیں بنا کر سر زمین اسلام پر ہی مسلمانوں کے قتل عام کو رواج دیا۔ مسلمانوں کے نام نہاد گروپوں نے اپنے ہی بھائیوں کا قتل عام کیا، افسوس اس قتل عام پر سب چپ رہے۔ مسلمانوں کی آپس میں لڑائیوں کی وجہ سے ایک طرف مسلمان اپنے ملکوں میں اپنے ہی بھائیوں کے ہاتھوں شہید ہوتے رہے، دوسری طرف مسلمانوں کے ملک برباد ہوتے رہے، شہر کھنڈرات بنتے رہے۔ آج کئی ملک نوحہ کناں ہیں شاید آپ بھول گئے ہیں کہ کس طرح عراق، شام، لبنان، یمن، لیبیا اور مصر میں بربادیاں پھیلائی گئیں۔ کس طرح افغانستان کو مسلسل حالت جنگ میں رکھا گیا، کس طرح پاکستان پر دہشت گردی مسلط کی گئی، کس طرح پاکستان کے ستر ہزار سے زائد افراد شہید ہوئے۔ کس طرح ایران پر بھی جنگ مسلط کی گئی تو کبھی تجارتی پابندیاں لگا دی گئیں۔ آپ کو پچھلی صدی کے واقعات بھی شاید یاد ہوں کہ کس طرح بوسینا میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا، برما کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہاں مسلمان ہونا ہی سب سے بڑا جرم ہے۔ افسوس اقوام متحدہ برما میں ہونے والے مظالم کو رکوانے میں بھی ناکام ہوئی۔

پچھلے 75برسوں میں مسلمانوں کا خون بہایا گیا، مسلمانوں کے علاقوں کو کھنڈرات بنایا گیا، انہیں برباد کیا گیا، حیرت ہے اس دوران غیر مسلم ملکوں میں امن بھی رہا، سکون بھی رہا، ترقی بھی ہوتی رہی، مسلمانوں کو دہشت گرد بھی قرار دیا جاتا رہا، یعنی شہید ہونے والے بھی مسلمان تھے اور قاتل بھی مسلمان، یہ سب کچھ اغیار نے مال کی چمک سے کیا۔ بربادی کے اس سفر میں مسلمان حکمران غلامی کی تصویریں بنے رہے۔ حیرت ہوتی ہے ان مسلمان حکمرانوں کو نیند کیسے آجاتی ہے؟ کیا ان سب غلام حکمرانوں کو یہ یاد نہیں کہ وہ محمدﷺ کے ماننے والے ہیں، کیا انہیں یاد نہیں کہ حضرت محمد ﷺنے فرمایا تھا کہ ’’مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، جیسے جسم کے کسی بھی حصے کو تکلیف ہو تو پورا جسم دردمیں مبتلا ہو جاتا ہے، ایسے ہی جب کسی ایک مسلمان کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا عالم اسلام درد میں مبتلا ہوجاتا ہے‘‘۔ اس کے علاوہ بھی کئی ایسی احادیث ہیں جو مسلمان حکمرانوں کو درس دیتی ہیں کہ جب کسی مسلمان پر ظلم ہو تو اس کا بدلا لینا اُن پر فرض ہو جاتا ہے۔

پتہ نہیں یہ کیسے مسلمان حکمران ہیں جو دن رات مسلمانوں پر ہوتے ہوئے ظلم پر چپ ہیں، انہیں کشمیر، فلسطین اور شام سے بلند ہونے والی کسی مسلمان بیٹی کی چیخیں سنائی نہیں دیتیں۔ انہیں عراق اور برما میں قتل ہونے والا کوئی مسلمان کیوں نظر نہیں آتا، ان حالات میں انہیں نیند کیسے آجاتی ہے؟ مسلمان حکمرانوں کو تو ایسا نہیں ہونا چاہئے کیا یہ شاعر مشرق کا سبق بھول گئے ہیں کہ ؎

منفعت ایک ہے اس قوم کا نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین