• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاہور میرا عشق ہے اور کراچی میرا آئیڈیل۔ان دونوں شہروں کا مقابلہ تو نہیں ہو سکتا، موازنہ البتہ کیا جا سکتا ہے۔وجہ اس کی کچھ خاص نہیں ،بس یہ احساس کہ جہا ں ہمارا پورا معاشرہ ہی تنزلی کا شکار ہوکر رہ گیا ہے وہاں ان شہروں نے کیا کھویا اور کیا پایا۔
کراچی ایک عجیب و غریب شہر ہے ،نکل جاؤ تو ختم ہونے میں ہی نہیں آتا ۔کے پی ٹی سے لے کر قائد آباد تک اور نیو کراچی سے لے کر گلستان جوہر تک ،زندگی اس شہر میں پارے کی طرح مچلتی ہے ۔میرا دل چاہتا ہے کہ نیویارک،سڈنی، فرینکفرٹ،بنکاک اور دبئی کی طرح کراچی کا شمار بھی دنیا کے ان جگمگاتے شہرو ں میں کیا جائے۔ یہ وہ شہر ہیں جو 24/7جاگتے ہیں ،کراچی اس معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں ہے ،اس دہشت کے عالم میں بھی کراچی کے رتجگے پورے پاکستان سے بڑھ کر ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے کراچی ،بمبئی پریزیڈنسی کا حصہ ہوا کرتا تھا۔تقسیم کے بعد کراچی میں اردو سپیکنگ مہاجرین کی آمد نے اس شہر میں ایک نئی روح پھونک دی ۔یہاں گجرات کے میمن بھی آئے اور حیدر آباد (دکن) کے امراء بھی ۔ابتدائی برسوں میں کراچی کے میئر ز کا تعلق پارسی برادری سے تھا ۔ان تمام قومیتوں کے امتزاج سے کراچی کی شان ہی نرالی ہو گئی ۔یہ پاکستان کا واحد شہرہے جس نے صفر سے شروعات کی اور آج ملک کا اقتصادی مرکز ہے ۔
کراچی کے شہری اپنے پروفیشنلزم پر بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں ،اپنے کام کو جس قدر پیشہ ورانہ انداز میں یہ لوگ انجام دیتے ہیں کوئی دوسرا شہر کم از کم اس معاملے میں ان کی برابری نہیں کر سکتا۔کاروبا ر کے معاملے میں لگ بھگ تمام قومیتوں کا آپسی اعتماد مثالی ہے ۔یہی پروفیشنل اپروچ دیگر شعبوں میں بھی ہے ۔کراچی کا بزنس مین ہمیشہ دو ٹوک اور کھری بات کرے گا جبکہ لاہورئیے سے بات کی جائے تو وہ جواب دے گا ”گل ای کوئی نئیں …جیویں کہو گے کر لاں گے۔“کراچی کو آئیڈل شہر ماننے کی ایک بڑی وجہ یہاں کا لبرل ازم ہے ۔یہاں کوئی کسی کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتا، سب اپنی اپنی زندگیوں میں مست ہیں ۔لاہور اس معاملے میں اب بھی قدامت پسند ہے ۔یہاں لوگ پہلا سوال یہ پوچھتے ہیں کہ شادی کو کتنے سال ہوئے ؟دوسرا سوال بچے کتنے ہیں ؟ صرف ایک ؟ کیوں ؟ اور اس کے بعد ”حل“ بھی بتاتے ہیں !
کراچی بلاشبہ ایک کاسمو پولیٹن شہر ہے لیکن اس کا المیہ یہ ہے کہ یہاں بسنے والی قومیتیں اب ایک دوسرے سے اس طرح میل جول نہیں رکھتیں جو کسی زمانے میں اس شہر کا خاصہ ہوا کرتا تھا۔ان کے درمیان دوری اور اجنبیت ہی نہیں بلکہ دشمنی پنپ رہی ہے ۔لیاری ایک گروہ کے قبضے میں ہے تو لیاقت آباد پر کسی اور کا تسلط ہے ،سندھیوں کے اپنے گوٹھ ہیں تو پٹھانوں کے اپنے علاقے ۔مختلف قومیتوں کے درمیان co-existenceختم ہوتی جا رہی ہے اور یہ اس شہر کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔کراچی والوں کی سب سے بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ ان کا شہر ساحل سمندر پر واقع ہے لیکن سمندر ان کی سماجی زندگی میں اس طرح اثر انداز نہیں ہوتا جیسے ہونا چاہئے ۔کراچی والے ہر ویک اینڈ پر کلفٹن ضرور جاتے ہیں مگر کھانے پینے کے بعدساحل سمندر پر شاپنگ بیگز کا ڈھیر پھینک آتے ہیں ،ان کی باتوں اور گیتوں میں سمندرکی بجائے کاروبار ی عنصر کا دخل زیادہ ہے۔ پاکستان کی ”وال سٹریٹ“ یعنی آئی آئی چندریگر روڈ بھی کراچی ہی میں واقع ہے جہاں تمام بنکوں کے مرکزی دفاتر ،سٹیٹ بنک آف پاکستان ،کراچی سٹاک ایکسچینج،ملک کے بڑے ٹی وی چینلز کے ہیڈ آفس اورکئی ممالک کے کونسل خانے موجود ہیں ۔یہ شاہراہ کلاسیک اور جدید کا ایک حسین امتزاج ہے ۔
ادب کے شعبے میں کراچی ،لاہور کے مقابلے میں خاصا دبتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔یوں کہنا مناسب ہوگا کہ تحقیق کے میدان میں کراچی آگے ہے اور تخلیق کے میدان میں لاہور۔تحقیق میں کراچی کے بڑے ناموں میں ڈاکٹر جمیل جالبی،فرمان فتح پوری،ڈاکٹر محمد علی صدیقی اور اسلم فرخی شامل ہیں ۔شاعروں میں جون ایلیا،اطہر نفیس،سلیم احمد ،قمر جمیل (نثری نظم)،نقاد وں میں محمد حسن عسکری جبکہ افسانہ نگاروں میں اسد محمد خان اور مزاح نگاروں میں ابن انشا جیسے نام موجودہیں لیکن ان سب کے سرخیل مشتاق احمد یوسفی ہیں جن کا جوڑ پورے ہند سندھ میں کوئی نہیں۔دوسری طرف لاہور اپنے دامن میں اقبال ،منٹو ،فیض ،احمد ندیم قاسمی ،منیر نیازی ،اشفاق احمد، انتظار حسین ،ظفر اقبال، عبداللہ حسین ،ڈاکٹر سلیم اختر،ناصر کاظمی،بانو قدسیہ،قتیل شفائی،حفیظ جالندھری ،احسان دانش،آغا شورش کاشمیری اور ایسے کئی دیو قامت نام سمیٹے ہوئے ہے جن کے پائے کا ادیب پاکستان میں تو کیا برصغیر میں ڈھونڈنا مشکل ہے۔ علمائے دین کے حوالے سے بھی لاہور کو امتیاز حاصل ہے، یہاں پرویز ،ابو الاعلیٰ مودودی، امین احسن اصلاحی اور جاوید غامدی جیسے صاحبان علم و دانش نے اپنا سکہ منوایا البتہ لاہور کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ اب یہاں اتنے بڑے نام پیدا نہیں ہو رہے جو ماضی میں اس شہر کے سر کا تاج تھے ۔
کراچی میں ٹی وی ڈرامے کی صنعت اس وقت اپنے عروج پر ہے ،اقتصادی مرکز ہونے کی بنا پرنجی ٹی وی چینلز کے زیادہ تر ڈرامے کراچی میں ہی بنائے جا رہے ہیں مگر ان ڈراموں کا تخلیقی مواد لاہور سے مستعار لیا جا رہا ہے جن میں لکھاری اور اداکار دونوں شامل ہیں ۔رہی بات فلم کی تو یہ انڈسٹری بد ترین بحران کا شکار ضرور ہے مگر اس دوران جو بھی اچھی بری فلمیں ہیں وہ لاہور میں بن رہی ہیں۔ پاکستان کا بہترین ہدایت کار شعیب منصوربھی لاہور میں ہے۔سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت بھارتی فلم انڈسٹر ی پر جو گلوکار راج کر رہے ہیں وہ سب لاہور میں مقیم ہیں جن میں شفقت امانت علی ،راحت فتح علی خان ،علی ظفر اور عاطف اسلم (جینوئن گلوکاروں سے معذرت کے ساتھ) شامل ہیں۔جہاں تک تھیڑکا تعلق ہے تو یقینا لاہور کے پنجابی تھیٹر پر بے حد تنقید کی جاتی ہے جوکافی حد تک درست بھی ہے مگر ساتھ ہی یہ بات بھی درست ہے کہ لاہور کے تھیٹر کے مزاح کا کوئی مقابلہ نہیں ۔تھیٹر کے جو مزاحیہ اداکار یہاں کام کر رہے ہیں اور کر چکے ہیں ان کی جگت کا جواب دینا کسی اور شہر کے اداکار کے بس کی بات نہیں۔ کراچی کے پاس اس ضمن میں دو بڑے نام ہیں،معین اختر اور عمر شریف لیکن لاہور کی فہرست خاصی طویل اور با رعب ہے ۔کچھ ایسا ہی حال کالم نگاری میں بھی ہے ،پاکستان کے ٹاپ کے کالم نگار لاہور کے پاس ہیں جبکہ کچھ اسلام آباد میں مقیم ہیں ،کراچی اس شعبے میں تقریباً بانجھ ہے اور یہ اس شہر کے شایان شان نہیں ۔
ایک عجیب بات یہ ہے کہ لبرل اور پروگریسو ہونے کے باوجود کراچی کے لوگ سیاسی طور پر اتنے بالغ نظر نہیں رہے جتنے ساٹھ یا ستر کی دہائی میں تھے۔ اس زمانے میں یہ عالم تھا کہ یہاں سے ایوب خان کے مقابلے میں فاطمہ جناح کامیاب ہوئیں۔اب یہاں سے فاطمہ جناح نہیں جیت سکتیں،اب ووٹ لسانی گروہوں کو ڈالے جاتے ہیں جو ایک کراچی ہی نہیں بلکہ پاکستان کے لئے بھی قومی نقصان ہے۔ اس کے مقابلے میں لاہور کا قومی سیاست میں کردار اب بھی کلیدی ہے۔لاہور سے منتخب ہونے والوں میں ذوالفقار علی بھٹو،شیخ رشید احمد،ملک معراج خالد،اسحاق ڈار،اعتزاز احسن،شہباز شریف،نواز شریف،جاوید ہاشمی اوربینظیر بھٹوجیسے نام شامل ہیں۔ نوے کی دہائی کے بعد سے اب تک لاہور کا مزاج اینٹی اسٹیبلشمنٹ رہا ہے جبکہ کراچی کی سیاست اب اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نہیں رہی۔کراچی ،جو قومی سطح پر ایک گیم چینجرکا کردار ادا کر سکتاہے، لسانی بنیادوں پر اپنی سیاست کو علاقائی حدود تک محدود کر چکا ہے۔ اگر بانی پاکستان کا یہ شہر آج اپنا مزاج تبدیل کرلے تو ملک کی قسمت سنور جائے !
تازہ ترین