• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈائی اِنگ کلب بھی بڑے مزے کی چیز ہے۔ اگر آپ اس میں نئے نئے داخل ہو رہے ہیں تو ایک بات ضرور یاد رکھئے کہ ایک ہی جست میں وائٹ سے بلیک نہ ہو جائیں بلکہ یہ عمل بتدریج اور غیر محسوس طریقے سے پایہ تکمیل کو پہنچنا چاہئے۔ پہلی بار سفیدی میں معمولی سی سیاہی، اگلی بار ذرا زیادہ پھر اس سے زیادہ اور یوں پانچ، سات کوششوں میں مقام مطلوب کو پہنچیں۔ یوں ٹرانسفارمیشن کا یہ عمل بخیر و خوبی طے پا جائے گا اور آپ اور آپ کے اردگرد کے لوگ اس ناگہانی صورتحال سے محفوظ رہیں گے جو برمنگھم کے کمپنی منیجر پیٹر براس کو تو پیش آئی تھی۔ موصوف نے جب یہ دیکھا کہ اسٹاف اب اسے ایک سٹھیائے ہوئے بابے کے طور پر لے رہا ہے اور کم سن سیکرٹری کی کھی کھی ضرورت سے زیادہ ہوتی جا رہی ہے تو ایک انڈین دوست کے مشورے سے یکدم جوان ہونے کے نسخے پر عمل کیا اور بالوں پر گہرا رنگ چڑھا لیا۔ اگلے روز دفتر گئے تو حیرت کی ماری سیکرٹری ہوش و حواس گنوا بیٹھی۔ ذرا سنبھلی تو ایک کولیگ کو فون کر دیا۔ You know, the boss has dyed. خبر آگے سے آگے پھیلتی گئی۔ اظہار افسوس کے ساتھ ساتھ ہر کوئی کہہ رہا تھا ”آخر ہوا کیا، کل تک تو بھلے چنگے تھے“ اور جب یہ عقدہ کھلا کہ موصوف فوت نہیں ہوئے، بالوں کو ڈائی کیا ہے… تو سب کا ہنس ہنس کر برا حال تھا یعنی He has not died, he has just dyed. اور باس کو حیات نو کی پارٹی دینا پڑی تھی۔
ڈاکٹر صفدر محمود سے راقم کا عقیدت و احترام کا رشتہ ہے۔ شاگرد بننے سے یوں محروم رہے کہ موصوف گورنمنٹ کالج سے نکل رہے تھے اور ہم داخل۔ لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں، میں نے نوٹ کیا ہے کہ بال ڈائی کرنے والوں کے متعلق ان کے افکار بس کچھ ایسے ہی ہیں اور دو نمبر ”نوجوانوں“ کا یہ فعل انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ موصوف نے اپنے ایک حالیہ کالم میں بالوں کو بوٹ پالش سے چمکانے والی بات بھی خوب کی۔ کوئی عشرہ پیشتر ایک ون اسٹار جنرل دوسرے فور اسٹار جنرل اور صدر مملکت کے پریس سیکرٹری ہوا کرتے تھے۔ کسی اخبار نے ان کے بارے میں یہی بوٹ پالش والی بات لکھ دی تھی۔ موصوف بہت ناراض ہوئے تھے اور لکھنے والے کو جان کے لالے پڑ گئے تھے۔ سنا ہے اور اللہ کرے ٹھیک ہی سنا ہو، کہ اب اس قسم کی واہیاتی کے امکانات کم ہو گئے ہیں۔ رہی ڈاکٹر صاحب کی یہ شکایت کہ لوگ یہ رنگ والا جھنجھٹ کیوں پالتے ہیں اور گریس فل بوڑھے کیوں نہیں ہوتے؟ لگتا ہے ہم سب سخت مغالطے میں ہیں کہ قدرت نے ہمیں یعنی ہم میں ہر ایک کو بنا کر وہ سانچہ توڑ دیا۔
سو ”ہم چو ما دیگرے نیست“ یعنی ہمارے جیسا کوئی نہیں اور جب اس نابغہ شے کے پرزے بلکہ پرخچے اپنی آنکھوں کے سامنے اڑتے دیکھتے ہیں تو صدمے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بیوٹی پارلرز اور مساج سینٹرز سے لے کر دیسی، ولایتی ہربلز کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ جو افورڈ کر سکتے ہیں، کاسمیٹک سرجری کی طرف نکل جاتے ہیں اور جو اور کچھ نہیں کر سکتے بڑھاپے کے ہاتھوں مکمل پسپائی کا بھرم رکھنے کیلئے بال رنگ لیتے ہیں۔
پھر ہم اسٹیٹس کو کے لوگ ہیں، نئی دنیاؤں میں داخل ہونے سے ڈرتے ہیں۔ جب ”لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایّام تو“ کی حسرت پوری نہیں ہوتی تو ترلوں پر اتر آتے ہیں اور ان میں سے ایک ترلا چٹکی بھر کالا رنگ بھی ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ زندگی میں ٹینشنز بہت ہیں۔ بڑھاپا بھی ایک ٹینشن ہے، بال رنگنے سے اگر یہ ذرا کم ہو جائے تو کیا حرج ہے۔ ایک مکتبہٴ فکر کے مطابق زندگی میں اصل چیز کامیابی ہے،کامیاب لوگ اپنے آپ میں مگن رہتے ہیں اور ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کی پروا نہیں کرتے اور انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کے بال سفید ہیں یا سیاہ۔ ہمارے ایک دوست اس کی توجیہہ یوں کرتے ہیں کہ اصل میں انہیں کسی کو جھانسہ دینے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی کیونکہ جھانسے میں آنے کی خواہش مندوں کی پہلے ہی قطاریں لگی ہوتی ہیں اور رہی یہ بات کہ ہمارے ہاں سفید بالوں کی عزت ہے۔ بزرگوار، بابا جی، محترم، میاں جی اور کچھ نہیں تو انکل کہہ کر پکارے جاتے ہیں۔ مگر ہمارے اس دوست کا کیا کیا جائے جو انکل کہنے والے ہر چھوٹے بڑے سے لڑ پڑتا ہے کہ خبردار جو مجھے انکل کہا، میری تمہاری کوئی رشتہ داری نہیں۔ایک زمانہ تھا کہ صرف ایکٹر ہی بالوں کو رنگا کرتے تھے۔ کردار کی ضرورت کے مطابق مختلف روپ بھرنے کیلئے… یوں بھی ان کی کون سی چیز اصلی ہوتی ہے؟ پھر سیاستدان میدان میں اترے۔ اے کے فضل الحق، سہروردی، اسکندر مرزا، ایوب خان، ضیاء الحق، مشرف سب ہی اس رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ البتہ قائداعظم، لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو اور فاروق لغاری وغیرہ اس چکّر میں نہیں آئے۔ قائداعظم اور قائد عوام تو خاص طور پر سفید بالوں میں بہت گریس فل لگتے تھے۔ عالمی سیاستدانوں میں برزنیف اور رونالڈ ریگن عمر کی آٹھویں دہائی میں بھی بالوں کو نہایت اہتمام سے ڈائی کیاکرتے تھے۔ موجودہ پاکستانی لاٹ میں بھی سیاہی غالب آتی جا رہی ہے۔ اعتزاز احسن، احسن اقبال اور جماندرو، باغی جاوید ہاشمی جیسے بھی پسپا ہو رہے ہیں جبکہ جناب صدر، وزیراعظم، وزیر داخلہ اور چیف جسٹس صاحب کے تو کیا ہی کہنے؟ اور بعض تو یہ ایکٹویٹی کچھ اس تیکنیک کے ساتھ کرتے ہیں کہ ”صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں“ والی کیفیت ہوتی ہے۔ رنگ کچھ اس مہارت سے استعمال ہوتا ہے کہ دیکھنے والا شبہ میں پڑ جاتا ہے کہ شاید اصلی ہی ہو۔ مثال دینا مشکل ہو گا۔ شاید آرمی چیف کو اس کیٹیگری میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
سول سروس کے راستے عدلیہ میں در آنے والے لاہور ہائیکورٹ کے ایک نامی گرامی چیف جسٹس ایم آر کیانی نے اپنے معروف زمانہ مضمون "On growing long hair" کے حوالے سے ایک بار کہا تھا کہ بالوں کو لمبا کرنے کیلئے بالوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ رنگنے کیلئے بھی یقیناً بال ہونے چاہئیں مگر بعض لوگ کیانی مرحوم کے اس فرمان کو غلط ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ گدی پر موجود چند بالوں کو بڑی مہارت سے رنگ بھی لیتے ہیں اور بڑھا بھی… اور بعض تو اتنے لمبے کر لیتے ہیں کہ رِنگ چھلا ڈال کر ماڈرن نوجوانوں سے گتڑی بھی بنا لیتے ہیں۔ دنیا میں بننے سنورنے کے جنون کا عالم یہ ہے کہ باہر والے تو سفر آخرت کے حوالے سے بھی وصیت کر جاتے ہیں کہ فلاں لباس پہنانا، فلاں جگہ سے میک اپ کرانا، فلاں رنگ کے بال ڈائی کرانا۔ خواتین تو بلانڈ کی خاص فرمائش کرتی ہیں۔ آخر میں ایک گزارش کہ ظاہری لیپا پوتی سے کچھ نہیں ہوتا، یہ محض طفل تسلّی ہے۔ ماہ و سال کی دست برد سے بچنا محال ہے۔ عین آپ کی آنکھوں کے سامنے مدتوں سے مستعمل اور انتہائی معتبر اعضاء یوں جواب دے جاتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے لہٰذا بڑھاپے میں ڈینٹنگ، پینٹنگ سے کہیں ضروری ہے کہ زندگی بھر صحت کا خیال رکھیں۔ جنک فوڈ سے خود بھی بچیں، بچّوں کو بھی بچائیں۔ ہمارے شہر کچنز میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ بازاری کھانوں کے اثرات بد سامنے آ رہے ہیں۔ ایک اسٹڈی کے مطابق لاہور اور فیصل آباد جیسے شہروں میں مکمل صحت مند 10فیصد بھی نہیں رہ گئے ہیں۔
تازہ ترین