• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان نے منگل کو توانائی کے بحران پر قابو پانے کی مسلسل کوششوں کے نتیجے میں ایک اور بڑی کامیابی اس وقت حاصل کر لی جب ملکی تاریخ میں تھر کے کوئلے سے پیدا کی جانے والی330میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کر لی گئی۔ سندھ کے صحرائے تھر میں کوئلے کے175ارب ٹن ذخائر موجود ہیں جنہیں بروئےکار لاکر بجلی کی پیداوار کے لئے ملک غیر ملکی ایندھن یعنی پیٹرول، ڈیزل، گیس وغیرہ کی درآمد سے نجات حاصل کر کے اوسطاً سالانہ6ارب 10کروڑ ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ بچا سکتا ہے جس کی اس وقت پاکستان کو بہت ضرورت ہے۔ دو بڑی پاکستانی اور چینی انجینئرنگ کمپنیوں کے اشتراک سے قائم ہونے والے تھر کول پاور پلانٹ نے نیشنل گرڈ کو بجلی کی فراہمی شروع کردی ہے جسے ماہرین نے ملک میں توانائی کے منظر نامے کو یکسر تبدیل کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت 660 میگاواٹ بجلی کی پیداواری گنجائش والے اس پلانٹ کی تعمیر کا آغاز اپریل2016میں ہوا تھا۔ اس کے پہلے یونٹ نے کام شروع کردیا ہے جبکہ دوسرا یونٹ اگلے ماہ چالو ہو جائے گا اور جون میں دونوں یونٹ باقاعدہ کمرشل آپریشن شروع کردیں گے۔ بجلی کی پیداوار کے لئے متعلقہ کمپنی سالانہ 83لاکھ ٹن کوئلہ استعمال کرے گی جو اسے مقامی کول مائنگ کمپنی کی طرف سے فراہم کیا جائے گا۔ کوئلہ جلانے کے لئے ایسا طریق کار اپنایا گیا ہے جس سے علاقے میں فضائی آلودگی کے خدشات ختم ہو جائیں گے۔ منگل کو منصوبے کی کنٹریکٹر چینی کمپنی کے عہدیداروں کی موجودگی میں تھرکول بجلی کو نیشنل گرڈ سے منسلک کرنے کی باقاعدہ تقریب ہوئی جس میں وزیراعلیٰ سندھ، انجینئرنگ فرموں کے سربراہ اور اعلیٰ شخصیات شریک ہوئیں۔ اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے اور تھر کے کوئلے سے بجلی کی پیداوار کا آغاز پورے ملک کے لئے باعث ِفخر ہے۔ بجلی تیار کرنے کا یہ منصوبہ سی پیک کے ابتدائی منصوبوں میں سے ایک ہے، توانائی کے بحران کو عالمی ماہرین پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دے چکے ہیں جس پر قابو نہیں پایا جاتا تو اس کے تباہ کن اقتصادی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ بجلی کی شدید قلت کی وجہ سے حالیہ برسوں میں نہ صرف سیکڑوں مقامی کارخانے جزوی یا کلی طور پر بند ہو چکے ہیں بلکہ بعض غیر ملکی کمپنیوں نے بھی یہاں اپنا کاروبار سمیٹ لیا ہے۔ گرمیوں میں شہروں میں دس سے بارہ جبکہ دیہی علاقوں میں بیس بیس گھنٹے بجلی بند رہنے کی شکایات ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق روزانہ پانچ ہزار میگاواٹ بجلی کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو بعض صورتوں میں 8ہزار میگاواٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ اس سے جی ڈی پی کو 4فیصد نقصان کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ اس وقت پیک آورز میں 20800میگاواٹ بجلی کی ضرورت بتائی جاتی ہے جو مستقبل قریب میں 32ہزار تک پہنچ سکتی ہے جبکہ پیدواری گنجائش23ہزار میگاواٹ ہے۔ اس صورت حال میں بجلی کی پیداوار میں تیزی سے اضافہ وقت کی اشد ضرورت ہے۔ پھر پیداوار بڑھانے کے ساتھ ساتھ ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے نظام کی خامیاں دور کرنے اور لائن لاسز پر قابو پانے کے لئے ٹھوس اقدامات اور اصلاحات کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے لئے قابلِ عمل پالیسی تشکیل دینا ہوگی۔ تھرکول پاور پروجیکٹ میں سو فیصد مقامی کوئلہ استعمال ہو گا جس سے ملک کو سستی اور وافر بجلی مہیا ہو گی ۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے مطابق تھرکول بلاکIIسے4ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی جبکہ تھر میں ایسے مزید 100بلاک بنانے کی گنجائش ہے۔ ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی وافر کوئلہ دستیاب ہے جسے بروئے کار لاکر ہم بجلی کی قلت دور کر سکتے ہیں۔ پانی سے بجلی تیار کرنے کے لئے چھوٹے بڑے ڈیمز بنانے اور سورج کی روشنی اور ہوا سے بھی بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اس کے لئے ترغیبات دے تاکہ ملکی معیشت کو مضبوط بنایا جا سکے۔ توقع کی جا سکتی ہے کہ تھرکول پروجیکٹ اس معاملےمیں مہمیز کا کام دے گا۔

تازہ ترین