• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:محمد صادق کھوکھر…لیسٹر
لاہور میں آٹھ مارچ کو حقوقِ نسواں کے نام سے جو مظاہرہ ہوا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہوچکا ہے جوخواتین کے حقوق کے نام پرغیر ملکی آقاؤں کے ایجنڈے کی تکمیل کی خاطرشرم و حیا کی تمام حدود پامال کرنے پر اتر چکا ہے۔ انہیں خواتین کے حقوق سے کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ معاشرتی ابتری مقصود ہے۔ یہ مظاہرے درحقیقت خاندانی نظام کی تباہی اور بربادی کا پیش خیمہ تھے۔ مظاہرین جن میں خواتین کے ساتھ مردوں کی بھی خاصی تعداد موجود تھی ایسے کتبےاٹھائے ہوئے تھی جس سے معمولی سمجھ بوجھ والا شخص بھی بڑی آسانی سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ مخلوق کیا مطالبہ کر رہی ہے۔ کسی محترمہ نے کتبہ اٹھایا ہوا تھا کہ "ہم بے شرم ہی سہی" کوئی کہہ رہی تھی "میرا جسم میری سوچ میرا حق" کسی کا مطابہ تھا "میری شادی کی نہیں میری آزادی کی فکر کرو" کوئی بول رہی تھی کہ " عورت بچے پیدا کرنے والی مشین نہیں۔ " کوئی کتبے کو لہرا لہرا کرمتوجہ کر رہی تھی کہ "نکاح کو ختم کرو" کسی کی نگاہ میں "چادر اور چار دیواری بیماری" کے مترادف تھی۔ ایک صاحب نے آیام حیض کی فضیلت میں بھی کتبہ تھاما ہوا تھا۔ کوئی تھرکتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ "مجھے کیا معلوم تمہارا موزہ کہاں ہے۔" کوئی بڑے فخر سے اعلان کر رہی تھی کہ "میں اکیلی آوارہ، میں بد چلن" ان کتبوں کے علاوہ انتہائی لغو اور غلیظ کتبے و خاکے بھی موجود تھے۔ جنہیں شرم و حیا کے باعث بیان کرنا مشکل ہے۔ آزادی کے نعرے بہت تھے۔ لیکن عورتوں کے اصل مسائل کی طرف کسی کی توجہ مبذول نہیں تھی۔ البتہ شرم و حیا سےعاری اور خاندانی نظام سے آزادی کے نعرے نمایاں تھے۔ عام خواتین کی بدقسمتی دیکھئے کہ ان کے حقوق کے نام پر جو طبقہ پیش پیش ہے انہیں علم ہی نہیں کہ خواتین کے اصل مسائل کیا ہیں؟ اور وہ کن مشکلات میں گھری ہوئی ہیں؟ اس طبقے کو معلوم بھی کیوں کر ہو سکتا ہے۔ عیش و عشرت اور ناز و نعم میں پلی ہوئی ان خواتین نے دیہاتی خواتین کے ساتھ کبھی ایک دن بھی بسر نہیں کیا ہوگا۔ انہیں کیا معلوم کہ عام خواتین کے روز وشب کیسے گزرتے ہیں۔ پیٹ پالنے کی خاطر نہ صرف انہیں بلکہ ان کے بچوں اورخاوندوں کو بھی کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں؟ پو پھٹنے سے قبل وہ کام کا آغاز کرتے ہیں اور غروبِ آفتاب کے بعد جب انہیں رخصت ملتی ہے تو وہ بان کی ٹوٹی پھوٹی چارپائیوں یا زمین پر ہی تھک چور ہو کر لیٹ جاتے ہیں۔ ان کے نصیب میں بیوی بچوں سمیت مشقت ہوتی ہے۔ کوئی اپنے بیوی بچوں سمیت سانچوں میں اینٹیں ڈھالتا رہتا ہے، کوئی کسی سڑک پرکڑکتی دھوپ میں پتھر ٹورتا رہتا ہے، خواتین کھیتوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں، انہیں پانی جیسی بنیادی ضرورت کےحصول کے لئےمیلوں چلنا پڑتا ہے، کبھی ہماری فیشن ایبل خواتین جاکر تو دیکھیں کہ وہ کس طرح بیک وقت گھڑوں اور بچوں کو سنبھالے ہوئے ہوتی ہیں۔ جس معاشرے میں حکمران ملکی وسائل ہڑپ کر جائیں۔ جہاں اسمبلیوں میں ممبرانِ اسمبلی اپنی تنخواؤں اور پنشنوں کے بل منٹوں میں پاس کرلیں اور اس کے برعکس اساتذہ کئی کئی ماہ اپنی تنخواؤں سے محروم رہیں، غریبوں کے بچے معمولی دوائیوں کی عدمِ دستیابی کے باعث سسک سسک کر مر جائیں، لیکن ان کے حقوق کے علبردار بڑے بڑے ہوٹلوں میں حقوق کے نام سے کانفرنسیں منعقد کراکےلاکھوں روپے اڑا کرغربت کے خاتمے کی بات کی کریں وہاں اس حقیقت کا ادراک بھلا اس مراعات یافتہ طبقے کو کیسے ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں آج بھی بے شمار ایسی جگہیں موجود ہیں جہاں انسان اور حیوان ایک گھاٹ سے پانی پینے پر مجبور ہیں۔ لیکن ان کے لئے کوئی آواز نہیں اٹھاتا، کوئی لب کشائی نہیں کرتا، ایسے معاشرے میں جملہ حقوق صرف مخصوص طبقات کے لئے محفوظ ہیں، اخبارات کے مضامین اور فیچر وغیرہ سب مخصوص خواتین اور ان کے روزمرہ معمولات پر مبنی ہوتے ہیں، برقی ذرائع ابلاغ میں بھی صرف فیشن ایبل خواتیں کی زندگی پر مبنی ڈرامے یا صرف عشق و عاشقی کی داستانیں ہی بیان ہو رہی ہوتی ہیں، غریب اور پس ماندہ انسانوں کے مسائلِ زندگی کو کوئی موضوع نہیں بناتا۔ یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ آج کی عورت بڑی مظلوم ہے۔ ایک طرف وہ جہالت کی چکی میں پس رہی ہے، انہیں وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا، ان کے بچوں کے لئے تعلیم کی مناسب سہولتیں نہیں، ان کے خاوند بھی غربت کی چکی میں پس رہے ہیں لیکن دوسری طرف ان کے حقوق کے نام پر کام کرنے والی تنظیموں کا سارا زور انہیں اپنے بھائیوں اور خاوندوں کے خلاف صف آرا کرنے پر صرف ہو رہا ہے۔ برابری کے نام پر گھر برباد کرنے کی تدبیریں ہو رہی ہیں۔ جب گھر ٹوٹتے ہیں تو سب سے زیادہ نقصان بچوں کا ہوتا ہے۔ بچے ماں اور باپ کی شفقت کو ترستے ہیں۔ کوئی ان بچوں کے حقوق کی بات کیوں نہیں کرتا؟ جن کے والدین باہمی ناچاقی کی خاطر علیحدگی اختیارکئے ہوئے ہوتے ہیں۔ انہیں ماں اور باپ کی شفقت درکار ہوتی ہے۔ لیکن ان کے والدین ایک دوسرے کو فتح کر رہے ہوتے ہیں۔ جب میاں بیوی حقوق و فرائض کے نام سے صف آرا ہو جائیں۔ تو سکون اٹھ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غربت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے لیکن گھر میں جب صبر و شکراور قربانی کے جذبات کی بجائے حقوق و فرائض کی جنگ چھڑ جائے تو اس کا مقابلہ مشکل تر ہو جاتا ہے۔ وہاں صرف تباہی و بربادی ہی دستک دے رہی ہوتی ہے۔خواتین کے حقوق کی آواز ضرور اٹھائیں۔ انہیں تعلیم و تربیت سے آراستہ کریں۔ لوگوں میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام ایک دوسرے سے صف آرا ہوئے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔ خواہ مخواہ معاشرے کو بیہودہ بنانے سے کیا حاصل؟ آج فیملی لائف کو بچانے کی اشد ضرورت ہے۔ خاندان کی مضبوطی سے ہی معاشرے میں سکون و قرار پیدا ہوسکتا ہے جس سے الفت و محبت کے زمزمے بہہ سکتے ہیں۔ اس کے لئے صرف لذت آشنائی کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین