• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج سے ہزاروں سال پہلے دنیا میں ریاست کا کوئی تصور نہ تھا، ملکوں کی سرحدیں ہوتی تھیں اور نہ باقاعدہ حکومتیں، کوئی لکھا پڑھا آئین ہوتا تھا اور نہ قانون، منظم فوجیں ہوتی تھیں اور نہ سرکاری محکمے۔ عدالتیں، پولیس اور کچہریاں بھی نہیں ہوتی تھیں، انسان آپس میں لڑ جھگڑ کر کسی علاقے پر قبضہ کر لیتے اور وہاں جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا قانون لاگو ہو جاتااور یوں یہ نظام چلتا رہتا۔ پھر وقت بدلا، بادشاہتیں قائم ہوئیں، حکومتیں وجود میں آئیں، دانش مند حکمرانوں نے ادارے بنائے۔ عدالتیں، پولیس اور محصولات کے محکمے قائم کیے۔ باقاعدہ آئین اور قانون البتہ نہیں لکھا گیا، بادشاہ کے پاس لامحدود اختیارات ہوتے جس کی بنیاد پر وہ خوش ہو کر کسی کو جاگیریں بخش دیتا اور کسی کو سزا کے طور پر زندہ دیوار میں چنوا دیتا۔ انسان کو مزید شعور آیا تو اُس نے سوچا کہ ایک ایسا نظام ہونا چاہئے جس میں کوئی بادشاہ کے رحم و کرم پر نہ ہو، کمزور کو طاقتور سے خوف نہ ہو، کسی لاچار کے ساتھ زیادتی نہ ہو اور انصاف کے دائرے سے کوئی باہر نہ ہو۔ اس مقصد کے حصول کے لیے کچھ سیانے لوگوں نے مزید سوچ بچار کی تو وہ اِس نتیجے پر پہنچے کہ انسانوں اور جانوروں میں فرق ہوتا ہے، جانور جنگل کے قانون کے تحت رہتے ہیں جہاں کوئی بھی طاقتور درندہ کسی بھی کمزور کو شکار کر کے اپنی خوراک بنا سکتا ہے، انسان چونکہ درندوں سے بہتر ہے سو انسانوں کے رہنے کے لیے جنگل نہیں ریاست ہونی چاہئے اور اُس میں جنگل کے قانون کے بجائے سوشل کنٹریکٹ ہونا چاہئے، یعنی ریاست اور انسانوں کے مابین ایک معاہدہ، اس سوشل کنٹریکٹ کو آج ہم آئین کہتے ہیں، جدید ریاست کی عمارت اسی سوشل کنٹریکٹ کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ یہ سوشل کنٹریکٹ ہمیں بتاتا ہے کہ کسی ریاست کا اُس کے شہریوں سے کیا معاہدہ ہے، ریاست کے شہریوں کے بنیادی حقوق کیا ہیں، اقلیتوں کا تحفظ کیسے ہو گا اور غریب، لاچار اور پسے ہوئے طبقات کو انصاف کیسے ملے گا! دنیا کا سارا قانون اس بنیادی نکتہ پر کھڑا ہے کہ کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہو جائے، اگر یہ نکتہ نکال دیا جائے تو پیچھے صرف جنگل کا قانون ہی رہ جاتا ہے اور پھر کسی ریاست کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ تمہید ختم، اب ذرا نیوزی لینڈ، بھارت اور پھر پاکستان جا کر دیکھتے ہیں کہ وہاں کون سا قانون نافذ ہے!

نیوزی لینڈ میں ہونے والی دہشت گردی نے ایک بنیادی سوال یہ اٹھایا ہےکہ جس طرح نیوزی لینڈ کی سوسائٹی نے اِس واقعے کے خلاف ردعمل ظاہر کیا ہے، کیا بھارت اور پاکستان جیسے معاشرے بھی اسی طرح ردعمل دیتے ہیں یا ان کا ردعمل مختلف ہوتا ہے؟ جب سے یہ واقعہ ہوا ہے تب سے پورا نیوزی لینڈ سوگ میں مبتلا ہے، ان کی وزیراعظم سیاہ ماتمی لباس میں کسی ماں کی طرح اپنے شہریوں کو دلاسہ دے رہی ہےاور یقین دلا رہی ہے کہ نیوزی لینڈ کی ریاست اُن کے ساتھ کھڑی ہے۔ شہریوں کا ردعمل بھی یہی ہے، وہ مسلمان نمازیوں کے پیچھے ڈھال بن کر اُن کی مساجد میں کھڑے ہو گئے ہیں۔نیوزی لینڈ کے لوگ مسلمانوں کے غم میں ایسے ہی شریک ہیں جیسے وہ ان کے اپنے ہیں۔ نیوزی لینڈرز یہ سب کچھ اس لیے نہیں کر رہے کہ ایسا کرنے سے دہشت گردی کا اگلا واقعہ نہیں ہو گا بلکہ اِس کے پیچھے اُن کی مضبوط اخلاقی اقدار ہیں، وہ سوشل کنٹریکٹ ہے، وہ ویلیو سسٹم ہے جس پر پورے معاشرے کی بنیاد ہے، اسی لیے وہ مظلوم کے ساتھ کھڑے ہیں یہ دیکھے جانے بغیر کہ مظلوم کا مذہب اور قومیت کیا ہے کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو پھر نیوزی لینڈ کے قانون اور جنگل کے قانون میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔ اگر کوئی مسلمان دہشت گرد مقامی لوگوں کو یوں قتل کرتا تب بھی نیوزی لینڈ نے اسی طرح ماتم کرنا تھا اور مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا تھا یہ دیکھے جانے بغیر کہ مظلوم کا مذہب اور قومیت کیا ہے۔

اب بھارت چلتے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا اگر ہم فقط پچھلے پانچ برس کا ڈیٹا نکال کر دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ مسلمانوں کے خلاف وہاںہر طرح کا ظلم ہوا مگر بی جے پی سرکار کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، وزیراعظم نریندر مودی نے کسی جگہ جا کر مسلمانوں سے یہ نہیں کہا کہ میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوں، ہندوستان کی ریاست آپ کے ساتھ ہے دیکھتے ہیں آپ پر کون ظلم کرتا ہے، اور تو اور بھارت کی عدالت عظمیٰ، جو کسی بھی جمہوریت میں بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے لئے داد رسی کا آخری در ہوتی ہے، نے ایودھیا کیس میں فیصلہ کرنے سے اجتناب کیا، گویا بھارتی معاشرہ اپنی مظلوم مسلم اقلیت کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا۔ مگر اسی بھارت میں جب پلوامہ حملے میں چالیس بھارتی فوجی مارے گئے تو انڈین فلموں کی ہیروئنیں بھی میدان میں آ گئیں اور خم ٹھونک کر کھڑی ہو گئیں، یعنی بھارتی سوسائٹی نے یہ ثابت کیا کہ مظلوم کا ساتھ دینے سے پہلے وہ اُس کا مذہب اور قوم دیکھتے ہیں، نیوزی لینڈ میں یہ نہیں دیکھا گیا۔

اب ذرا اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھ لیتے ہیں۔ ہم نے گزشتہ دس برس میں بدترین دہشت گردی دیکھی، ہر رنگ، نسل، مذہب، عقیدے اور قومیت کو یہاں نشانہ بنایا گیا۔ کچھ حملے مگر ایسے بھی ہوئے جن میں ہماری اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا، کہیں گرجوں میں دھماکے کیے گئے، کہیں ان کی بستیوں کو آگ لگائی گئی، کہیں کسی کی عبادت گاہ میں گھس کر قتل عام کیا گیا۔ یقیناً ان سب کی مذمت کی گئی، اظہار افسوس بھی کیا گیا مگر ریاست اُس طرح سے اِن مظلوموں کے ساتھ کھڑی نہیں ہوئی جس طرح آج نیوزی لینڈ کی ریاست مسلمانوں کے ساتھ کھڑی ہے کیونکہ ہم بھی مظلوم کا ساتھ دینے سے پہلے اُس کا مذہب دیکھتے ہیں، جب کسی غیر مسلم کی عبادت گاہ میں قتل عام ہوتا ہے تو ہم میں سے کوئی وہاں جا کر کھڑا نہیں ہوتا کہ میں مسلمان آج تمہاری ڈھال بن کر کھڑا ہوں، تم بے فکر ہو کر اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرو۔ آج ہم سب ایک دوسرے کو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کی سیاہ ماتمی لباس میں پرسہ دیتی ہوئی ویڈیوز بھیج رہے ہیں اور ایک دوسرے کو بتا رہے ہیں کہ ایسی ہوتی ہے ریاست، مگر خود جب یہ کام ہم نے کرنا تھا اُس وقت ہم نے مظلوم کا ساتھ نہیں دیا، یہی فرق ہے ایک مہذب ریاست اور جنگل کے قانون میں، اگر کسی ریاست میں مظلوم کے ساتھ کوئی کھڑا نہیں ہوتا تو سمجھ لیں وہاں جنگل کا قانون نافذ ہے، پھر کسی ریاست کی ضرورت نہیں۔

تازہ ترین