• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی بینک نے پاکستان کے اقتصادی مستقبل کے بارے میں ایک جامع رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اپنے قیام کی سوویں سالگرہ تک یعنی آئندہ28 سال میں اوپر کی سطح کے متوسط آمدنی والے خوشحال ملکوں میں شامل ہونے کے لئے اسے سخت اور مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔ یہ رپورٹ ایک معاشی روڈ میپ ہے جو اسلام آباد میں ہونے والی انسانی سرمایہ کاری کانفرنس میں جاری کی گئی۔ اس میں کئی مفید اور قابل عمل مشورے شامل ہیں جن پر عمل کرکے پاکستان نہ صرف موجودہ بحران پر قابو پا سکتا ہے بلکہ ایک قابل لحاظ اقتصادی قوت بھی بن سکتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اپنے قیام کے ابتدائی تیس برسوں میں پاکستان میں ترقی کی رفتار موجودہ سست اور غیر متوازن رفتار سے کہیں زیادہ تھی اور لوگوں کا معیار زندگی بلند ہو رہا تھا مگر بعد کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے دستیاب وسائل کا موثر استعمال نہیں کیا گیا اور بہانہ بازی کی پالیسی چلتی رہی اس وقت کمزور ریونیو نظام کی وجہ سے حکومت ملک کی معاشی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں ۔ بینک کی رائے میں آئندہ عشرے میں کئے جانے والے پالیسی فیصلے پاکستان کے اقتصادی مستقبل کا فیصلہ کریں گے، بینک کی سفارشات ایک 8نکاتی ایجنڈے پر مبنی ہیں جس کے مطابق خوشحال ملک بننے کے لئے پاکستان کو آبادی پر کنٹرول کرنا، ٹیکس اصلاحات لانا اور تعلیم و صحت کا بجٹ بڑھانا ہوگا، آبادی میں اضافے کی موجودہ شرح2.4فیصد سے کم کرکے2047تک اسے 1.2 فیصد تک لانا ہوگا۔ یعنی پاکستان کی سوویں سالگرہ پر آبادی کو 31کروڑ 20لاکھ نفوس تک محدود کرنا ہوگا۔ ٹیکس ریونیو کی شرح جی ڈی پی کے 13فیصد سے بڑھا کر 20فیصد کرنا ہوگی اور علاقائی تجارت کا حجم ساڑھے 18ارب سے بڑھا کر 58ارب ڈالر تک پہنچانا ہوگا، کاروبار میں آسانیوں کے حوالے سے اس وقت پاکستان دنیا کے ملکوں میں136ویں نمبر پر ہے۔ اسے50ویں نمبر تک لانا ہوگا، یہ نشاندہی بھی کی گئی کہ پاکستان کے معاشی بحران کی بڑی وجہ ڈھانچہ جاتی چیلنجز ہیں، ترقیاتی اخراجات پورے کرنے کے لئے بیرونی قرضوں، غیر ملکی امداد اور ترسیلات زر پر انحصار کیا گیا۔ زرعی شعبے کا ملکی جی ڈی پی میں حصہ 20فیصد ہے لیکن ٹیکس ریونیو صرف0.22فیصد، عالمی بینک نے تجویز کیا ہے کہ موجودہ صورت حال پر قابو پانے کے لئے کاروباری ماحول بہتر بنایا جائے۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر شفافیت یقینی بنائی جائے۔ علاقائی روابط بڑھانے کے لئے سی پیک میں توسیع کی جائے۔ پانی کے درست استعمال کو یقینی بنایا جائے ۔ اداروں کی صلاحیتوں میں بہتری لائی جائے۔ شفافیت اور احتساب سے گورننس اور اداروں کی صلاحیتوں میں اضافہ ہو گا اور شفافیت کو ممکن بنانے کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا جائے۔ انسانی سرمائے کو کام میں لایا جائے اور انسانوں پر سرمایہ کاری کی جائے، کانفرنس میں ماہرین نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں درست پالیسیوں کے نفاذ اور اصلاحات سے شرح نمو 7سے 8فیصد تک لائی جا سکتی ہے رپورٹ کے حوالے سے دیکھا جائے تو موجودہ حکومت اقتصادی بحران پر قابو پانے کے لئے کافی سرگرم ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے اسے ملکی مفاد میں عالمی بینک کی تجاویز پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ بنک کے نائب صدر تاکوڈوڈا نے اپنی تقریر میں کہا کہ پاکستان میں اس وقت مضبوط لیڈر شپ ہے جو مشکل اور سخت فیصلے کر سکتی ہے وفاقی وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار نے یقین دلایا ہے کہ حکومت ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے لئے تیار ہے۔ اس سے شرح نمو میں اضافہ ہو گا۔ آئندہ 5برس میں بہت زیادہ اصلاحات کی جائیں گی۔ آئی ایم ایف سے مجوزہ معاہدہ بھی اگر پاکستان کے مفاد میں ہو تو اقتصادی مشکلات سے نجات کا موثر ذریعہ بن سکتا ہے۔ یہ امر نہایت خوش آئند ہے کہ ملک میں امن ہے اور بیرونی سرمایہ کار یہاںسرمایہ لگانا چاہتے ہیں۔ انہیں توانائی سمیت بہت سے شعبوں میں سرمایہ کاری کا موقع دے کر ملک کے خوشحال مستقبل کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔

تازہ ترین