• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’میرا کراچی‘‘ بدلتے شہر کی رونقیں تو بحال ہوگئیں، لیکن ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے !

طاہر حبیب

1970ءسے پہلے کا کراچی،سماجی اور ثقافتی لحاظ سے ملک کا سب سے مختلف اور منفرد شہر تھا،انسان دوستی،غریب پروری،محبت، یگانگت اور علم و دانش اس شہر کی پہچان تھی لیکن پھر ہوا یہ کہ دور ظلمت نے اس شہر کو تاک لیا۔روشنیاں اندھیروں میں اور محبت،نفرت میں بدلنے لگی، یہاں تک کہ علم و ادب کا گہوارہ کہلانے والا شہر پاکستان کا خطرناک ترین شہر بن گیا۔ایسا کیوں ہوا اور کس نے کیا،یہ سب پر عیاں ہے۔غیروں کے ساتھ ساتھ اپنے بھی اس کے ذمے دار نکلے، لیکن اب یہ ماضی کے قصّے ہیں۔کراچی کی رونقیں پھر سے لوٹ رہی ہیں،کراچی بدل رہا ہے،زندگی کی طرف لوٹ رہا ہے۔وہ شہر جہاں سرشام ہولناک سناٹے ڈیرہ ڈال لیتے تھے،اب اس کی راتیں جاگ رہی ہیں۔سڑکوں پر رات گئے تک ٹریفک کا اژدھام رہتا ہے۔شادی ہالز کے باہر دن کا سماں نظر آتا ہے۔چھوٹے بڑے ہوٹلز میں کھانے پینے والوں کا ہجوم،شہر میں عافیت امن و امان کا پتا دیتا ہے البتہ پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری اسٹریٹ کرائمز پر قابو نہیں پا سکی ہے۔ویسے بھی یہ نفری دو ڈھائی کروڑ آبادی کی ضروریات کے مقابلے میں ناکافی ہے۔

کراچی میں پی ایس ایل میچوں کے انعقاد سے کراچی کی رونقیں مزید بڑھی ہیں۔ شہریوں نے جس جوش و خروش کا مظاہرہ کیا اور پرامن ماحول کو برقرار رکھا، اس سے یہ تمام منفی تاثرات دم توڑ گئے کہ کراچی والے قومی دھارے میں شامل نہیں ہیں پاکستان سپر لیگ کی اختتامی تقریب انتہائی اثر انگیز تھی،صدر مملکت عارف علوی،آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور دیگر اہم شخصیات کی موجودگی نے اس میچ کو یادگار بنا دیا۔ کراچی والے اب جان چکے ہیں کہ امن اس شہر کی واحد ضرورت ہے۔لسانی،علاقائی، فرقہ وارانہ بنیاد پر شہر کو تقسیم کرنے والے منہ کی کھا چکے ہیں۔اس شہر کے باسیوں کے دلوں میں ان قوتوں نے فاصلے پیدا کئے تھے جو اس شہر کو قومی دھارے سے کاٹ کر اپنے مفادات حاصل کرنے کی خواہاں تھیں۔کراچی میں امن تو قائم ہو گیا ہے،مگر مزید اہم اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔کراچی میں بیشتر ترقیاتی منصوبے ادھورے ہیں جنہیں جلد از جلد مکمل کیا جانا چاہئے اور اس کے ساتھ ہی مزید ترقیاتی منصوبے بھی شروع کئے جائیں۔ صوبائی حکومت نے حال ہی میں کچھ اہم مقامات پر تعمیراتی منصوبوں کا آغاز کیا ہے لیکن کراچی کے شہری ماضی میں شروع کئے جانے والے ترقیاتی منصوبوں میں تاخیر کے حوالے سے خوف زدہ ہیں کہ کہیں یہ منصوبے بھی شہریوں کیلئے مشکلات کا سبب نہ بن جائیں۔ گرین لائن کے عظیم الشان منصوبے میں تاخیر کے سبب کروڑوں شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ایم اے جناح روڈ کے دونوں ٹریک گرومندر اور سیونتھ ڈے اسپتال سے بند ہیں،متبادل سڑکوں پر ٹریفک کو رواں رکھنے کے انتظامات موثر نہیں ہیں،ٹریفک رینگ رینگ کر چلتا ہے، منٹوں کا فاصلہ گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔روزانہ لاکھوں پیداوار ی گھنٹے ضائع ہو جاتے ہیں۔ شہریوں کے مزاج میں چڑچڑاپن اور عدم برداشت جیسے منفی رویّے فروغ پا رہے ہیں۔یہ علامت شہر کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ مناسب ہو گا کہ ہنگامی بنیاد پر شہر کے تمام ترقیاتی منصوبے جلدازجلد مکمل کئے جائیں اور جہاں جہاں نئے منصوبوں کی ضرورت ہے وہاں تاخیر کے بغیر ان کا آغاز کیا جائے۔ کراچی کو وفاقی اور صوبے کی حکومتوں کی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔اس شہر کو اگر آگے بڑھانا ہے،ترقی کی راہ پر چلانا ہے تو اسٹریٹ کرائمز کے خاتمے پر خاص طور پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی تاکہ کراچی کے شہری بے خوف و خطر زندگی کے معمولات میں حصّہ لے سکیں۔ہماری گلیاں، محلّے،شاہراہیں محفوظ ہوں گی تو شہر ترقی کرے گا۔اس شہر کی اہم ترین ضرورت،پیشہ ورانہ اور مستعد پولیس فورس بھی ہے،اعلیٰ حکام پولیس کو مجرمانہ ذہنیت کے حامل اہل کاروں سے پاک کرنے پر توجہ تو دے رہے ہیں مگر یہ ایک مستقل نوعیت کا کام ہے،اس مقصد کیلئے اگر معزز شہریوں پر مشتمل خصوصی داد رسی کمیٹیاں قائم کی جائیں تو اس کے خاطرخواہ نتائج نکل سکتے ہیں۔

تازہ ترین