• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلی مرتبہ میں نے آپ کو ایک حیرت انگیز بلکہ حیران کن قانون سازی کے بارے میں اندر کی بات بتائی تھی۔ یاد ہے نہ آپ کو؟ بھئی آپ کے بارے میں خبر تھی! آپ کے ہاتھ پیر مضبوط کرنے کے لیے قانون سازی ہونے جا رہی ہے۔ آپ سے میری مراد ہے ووٹ دینے والے، ووٹ دینے والوں کو فیصلہ کن اختیارات دیئے جا رہے ہیں۔ کچھ یاد آیا؟ چلئے، میں آپ کو یاد دلائے دیتا ہوں۔ قانون ساز اسمبلی میں آپ کی نمائندگی کرنے کے لیے آپ کسی ایک شخص کا انتخاب کرتے ہیں۔ ووٹ دے کر اُسے آپ اسمبلی کا ممبر بناتے ہیں۔ ایک طرح سے وہ آدمی آپ کا ملازم ہوتا ہے۔ اسے تنخواہ سرکار دیتی ہے۔ اپنا نمائندہ بنا کر موصوف کو آپ اسمبلی میں اس لیے بھیجتے ہیں کہ وہ آپ کے حقوق کے لیے اسمبلی میں آواز اٹھاتا رہے، آپ کے حقوق کے لیے اگر لڑنا پڑے تو لڑے، آپ کے علاقے کے بند اسکول کھلوائے، اساتذہ کو پابندی سے تنخواہ دلوائے، اسپتالوں کی دیکھ بھال کرے، وہاں فرض شناس ڈاکٹروں کو مقرر کروائے تاکہ آپ کے علاقے کا کوئی شخص دوائوں اور علاج سے محروم نہ رہے، ایس ایچ او اور پولیس دیگر کے چھوٹے موٹے افسران اور سپاہیوں کو لگام دے، سرکار کی طرف سے ملنے والے ترقیاتی بجٹ کی ایک ایک پائی آپ کے علاقے کو خوبصورت بنانے پر خرچ کرے، ترقیاتی رقم سے خود اور اپنے بیٹے بیٹیوں کی شادی نہ کروائے، کوٹھیاں نہ بنوائے، نئے ماڈل کی گاڑیاں خریدنے سے گریز کرے، سرکاری پیسے سے حج و عمرہ نہ کرے، ترقیاتی بجٹ سے خریدے ہوئے بکرے کی قربانی قبول نہیں ہوتی۔ آپ کے ووٹ سے منتخب ہو کر اسمبلی میں بیٹھنے اور اسمبلی کیفےٹیریا کی چائے، پیٹس اور چکن سینڈوچز کے مزے اڑانے والا آپ کا رکنِ اسمبلی اگر آپ کی توقع پر پورا نہ اترے تو ایسے میں آپ اس نالائق ممبر کو کان سے پکڑ کر اسمبلی سے نکال باہر نہیں کر سکتے۔ لیکن آپ اپنا ووٹ واپس لے کر اُسے اسمبلی سے نکال سکتے ہیں۔ ووٹ واپس لینا آپ کا حق ہے۔ آپ کا اخلاقی اور قانونی حق آپ کو دینے کے لیے قانون سازی آخری مراحل میں ہے۔

نت نئی قانون سازی کے بارے میں اندر کی بات جو میں آپ کو سنا رہا ہوں، مجھے چلتے چلتے وہ بات سنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں ایک ٹوٹی پھوٹی، میری طرح کی ریٹائرڈ، کرسی پر بیٹھا ہوا ہوں۔ اس لیے قانون سازی والی نئی بات میں آپ کو چلتے چلتے نہیں، بلکہ بیٹھے بیٹھے بتائوں گا۔ وہ بات سن کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔ دنگ رہ جانے کے بعد وہ بات سن کر آپ حیران ہوں گے اور حیران ہونے کے بعد آپ خوش ہونگے۔ میں آپ کو مطلع کر چکا ہوں کہ تمام تر قانون سازی آپ کے اور میرے لیے ہو رہی ہے۔ دنیا کا ہر ملک مختلف حوالوں سے دو حصوں میں بٹا ہوا ہوتا ہے۔ ایک حوالے کے پیش نظر دیگر ممالک کی طرح ہمارا ملک بھی دوحصوں میں بٹا ہوا ہے۔ یعنی ووٹ دینے والے اور ووٹ لینے والوں میں بٹا ہوا ہے۔ دونوں کی اپنی الگ تھلگ دنیا ہوتی ہے۔ دونوں کی تعلیم وتربیت، رہن سہن، کھانا پینا ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہوتا ہے۔ سدھرے ہوئے ترقی یافتہ ممالک میں ووٹ لینے والے منت گزار ہوتے ہیں اور وہ ووٹ دینے والوں کا بے حد احترام کرتے ہیں، بلکہ ووٹ دینے والوں کی ناراضی سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ اُس کے برعکس ہمارے جیسے مقروض اور امدادوں پر انحصار کرنے والے ممالک میں ووٹ دینے والے ووٹ لینے والوں سے ڈرتے ہیں۔ ان کو دیکھ کر تھر تھر کانپنے لگتے ہیں۔ ان کو ووٹ ڈالنے کے لیے وہ ابتر حالات میں بھوکے پیاسے پہروں قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں۔ ووٹ لینے والوں کے کارکنوں کے تھپڑ کھاتے ہیں۔ پولیس والوں کے لتر اور چھتر کھاتے ہیں۔ ووٹ لینے والے جب انتخابات میں جیت جاتے ہیں تب ووٹ دینے والے خوشی سے بھنگڑا ڈالتے ہیں، ڈھول پیٹتے ہیں، ناچتے ناچتے پاگل ہوجاتے ہیں، گھر کا راستہ بھول جاتے ہیں، جنگلوں میں جا نکلتے ہیں اور وہاں گیدڑوں کا بھوجن بن جاتے ہیں۔

میں آپ کو بار بار بتا چکا ہوں، اور آج پھر بتا رہا ہوں کہ ہمارا کپتان بنیادی طور پر، بلکہ پیدائشی طور پر Sportsmanہے۔ ہماری اپنی زبانوں میں اسپورٹس مین کے لیے ایک ہی لفظ ہے، وہ ہے کھلاڑی۔ لفظ اسپورٹس مین وسیع تر معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ لفظ اسپورٹس مین سے نکلتے ہیں دو اور الفاظ Sportsmanlike اورSportsmanship۔

یہ الفاظ ایک شخص کی اصول پرستی، حق پرستی، مقصدیت، اخلاق اور کردار کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ہمارے کپتان کے نقطہ نظر سے ووٹ دینے والے اور ووٹ لینے والے دو ٹیموں میں بٹے ہوئے ہیں بلکہ دو ٹیمیں ہیں۔ ووٹ لینے والوں کی ٹیم مراعات یافتہ ہے۔ ان کے پاس طاقت ہے، دولت ہے، اثرو رسوخ ہے۔ ایوان اقتدار میں ان کے لیے سرخ قالین بچھے ہوئے ہوتے ہیں۔ ووٹ دینے والوں کی ٹیم دیکھنے سے بھکاریوں کی ٹیم لگتی ہے۔ نہ ڈھنگ کے کپڑے، پیر ننگے، بال بکھرے ہوئے، ایک وقت کی روکھی سوکھی ان کے لیے نعمت ہے۔ آپ میری بات سن کر سکتے میں آجائیں گے۔ ایک پیدائشی اسپورٹس مین ہونے کے ناطے فاسٹ بالر نے ٹھان لی ہے کہ جب تک دونوں ٹیمیں، یعنی ووٹ دینے والوں کی ٹیم اور ووٹ لینے والوں کی ٹیم ہر لحاظ سے ہم پلہ نہیں ہوتیں، پاکستان میں اگلے انتخابات موخر رہیں گے۔ اسکو کہتے ہیں اسپورٹس مین شپSportsmanship۔

تازہ ترین