• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غزالہ خالد

" شادی " کالفظ سنتے ہی ذہن میں خوشی کے شادیانے بجنے شروع ہوجاتے ہیں اور اگر شادی اپنے ہی کسی عزیز کی ہو تو خوشی دوچند ہو جاتی ہے۔ لڑکیاں بالیاں اور خواتین کو فوراً خیال آتا ہے کہ ہم کیا پہنیں گے ، گھر والوں سے پوچھا جاتا ہے کہ کتنے فنکشن ہو ں گے ؟ مہندی ، مایوں،شادی اور ولیمے کےملبوسات کی تیاری شروع ہوجاتی ہے ، دولہا کے والدین بری کی تیاریوں میں لگتے ہیں تو دلہن کے گھر والے جہیز اور مختلف قسم کی رسومات کو احسن طریقے سے انجام دینے کی فکرات میں غرق ہوجاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں لڑکی والوں پر بہت بوجھ ہوتا ہے ، بیٹی کی شادی کی خوشی کے ساتھ ساتھ اس کی جدائی کا غم بھی دل میں چھپائے وہ شادی کی تیا ریوں میں مصروف ہوتے ہیں ساتھ ہی اس کی شادی کے حوالے سے سیکڑوں خدشات نے ان کی راتوں کی نیندیں بھی اڑا رکھی ہوتی ہیں لیکن وہ سب کچھ دل میں چھپائے اس کے بہتر مستقبل کی امیدیں لئے اپنے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں ، یہ رشتہ بھی عجیب رشتہ ہے اپنے دل کے ٹکڑے کو اپنے ہی ہاتھوں کسی اور کو سونپنا پڑتا ہے ، خوش قسمت ہوتے ہیں وہ والدین جو بیٹی کی صحیح عمر میں اپنی زندگی میں ہی اس فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں ، رشتہ طے کرتے وقت لڑکے اور لڑکی کے گھر والے شکل صورت ، تعلیم ، قابلیت ، خاندان ، عادات اطوار کے بارے میں جتنی معلومات کر سکتے ہیں کرتے ہیں اور پھر باقی معاملات اللہ کے سپرد کرکے یہ فریضہ سر انجام دے دیتے ہیں ، شادی ہوجاتی ہے رشتے دار شادی کی رونق میں اضافہ کرکے اپنے اپنے گھر لوٹتے ہیں۔ دلہن رخصت ہوکر پیا گھر روانہ ہوجاتی ہے ، لڑکی کے والدین بیٹی کا فرض خوش اسلوبی سے ادا ہونے پر اللہ کا شکر کرتے ہیں ۔گئے وقتوں میں کہا جاتا تھا کہ لڑکی کی رخصتی کے بعد ماں باپ پیر پھیلا کر سوتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ تب بھی ایسا نہیں ہوتا ہوگا۔ لڑکی کے ماں باپ کو جہاں خوش اسلوبی سے فرض کی ادائیگی کی خوشی ہوتی ہے ،وہیں ہزاروں خدشات بھی ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ ہی کم ہوتے ہیں اور رہ گئے لڑکے کے والدین تو ان کا تو کوئی اس حوالے سے ذکر ہی نہیں کرتا کہ بیٹے کی شادی کے بعد اب ان کے کیا فرائض اور ذمہ داریاں ہیں۔ لڑکے کے والدین کے لئے لوگوں کے ذہن میں یہی آتا ہے کہ بیٹے کے ماں باپ مزے میں رہتے ہیں۔ خاص طورپر ماں تو اب ہر فکر سے آزاد ہوجائے گی، بہو آگئی وہ گھر کا کام کرے گی اور ساس آرام کریں گی۔یہ توہم نے خود دیکھا ہے کہ کچھ گھروں میں ماسیوں کو بھی ہٹا دیا جاتا ہے کہ اب بہو آگئی ہے تو ماسیوں کی ضرورت نہیں رہی ۔حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ہمارے مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں لڑکا ہو یا لڑکی، ان کے والدین کی ذمہ داری شادی کے بعد ختم نہیں ہوتی بلکہ اور بڑھ جاتی ہے۔ لڑکی کے والدین کابیٹی کو مثبت انداز میں نئی زندگی میں ایڈجسٹ ہونے میں مدد کرنا بہت اہمیت رکھتا ہے، البتہ ازدواجی معاملات میں ماں باپ کو اس وقت تک نہیں بولنا چاہئیے جب تک کہ ان کا بولنا ناگزیر نہ ہوجائے ،مشترکہ خاندان کی صورت میں لڑکے کے والدین کی ذمہ داری بہت زیادہ ہوتی ہے ۔کیونکہ جہاں دو برتن ہوتے ہیں وہاں کھٹکتے بھی ہیں، یہی زندگی ہے، صرف اور صرف صبر اور برداشت کے ذریعے ہی اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ماں باپ کے ساتھ رہنے میں جہاں کچھ ذمےداریاں بڑھتی ہیں وہیں کچھ فائدے بھی ہوتے ہیں۔ سمجھ دار والدین بیٹے اور بہو کوخوش دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور اگر انہیں ایسا محسوس ہو کہ بچوں کو ایڈجسٹ ہونے میں مشکلات کا سامنا ہے تو اپنے تجربات کی روشنی میں انہیں اپنی خانگی زندگی بہتر بنانے کےلئے مفید مشورے بھی دیتے ہیں ،کبھی کبھی آپس کےوہ مسائل ماں باپ کی مدد سے جلدی سلجھ جاتے ہیں جو الگ رہنے کی صورت میں سلجھانا مشکل ہوتےہیں لیکن اگر بیٹا اور بہو الگ رہتے ہوں تو بھی والدین کی ذمہ داری کسی طور کم نہیں ہوتی، کبھی کبھی دو بالکل مختلف مزاجوں کے انسانوں کو ایک ساتھ رہنے میں ایسی مشکلات بھی پیش آتی ہیں، جن پر قابو پانے میں والدین کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے ، دولہا اور دلہن کی نئی زندگی شروع ہوتی ہے وہ بھی ابتدائی زندگی میں جہاں ہنی مون پیریڈ انجوائے کر رہے ہوتے ہیں وہیں تھوڑا تھوڑا نروس بھی نظر آتے ہیں رشتوں کو نبھانا کبھی کبھی مشکل بھی لگ رہا ہوتا ہے اب یہاں ہم خصوصی طور پر دلہن یعنی لڑکی کی بات کرویں گے جو اپنا گھر ، اپنے ماں باپ ، بہن بھائی ، سہیلیاں ،رشتےدار ، گڑیاں ، کھلونے ، خواب ، خواہشات ، فرمائشیں ، ضدیں ، لاڈ پیار، بے فکری کی زندگی سب کچھ چھوڑ کرآنکھوں میں نئے خواب سجائے ایک نئے گھر میں تقریباً اجنبی شخص اور ماحول میں ہمیشہ کے لئے رہنے بسنے آجاتی ہے۔ہمارے ہاں عموماً لڑکیاں زیادہ عمر میں بھی نہیں بیاہی جاتیں، اوسطً بیس سے پچیس سال کی لڑکیاں دلہن بن جاتی ہیں ۔اسی الھڑ معصوم بے فکر لڑکی پر ذمہ داریوں کا ایسا بوجھ پڑتا ہے کہ وہ پریشان ہوکر رہ جاتی ہیں ، وہی دوست احباب جو ذوق و شوق سے شادی میں شریک ہوتے ہیں بمشکل ایک مہینہ خاموش رہتے ہیں اور پھر سوال شروع ہوجاتے ہیںکہ، اور بھئی کیسی چل رہی ہے آپ کی نئی بہو ؟ کوئی خوش خبری ہے یا نہیں ؟گھر کا کام شروع کیا یا ابھی تک آرام کر رہی ہے ؟ کھانا پکانا جانتی ہے یا کچھ نہیں آتا ؟باتیں کرتی ہے یا ہر وقت چپ رہتی ہے ؟ یہاں تک کے لوگوں کو نئی بہو کے سونے جاگنے کے ٹائم معلوم کرنے میں بھی دلچسپی ہوتی ہے ،ہمارے معاشرے میں زیادہ تر ساسیں بھی ایسی پائی جاتی ہیں کہ جن کے بیٹوں کو ہمیشہ بری بیوی ملتی ہے اور بیٹی کو ہمیشہ بری ساس ملتی ہے۔ یعنی وہ خود کسی سے کم نہیں ہوتیں لیکن اگر وہ اچھی ہوں اور اپنی بہو کے ساتھ سکون سے رہنا بھی چاہیں تو لوگ جو کوئی بھی ہوسکتے ہیں، کسی بھی رشتے کی شکل میں ہوسکتے ہیں ، نئے نئے پوائنٹ نکال کر لانے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں جس سے آپس میں دل برے کروائے جاسکیں ۔ نئی دلہنیں جو دل میں ارمان لئے آتی ہیں شادی کے بعد ہکا بکا رہ جاتی ہیں انہیں کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں ، اس لئے اگر وہ اچھا کرنے کا سوچ کر بھی آئی ہوتی ہیں تو ہر وقت تنقید سے ان لڑکیوں کی عقل کام ہی نہیں کرتی، اسی لئے ایسےوقت پر سمجھدار مائیں تدبر اور برداشت کا درس دیتی ہیں اور لڑکیاں جو شادی سے پہلے اپنی ماں کے ان مشوروں کو پرانے زمانے کی باتیں کہتی تھیں حیران رہ جاتی ہیں کہ واقعی ہمارے معاشرے میں سب کچھ تبدیل ہونا بہت مشکل ہے ۔

اس کی سادہ سی مثال ہے اگر ہم ایک پودا بھی ایک جگہ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ لگاتے ہیں تواس کی حد سے زیادہ نگہداشت اور دیکھ بھال کرتے ہیں ، وقت پر پانی دیتے ہیں ، دھوپ اور ہوا کا خیال رکھتے ہیں اور ساتھ ساتھ اسے محبت کی نظر سے بھی دیکھتے رہتے ہیں تب جاکر وہ جڑ پکڑتا ہے،پروان چڑھتا ہے اورپھر پھل پھول دینے کے قابل ہوتا ہے اوریہ ہم سب جانتے ہیں کہ جنگلی پودوں کے مقابلے میں محبت اور دیکھ بھال سے بڑھے پودوں کے پھل پھول بھی اپنی مثال آپ ہوتے ہیں لہذا دلہنوں کا بھی خیال کرنا پڑتا ہے ان سے محبت کرنی پڑتی ہے ،انتظار کرنا پڑتا ہے جڑ پکڑنے کی دیر ہوتی ہے کہ وہ اجنبی گھر کو اپنا سمجھتی ہے ماں باپ کے گھر کو بھول کر سسرال کی خوشی غمی میں کام آتی ہے کام بھی کرتی ہے اور محبت بھی ، پھر پھل بھی آتے ہیں اور پھول بھی ،بس تھوڑی سی محنت اور انتظار کرنا ہوتا ہے کیونکہ گھر کو گلزار بنانا آسان نہیں ہوتا ۔

تازہ ترین