• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:مسز شمیم ڈیوڈ…لندن
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کشمیریوں کی تحریک ِ آزادی کو جس بے دردی، سفاکی اور وحشیانہ طریقہ سے دبانے کی کوشش کر رہی ہے وہ تمام جمہوری اقدار اور نظامِ قدرت کے انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ یہ تحریک اتنی ہی زور پکڑ رہی ہے اور پھر پلوامہ کے واقعہ کے بعد بھارتی حکومت کے ردِ عمل اور رویہ نے بھارت کی مذہبی انتہا پسندی، جابرانہ اور خود غرضانہ طرزِ حکمرانی اور جہالت کو دنیا کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں کر دیا ہے۔ اس کے بر عکس ان واقعات کے حوالہ سے پاکستان کے نہایت متوازن، مدبرانہ اور منطقی ردِ عمل نے بھارتی سیکولر ازم، مہا جمہوریت اور آزاد خیال ہونے کے تمام دعووں کا ملمع اتار دیا ہے جس نے کئی برسوں سے بین الاقوامی برادری کو اپنے اِن دعوؤں کی وجہ سے ایک سحر کے عالم میں محصور کر رکھاتھا۔ پلوامہ واقعہ کے بعد یہ د عوے ریت کے گھروندوں کی طرح ملیا میٹ ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کا روادارانہ ، صلح اور امن کا متمنی ہونے والا چہرہ دنیا کے سامنے عیاں کیا ہے۔ جس کی عالمی سطح پر بہت پذیرائی ہوئی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ پاکستان اسی سمت کی طر ف چلتا رہے گا ۔ کئی دھائیوں سے پاکستان اس مقام پر کھڑا رہا ہے۔ جہاں آج ہم بھارت کو دیکھ رہے ہیں۔ بہت سی انسانی کمزوریوں میں سے ایک بڑی کمزوری جو انسان میں پائی جاتی ہے اس کو اپنے اندر کوئی بھی عیب ہو معمولی نظر آتا ہے۔ لیکن وہی عیب کسی دوسرے شخص میں پہاڑ نما نظر آتا ہے۔ پاکستان کئی دھائیوں سے مذہبی انتہا پسندی اور تعصب کے عیب میں جکڑا رہا ہے اور اس کی وجہ سے برسوں بری طرح سے گھائل ہوتا رہا۔ پاکستان نے مذہبی انتہا پسندی کے عیب سے مالی اور قیمتی انسانی جانوں کے زیاں کی صورت میں بھاری قیمت ادا کی ہے۔ اب جب ہم اس مذہبی انتہا پسندی کو بھارت میں دیکھ رہے ہیں تو ہیں احساس ہوتا ہے کہ اس عیب کی صورت کسی قدربھیانک، خوفناک اور مکروہ ہے۔ یہ نہ صرف کسی ملک یا معاشرہ کو تباہ و برباد کرنے کے لئے زہر قاتل ہے بلکہ تمام انسانیت کے لئے تضحیک ، شرمندگی، سبکی و خفت کا سبب ہے۔ انسانی معاشرہ میں مذہبی انتہا پسندی اور تعصب کسی خوبصورت باغیچہ، میں جڑی بوٹی اور اونٹ کنارہ کے مشابہ ہے جنکو اگر ایک ایک کرکے جڑ سے اکھاڑا نہ جائے تو سارے باغیچے پر حاوی ہو کر باغیچہ کو جنگل میں تبدیل کر سکتے ہیں اسی طرح مذہبی انتہا پسندی کے منفی اثرات ملک اور معاشرہ میں توڑ پھوڑ ، نفرت، عدم برداشت ، غم و غصہ کو فروغ دیتے ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کو ایک ترقی پسند پر امن ، اعتدال پسند ملک بنانا چاہتے ہیں۔ انہوںنے اپنی تقاریر میں بارہا کہا کہ پاکستان کے تمام سنہری برابر کے شہری ہوںگے یعنی تمام شہریوں کے حقوق و فرائض برابر ہونگے۔ قائد اعظم کے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے آئین و قوانین کے بہت سے پہلوئوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مذہبی تفریق اور تعصب کی عفونت سے پاکستان مبرا اور پاک ہو۔ پلوامہ کے واقعہ کے بعد بھارت میں مذہبی انتہا پسندی اور تعصب جو نظر آیا ہے وہ خوفناک ہے لیکن اِن سیاسی حالات میں پاکستان نے بھارت کو ہر میدان یعنی دفاہی، سفارتی، اخلاقی اور بین الاقوامی رائے عامہ پر اثر انداز ہونے میں شکست دی ہے۔ اور بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔ پاکستان کو اب اس مقام پر پہنچ کر بہت احتیاط مزید تدبر اور ذمہ دارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرنا ہےجس کے لئے معمول سے زیادہ محنت اور عرق ریزی کی ضرورت ہے۔ وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بہت دفعہ کہہ چکے ہیں کہ بین الاقوامی برادری ہماری اِن کاوشوں کا جو ہم مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے کر رہے ہیں جامع اور ٹھوس ثبوت چاہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کئی حوالہ جات سے پاکستان یہ شواہد دنیا کے سامنے پر زور طریقہ سے پیش کر چکا ہے۔ بیرونی دنیا نے نہ صرف ان شواہد کو تسلیم کیا ہے بلکہ بہت سراہا بھی اور کسی حد تک پاکستان کے تشخص میں تبدیلی آئی ہے۔ مثلاً وزیر اعظم عمران خان کا پلوامہ واقعہ سے پہلے بھی بھارت کو گفت و شنید کے ذریعہ دونوں ممالک کے درمیان پائے جانے والے تنازعات کے حل کی دعوت جواباً بھارت کا ہمیشہ منفی ردِ عمل پاکستان کی نیک نیتی اور پر امن ملک ہونے کا شاہد ہے پھر پلوامہ کے واقعہ کے بعد بھارتی پائلٹ کے ساتھ حسنِ سلوک اور رہائی پاکستان کو ایک صلح اور پر امن ملک کے طور پر پیش کرتا ہے اور پھر ملک کے اندر مدراس کی اصلاح کے اقدامات حکومت کے ارادہ کی عکاسی ہے کہ وہ پاکستان میں ہر قسم کی انتہا پسندی اور شدت پسندی کا خاتمہ چاہتی ہے۔ اس سلسلہ میں لازم ہے کہ حکومت اقلیتوں اور دیگر کمزور اور دبے ہوئے طبقے مثلاً خواتین اور بچوں کے حقوق اور معاشرتی طور پر ہونے والی زیادتیوں اور مظالم کی طرف بھی خاص تو جہ دے ا ور ایسے اقدامات کرے کہ ان کے حقوق اور معاشرتی زندگی برابری پر استوار ہو۔ مذہبی انتہا پسندی نے اپنا زہر کبھی بازار اور گلی کوچوں اور کبھی سکولوں کالجوں میں اور کبھی ایوان اختیارات میں مذہبی اقلیتوں کی زندگی میں گھولا ہے۔ آسیہ بی بی کا واقعہ حالیہ دنوں کی محض ایک مثال ہے جس نے زندگی کے 8برس جیل کے اندھیر کوٹھری میں ضائع کر دیئے ہیں اسکا جرم محض یہ تھا کہ اس کا تعلق ایک کمزور اور بے آواز مذہبی اقلیت سے تھا ۔اسیہ بی بی بین الاقوامی سطح پر پاکستان میں مذہبی نفرت و امتیاز، معاشرتی نا انصافی کی پہچان کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔ وہ آٹھ سال بعدسپریم کورٹ کے مفصل فیصلے میں رہا ہونے کے باوجود خو ف و ہراس اور غیر یقینی کی زندگی بسر کر رہی ہے۔ چیمگوئیاں یہ بھی ہیں کہ حکومتی ادارے آسیہ بی بی کے غیر ممالک پناہ لینے میں د لچسپی نہیں رکھتے۔اندیشہ یہ ہے کہ بیرون ملک جا کر وہ پاکستان کی بدنامی کا باعث نہ بن جائے ۔ اس حوالہ سے منطقی سوچ کی آواز یہ ہے کہ پاکستان کی جتنی بدنامی ہونی تھی وہ ہو چکی ہے۔ اور اس بدنامی کا موثر تریاق یہ ہے کہ حکومت باوقار طریقہ سے آسیہ بی بی کو بیرون ملک محفوظ طریقہ سے پہنچائے کیونکہ مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں آسیہ بی بی کی جان کو خطرہ ہے۔ ایسے حکومتی اقدام سے نہ صرف حکومت بلکہ پاکستان کی ساکھ میں اضافہ ہوگا یہ ایک اور ثبوت ہو گا کہ پاکستان ایک پُر امن اوراعتدال پسند ملک ہے۔
تازہ ترین