• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اینٹی کرپشن محکموں کے اختیارات کم کرنیکا متنازع آرڈر واپس

اسلام آباد (انصار عباسی) وفاقی اور ساتھ ہی پنجاب حکومت نے وفاقی حکومت کے صوبوں میں تعینات سرکاری ملازمین کیخلاف کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات کے تحت کارروائی کے صوبائی اینٹی کرپشن محکموں کے اختیارات کم کرنے کے سابقہ متنازع احکامات واپس لے لیے ہیں۔ اس معاملے پر دی نیوز کی جانب سے خبر شائع کیے جانے کے بعد، وفاقی وزارت قانون نے 13؍ مارچ کو وضاحت جاری کی جس کی بنیاد پر پنجاب حکومت نے اپنے 16؍ مارچ کے احکامات واپس لیے جس کے نتیجے میں صوبائی اینٹی کرپشن محکمے کے سابقہ پوزیشن بحال ہو چکی ہے جس میں وہ صوبے میں تعینات وفاقی حکومت کے ملازمین کیخلاف کارروائی کر سکتا ہے۔ 16؍ مارچ کو سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ (ایس اینڈ جی اے ڈی) پنجاب کی جانب سے 16؍ مارچ کو جاری کیے جانے والے خط میں لکھا ہے کہ اس ڈپارٹمنٹ کی جانب سے 7؍ مارچ 2019ء کو جاری کردہ خط اور اس میں دیے جانے والے احکامات تاریخ اجراء سے واپس لیے جا رہے ہیں، ذیل میں وزارت قانون و انصاف کی جانب سے 13؍ مارچ 2019ء کو صوبوں کے انتظامی کنٹرول میں کام کرنے والے وفاقی حکومت کے ملازمین کے حوالے سے جاری کردہ وضاحت کے مندرجات پیش کیے جا رہے ہیں: یہ واضح کیا جاتا ہے کہ صوبائی حکومتوں کے ماتحت کام کرنے والے وفاقی حکومت کے ملازمین کیخلاف صوبائی حکومتوں میں کی جانے والی کرپشن یا بدعنوانی کے الزامات کے تحت صوبائی اینٹی کرپشن محکمہ انکوائری کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے کوئی پابندی ہے اور نہ ہی کوئی ممانعت۔ تاہم، جس بات یہاں بتانا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ریاست بنام حفیظ الرحمٰن 1998ء ایس سی ایم آر 61؍ مین پاکستان کرمنل لاء ترمیمی ایکٹ 1958ء کے سیکشن (3)6 کی تشریح کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ اگر صوبائی اینٹی کرپشن محکمہ ڈیپوٹیشن پر صوبے میں کام کرنے والے وفاقی حکومت کے سول ملازم کیخلاف کارروائی کرنا چاہئے تو اسے پہلے وفاقی حکومت سے منظوری لینا ہوگی، اگر منظوری نہ لی گئی تو یہ کارروائی بغیر دائرہ اختیار (Without Jurisdiction) ہوگی۔ اسی طرح کا فیصلہ سندھ ہائی کورٹ کا بھی ہے جو ایم یوسف خان بنام ریاست 1989ء پی سی آر ایل آئی 134؍ کا ہے۔ مذکورہ بالا پالیسی گائیڈ لائن / وضاحت کے تسلسل میں، وزارت قانون نے درج ذیل ہدایات جاری کی ہیں: تاہم، یہ معاملات کا انجام نہیں۔ پاکستان کرمنل لاء ترمیمی ایکٹ 1958ء کے سیکشن (5)6 میں جو پہلی شرط بتائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا حوالے کے تحت پیشگی اجازت دستیاب نہ ہو یا اسپیشل جج کے پاس جمع نہ کرائی گئی ہو تو وہ (اسپیشل جج) فوری طور پر وفاقی حکومت کو ایک خط تحریر کرے گا جس میں کارروائی کے آغاز کیلئے منظوری جمع کرانے کی ہدایت کی جائے گی اور اگر یہ خط بھیجنے کے 60؍ روز کے اندر کوئی جواب نہ جملے تو یہ تصور کیا جائے گا کہ منظوری دیدی گئی ہے۔ خط میں تمام متعلقہ حکام / محکموں کو اس پر تعمیل کی ہدایت کی گئی ہے۔ سیکشن افسر اسٹیبلشمنٹ دوم کے دستخط سے جاری کیا جانے والا یہ خط پنجاب کے سینئر ممبران بورڈ، چیئرمین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ، تمام انتظامی سیکریٹریز، تمام کمشنرز اور تمام ذیلی محکموں / خود مختار اداروں کو لکھا گیا ہے۔ دی نیوز میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ متنازع آفس میمو جاری کرنے سے قبل وزیراعظم سے مشاورت کی گئی تھی اور نہ ہی انہیں اس سلسلے میں آگاہ کیا گیا تھا، اس میمو کا بنیادی مقصد پنجاب اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) کی کرپشن کیخلاف جاری حالیہ مہم کو نقصان پہنچانا تھا، اس مہم کی وجہ سے دیگر افسران کے ساتھ کچھ با اثر ڈی ایم جی افسران بھی پریشان ہوگئے تھے۔ وزیراعظم آفس کو اس پیشرفت کے حوالے سے دی نیوز میں 9؍ مارچ کو شائع ہونے والی خبر کے ذریعے علم ہوا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم آفس نے جاری ہونے والے متنازع آرڈر کو واپس لینے میں اہم کردار ادا کیا۔

تازہ ترین