• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ اور کینیڈا کے پاکستانی بھی ابھی تک ڈاکٹر طاہر القادری کے ”پاکستان مشن“ اور اس کے ممکنہ مقاصد اور ٹارگٹ کے بارے میں مصروف گفتگو ہیں خصوصاً نیویارک اور ٹورنٹو کے وہ پاکستانی جو گزشتہ دو سالوں کے دوران ڈاکٹر طاہر القادری کے فتویٰ کے اجراء اور دیگر اجتماعات میں بذات خود شریک بھی تھے اور بعض تو ان اجتماعات کے انتظامات میں بھی پیش پیش تھے۔ ایسے پاکستانی بھی اب اپنے مشاہدات، تجربات اور واقعات کو ڈاکٹر طاہر القادری کے ”پاکستان مشن“ کے تناظر میں بیان کر رہے ہیں مثلاً نیویارک کی ”پاکستان لیگ آف امریکہ“ نامی تنظیم کے چیئرمین اور دیگر عہدیداروں نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کی ریاست کو گندی سیاست سے بچانے کے لئے پاکستان جانے والے علامہ طاہر القادری نے ان کی تنظیم کے سالانہ جلسہ اور ڈنر کے مہمان خصوصی کے طور پر نیویارک میں پاکستان کے قومی ترانے کو ”ناقابل احترام“ قرار دیتے ہوئے کھڑے ہونے سے انکار کر دیا تھا جبکہ ہال میں موجود تمام شرکاء اور اسٹیج پر موجود تمام عہدیدار، تنظیم کے سربراہ ڈاکٹر شفیع بیزار سمیت سبھی کھڑے ہوکر پاکستان کا قومی ترانہ سن رہے تھے مگر جلسہ کے مہمان خصوصی علامہ طاہر القادری اکیلے ہی بیٹھے رہے اور اس تقریب کی وڈیو آج بھی اس تنظیم کے ریکارڈ میں ہے اور اس بارے میں تنظیم نے مہمان خصوصی سے اس وقت احتجاج بھی کیا تھا۔ ان ایام میں علامہ طاہر القادری کینیڈین شہریت کے حصول کے عمل سے گزر کر ملکہ برطانیہ کی وفاداری کا حلف اٹھا چکے تھے۔ پاکستان لیگ آف امریکہ کے چیئرمین شفقت تنویر، عین الحق، طاہر خاں اور دیگر عہدیداروں نے اس واقعے کی نہ صرف تصدیق کی ہے بلکہ عینی شاہد ہونے کے علاوہ اس کی وڈیو کی موجودگی کا دعویٰ بھی کیا ہے اور سوال بھی اٹھایا کہ جب پاکستان کے قومی ترانے کا علامہ صاحب کیلئے کوئی احترام و تعظیم بھی نہیں رہی تو پھر پاکستان کی ”ریاست“ کو بچانے کا درد کب دل میں جاگا اور کیوں؟ اس کے علاوہ نیویارک کے ایک ممتاز بزنس مین جن کے مشہور ہال میں علامہ صاحب کے مجلد فتویٰ کے اجراء کی پہلی تقریب ہوئی تھی شفقت چوہدری نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ علامہ طاہر القادری ان کے ہال میں امریکی ایف بی آئی اور سیکرٹ سروس کی حفاظت میں تشریف لائے تھے جبکہ وہ ایک پرائیویٹ کینیڈین شہری تھے اور خطاب کے دوران اور خطاب کے بعد بھی وہ انہی انتظامات کے ساتھ واپس لے جائے گئے۔ اس طرح پاکستانی میڈیا کے ساتھ انٹرویوز میں بھی علامہ صاحب نے اپنے کینیڈا آنے اور شہریت کے حصول کے بارے میں جو موقف بیان کیا ہے ٹورنٹو کے واقفان حال اس سے بھی مختلف اور متضاد کہانیاں بیان کرتے نظر آتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ ایک عالم دین قانونی تاویل سے زیادہ اخلاقیات کا پابند ہوتاہے۔ کینیڈا کی حکمراں ملکہ برطانیہ کا حلف وفاداری اٹھانے کے لئے امیگریشن اور دیگر کتنے جتن کرنے کے دوران امریکہ و کینیڈا کے پاکستانیوں کی مشکلات حل کرنے کے لئے کیا خدمت انجام دی؟ اگر اپنے منہاج القرآن کے مراکز اور عقیدت مندوں سے لاکھوں ڈالر بلکہ کروڑوں ڈالر جمع کئے جاسکتے ہیں تو پھر علامہ صاحب یہ بتائیں کہ ان کے غیرممالک میں موجود مراکز کی کتنی عمارتیں مارگیج اور بنکوں کو سود اور ماہانہ قسطوں کی قرضدار ہیں؟ آخر پاکستان میں سیلاب، زلزلہ اور دیگر قدرتی آفات کے مواقع پر علامہ صاحب نے بیرونی دنیا سے کروڑوں ڈالرز عقیدت مندوں سے ہزار ڈالر فی کس دینے کا حکم دے کر غریب پاکستانی مسلمانوں کی مدد کیوں نہ کی؟ یا امریکی نظام میں عالم اسلام کی لابی قائم کرنے کے لئے کوئی قدم کیوں نہ اٹھایا؟ یہ سب سوالات میرے نہیں بلکہ نیویارک اور ٹورنٹو کے ان پاکستانیوں کے ہیں جنہوں نے علامہ صاحب کو قریب سے دیکھا ہے اور عزت و احترام بھی دیا ہے۔ بہرحال ڈاکٹر طاہر القادری کے ”پاکستان مشن“ کے بارے میں امریکہ و کینیڈا کے پاکستانی بھی مصروف گفتگو ہیں اور اس مشن کے نتائج بھی جاننے کے منتظر ہیں جن کا ابتدائی نتیجہ اگلے چند دنوں میں سامنے آنے کی توقع ہے۔ علامہ صاحب کو چاہئے کہ وہ کینیڈا اور امریکہ کی سیاسی اور قانونی اخلاقیات کے مطابق شفافیت، احتساب اور ریکارڈ فراہم کرنے کی تیاری بھی رکھیں کیونکہ 4جنوری کو امریکی نظام کے ایک فیصلے نے تو امریکی صدر اوباما کو بھی نہیں بخشا۔
امریکہ نظام احتساب کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ وفاقی فیڈرل الیکشن نے عوامی ووٹوں کی اکثریت سے دو مرتبہ امریکہ کا صدر منتخب ہونے والے بارک حسین اوباما کی انتخابی مہم اور ڈیموکریٹک پارٹی کی نیشنل کمیٹی پر تین لاکھ پچھتر ہزار (375000)ڈالرز کا جرمانہ عائد صرف اس لئے کیا ہے کہ 2008ء کے الیکشن کے دوران انتخابی فنڈز کے لئے ایک ہزار ڈالرز یا اس سے زائد رقم کے عطیات کو 48گھنٹوں کے اندر اندر الیکشن کمیشن کو تفصیلات سے مطلع کرنے کے قانون کی خلاف ورزی کی تھی۔ ایسی کل رقم بھی صرف1.9ملین تھی جبکہ صدر اوباما کے جمع کردہ عطیات750ملین ڈالرز تھے۔ اوباما کی انتخابی مہم نے دو لاکھ تیس ہزار ڈالرز اور باقی رقم ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی نے بطور جرمانہ ادا کردی ہے۔ گویا اگلے چار سال کیلئے بھی عوامی ووٹوں سے صدر منتخب ہونے والے امریکی صدر بارک اوباما کو ماضی کے احتساب اور قانون کی پابندی سے کوئی معافی یا رعایت نہیں ہے۔ عہدے پر فائز صدر اوباما ہوں یا بل کلنٹن ہوں یا کوئی اور عہدیدار قانون، عدالت اور امریکی اخلاقیات سے کسی کو فرار یا استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ وہائٹ ہاؤس میں مقیم اور مزید چار سال کیلئے پھر صدر اوباما کو بھی اپنے فیڈرل الیکشن کمیشن کے اپنے خلاف فیصلے کی تعمیل کرنا پڑی ہے اور جرمانہ خود بھی ادا کیا اور ان کی عوامی پارٹی نے بھی فیصلہ تسلیم کرتے ہوئے بقیہ ایک لاکھ 45ہزار ڈالرز جرمانہ ادا کیا ہے۔کیا پاکستانی حکمراں اور اپوزیشن پارٹیاں آنے والے انتخابات میں پاکستان کے الیکشن کمیشن کو ایسے فیصلے کرنے اور اس کی تعمیل کرانے کا ایسا اختیار دینے کو تیار ہیں؟ کیا علامہ طاہر القادری پاکستان واپسی، اجتماعات اور ان کے لئے عقیدت مندوں سے ملنے والے کروڑوں ڈالرز اور پاؤنڈز کا کوئی ایسا حساب اور ریکارڈ الیکشن کمیشن یا سپریم کورٹ یا پھر کسی نظام کے کینیڈین ادارے کے سامنے پیش کرنے کو تیار ہیں؟ ہمارے حکمران، سیاستدان، بیوروکریٹس اور پاکستانی نظام چلانے والا طبقہ امریکی فیشن، امریکی فوڈ، امریکی فلم اور امریکی فن کا انتہائی دلدادہ اور معتقد ہے آج کے دور میں مہذب اور ترقی یافتہ کہلانے کے لئے سپر پاور امریکہ کے لائف اسٹائل کی تقلید ہی معیار ہے۔ کیا پاکستانی نظام کے حکمراں امریکی نظام کے یہ احتسابی اصول اور قوانین بھی اپنا کر ملک کو مہذب اور ترقی یافتہ معاشروں کے ساتھ لاکھڑا کرنے کی بھی کوئی کوشش کریں گے؟ ویلنٹائن ڈے، ہالو وین پارٹیاں، امریکی وہائٹ ہاؤس طرزکے مکانات تعمیر کرنے اور امریکی ڈالروں میں اکاؤنٹس بیرون ملک رکھنے کے ساتھ ساتھ اس امریکی اصول، روایت اور رویّے کو اپنانے کی بھی ضرورت ہے جو طاقتور، مہذب اور سپر پاور امریکہ بنانے کی اساس ہے۔ رہی بات پاکستان کے غریب عوام کی تو انہیں تو غربت، ناخواندگی دور کرنے کے لئے ملنے والی امریکی امداد کے ایک ڈالر تک بھی رسائی نہیں ملتی جو پاکستانی حکمراں غریب عوام کے نام پر خود ٹھکانے لگادیتے ہیں۔
تازہ ترین