• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب مجھے یقین ہوچکا تھا کہ گولیوں کی شدید تڑتراہٹ کہیں دور سے نہیں بلکہ مسجد کے اندر سے ہی آرہی ہے، ساتھ ہی کئی نمازیوں کی چیخیں سن کر اندازہ ہوا کہ یہ چیخیں خوف کی نہیں بلکہ گولیاں لگنے کے بعد زخمی ہونے والوں کی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ ہم جیسے نہتے اور بے گناہ مسلمانوں پر گولیاں برسانے والا کون ہے لیکن اتنا ضرور معلوم تھا کہ مسجد کے اندر سینکڑوں مسلمان مرد، خواتین اور بچے موجود ہیں جن میں میرا بیٹا طلحہ بھی شامل تھا، اسی اثناء میں کئی نمازی زخمی حالت میں جان بچانے کے لیے مسجد کے مین ہال میں پہنچے اور جسے جہاں جگہ مل رہی تھی وہ وہاں پناہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا، تاہم مجھے اندازہ ہو گیا کہ اب یا تو ہم سب ایک کونے میں دبک کر دہشت گرد کی گولیوں کا نشانہ بن جائیں یا پھر کسی کو اپنی جان دیکر دوسروں کی زندگی بچانے کی کوشش کرنا پڑے گی، پھر میں نے فیصلہ کر لیا، وہی فیصلہ جس کا ذکر مَیں اکثر میں لاہور میں مقیم اپنے بھائی ڈاکٹر خورشید عالم سے کیا کرتا تھا کہ انسان کو زندگی دوسروں کی مدد کرتے ہوئے گزار نی چاہئے اور جب وہ مرے تو اس طرح مرے کہ دنیا رشک کرے، میرے پاس اب سوچنے سمجھنے کا وقت ختم ہوچکا تھا کیونکہ فائرنگ کی آواز قریب سے قریب تر ہوتی جا رہی تھی یعنی حملہ آور مسجد کے مین ہال کی جانب مسلسل فائرنگ کرتے ہوئے بڑھ رہا تھا میں نے آخری نظر اپنے جواں سال بیٹے طلحہ اور درجنوں مسلمان مردوں، خواتین اور بچوں پر ڈالی جو اب کچھ دیر بعد اس دہشت گرد کا نشانہ بننے والے تھے اور پھر میں نے حملہ آور کو روکنے کا فیصلہ کر لیا، جیسے ہی مجھے حملہ آور کی گن مسجد کے ہال میں داخل ہوتی ہوئی نظر آئی میں نے اپنی پوری طاقت مجتمع کی اور حملہ آور کی جانب لپکا، میرا حملہ آور سے فاصلہ کافی تھا میری کامیابی کے امکانات بہت کم تھے لیکن دہشت گرد کو مظلوم لوگوں کی جان لینے سے روکنے کے لیے میں آخری حد تک جانا چاہتا تھا۔ مجھے قریب آتا دیکھ کر دہشت گرد کی جدید گن کا رخ میری جانب ہو گیا اس سے قبل کہ میں اسے دبوچتا، کئی گولیاں میرے جسم کے پار ہو گئیں، شدید زخمی ہونے کے باوجود میں نے حملہ آور کو دبوچنے کی کوشش کی، میرے ہاتھ اس کے گریبان تک پہنچ بھی گئے تھے لیکن اپنے زخمی جسم کے ساتھ میں اس پر قابو نہ پا سکا اور اس کی بندوق کی مزید کئی گولیاں مجھے لہو لہان کرتی رہیں، یہاں سے میرا سفر شہادت شروع ہو چکا تھا۔ میں حملہ آور سے ٹکراتے ہوئے زمین کی طرف آرہا تھا، میرے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی، یہی میری کامیابی تھی اور یہی اس دہشت گرد کی شکست۔ وہ مجھے مار کر بھی أمر کر گیا تھا اور خود زندہ رہ کر بھی فنا ہو گیا، وہ رہتی دنیا تک انسانیت کے نام پر دھبہ بن چکا تھا، میں اب سفر آخرت کے لیے تیار تھا، مجھے خواتین، بچوں، بوڑھے اور جوانوں کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں جو مجھے تکلیف پہنچا رہی تھیں لیکن اب میں بے بس تھا اور اب معاملات اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیئے تھے، اسی اثناء میں مجھے اپنے بیٹے طلحہ نعیم کی چیخ بھی سنائی دی، وہ بھی دہشت گرد کی گولی کا نشانہ بن چکا تھا۔ مجھے شاید خدا تعالیٰ نے مزید چند ساعتیں عطا کردی تھیں جہاں چند سیکنڈ میں زندگی ایک فلم کی طرح دوبارہ میرے سامنے سے گزر رہی تھی، مجھے اپنا بچپن یاد آرہا تھا، میرے والد عبدالرشید یاد آرہے تھے جو چند برس قبل وفات پاچکے تھے، میری والدہ جن کی دعائیں ہمیشہ میرے ساتھ رہا کرتی تھیں، ان کا نام بدر رشید تھا، ان کا تعلق ہری پور ہزارہ سے تھا، میری والدہ سماجی کارکن تھیں، لوگوں کی خدمت کا جذبہ ان سے ہی ورثے میں ملا تھا، ان کے بھائی خیبر پختوانخوا کے سابق ڈئی آئی جی ڈاکٹر وسیم فضل تھے، والد صاحب پیشے کے لحاظ سے انجینئر تھے اور ہمارا بچپن قطر میں گزرا تھا۔ ملازمت کو خیر باد کہہ کر والد صاحب ایبٹ آباد منتقل ہوگئے وہیں میری ابتدائی تعلیم مکمل ہوئی، پھر مجھے اپنی نوجوانی کا دور یاد آیا جب میں اعلیٰ تعلیم کے لیے فلپائن چلا گیا جہاں سے بزنس مینجمنٹ کے شعبے میں ماسٹرز کیا اور پھر واپس پاکستان پہنچا اور لاہور میں کئی پاکستانی بینکوں میں ملازمت بھی کی۔ نو سال قبل بہتر مستقبل کی تلاش میں اہلیہ اور تینوں بچوں کے ہمراہ نیوزی لینڈ پہنچا، جہاں سے پہلے پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری حاصل کی اور ڈاکٹریٹ کرنے کا فیصلہ کیا اس دوران نیوزی لینڈ کے کئی تعلیمی اداروں میں لیکچرر کے طور پر خدمات بھی انجام دیں اور تاحال کیوی انسٹیٹیوٹ آف ٹریننگ اینڈ ایجوکیشن میں بطور لیکچرر خدمات انجام دے رہا تھا۔ میرے تینوں بیٹے مذہب سے قریب تھے۔ بڑے بیٹے طلحہ نعیم کی حال ہی میں نیوزی لینڈ کے اچھے ادارے میں ملازمت ہوئی تھی جس پر ہم سب اہل خانہ بہت خوش تھے جبکہ ہم جلد ہی اپنے لاڈلے بیٹے طلحہ کی شادی کرنے کے لیے کوشاں تھے جس کے لیے مئی میں پاکستان جانے کا پروگرام بھی تھا لیکن اب طلحہ نعیم میرے ساتھ ہی سفر آخرت کے لیے روانہ ہونے کو تھا، مسجد میں اب گولیوں کی آوازیں تھم چکی تھیں، دہشت گرد خون کی ہولی کھیل کر فرار ہو چکا تھا لیکن زخمیوں کی سسکیاں اور بچ جانے والوں کی آہ و بکا نے ماحول کو تکلیف دہ بنا دیا تھا۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا کچھ لوگ مجھے بھی ہلا جلا کر مجھ میں زندگی کے آثار تلاش کر رہے تھے لیکن میری سانسیں ختم ہونے کو تھیں اور پھر میں اپنے بیٹے طلحہ نعیم سمیت درجنوں مظلوم مسلمانوں کے ساتھ سفر آخرت پر روانہ ہو گیا۔ اس امید کے ساتھ کہ دنیا بھر میں مسلمانوں پر لگا دہشت گردی کا لیبل ہماری قربانیوں کے بعد ہٹا لیا جائے گا کیونکہ آج کے واقعے سے ثابت ہو گیا تھا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین