• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میری یہ پھانسی کے لیے پھانسی گھاٹ کی طرف لے کر جانے والے پہلے قیدی سے ملاقات نہیں تھی ۔لیکن آج پہلی مرتبہ میری آنکھوں سے آنسورواں تھے ۔قیدی خوبصورت نوجوان تھا۔گورا رنگ اور اسکے چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی تھی ۔اسکے گھنے سیاہ بال اسکی نوجوانی اور شخصیت میں بڑا نکھار پیدا کر رہے تھے۔ میں جب اسکو کال کوٹھری میں ملاتو مجھے بڑا رنج ہورہا تھا کہ اس سجیلے جوان کو موت کی سزا ہو چکی ہے ۔لیکن اس نے کام ہی ایسا کیا تھا ۔
ہاں اس نے رقابت میں آکرکسی کے ارمانوں کا خون کر دیا تھا۔کسی ماں کا لخت جگر مار دیا تھا کسی والد سے اس کے جوان بیٹے کو چھین لیا تھااوربہنوں کے بھائی کو اسوقت گولی مار کر موت کی نیند سلا دیا تھا۔جب وہ اپنے بھائی کی منگنی کی رسم ادا کر رہی تھیں ۔لیکن اسکو رنج تھا کہ جس سے وہ محبت کرتا ہے ۔وہ کسی اور سے بیا ہی جار ہی ہے ۔وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا ۔اور اس نے قتل جیسا گھنا وٴنا جرم کر لیا اور پھر اس نے عدالت کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف بھی کرلیا تھا۔اس لیے آج اسے سزائے موت دی جار ہی تھی ۔میں نے اپنی جیل کی ملازمت میں جتنے بھی پھانسی گھاٹ کی طرف جاتے ہوئے قیدیوں کو دیکھا تھا وہ ہمت ہار چکے ہوتے تھے ۔وہ سہارے کے بغیر نہیں چل سکتے تھے ۔لیکن یہ نوجوان بغیر کسی مزاحمت اور سہارے کے پھانسی گھاٹ کی طرف جا رہا تھا ۔میری آنکھوں میں آنسو اسکی ایک دن پہلے کی اس خواہش کی وجہ سے امڈ آئے تھے جو اس نے مجھ سے کی تھی اور وعدہ لیتے ہوئے مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا آپ میرے جنازے میں آئیں گے ۔تو زبان ساتھ نہ دینے کہ وجہ سے میں اس کاکوئی جواب نہ دے سکا اس نے دوبارہ بچوں کی طرح بلکتے ہوئے پوچھا آپ میرے جنازے میں آئیں گے ۔
مجھے معلوم تھا کہ اس بچے کی آخری ملاقاتیں ہو چکی ہیں صبح اسکو پھانسی دے دی جائے گی ۔لیکن پھربھی اسکے سامنے میرا حوصلہ نہیں ہو رہا تھا کہ میں اسکوکہہ سکوں کہ ہاں میں تمہارے جنازے میں آؤں گا ۔لیکن اسکے اصرار نے مجھے اثبات میں سر ہلانے پر مجبور کر دیا تو اس نے مجھے ایک کپڑے میں لپٹی ہوئی پر فیوم کی بوتل دی جو استعمال شدہ تھی لیکن اس میں اب بھی کچھ پرفیوم باقی تھا۔پرفیوم کی وہ بوتل میر ی طرف بڑھاتے ہوئے اس نے کہا کہ جب مجھے نہلا کر کفن پہنا دیا جائے تو اس پرفیوم کا میرے کفن پر اسپرے کر دیجئے گا اور کسی کو اس پرفیوم کے بارے میں یہ نہ بتائیے گاکہ یہ کہاں سے آیا ہے۔ میں حیران اسکا منہ تک رہا تھا کیونکہ ایک تو کال کوٹھری میں پرفیوم کی بوتل چھپا ئی نہیں جا سکتی اور نہ اس کو رکھنے کی اجازت ہوتی ہے۔لیکن میرے اندر اس سے یہ پوچھنے کی ہمت نہ تھی کہ اس سے پوچھوں کہ تم نے یہ بوتل کیسے چھپائے رکھی ۔لیکن میں نے اس سے یہ ضرور پوچھ لیا کہ یہ پرفیوم کہاں سے آیا ہے ۔اسکی آنکھیں بھر آئیں اس نے منہ دوسری طرف پھیر لیا تاکہ میں اسکے آنسو نہ دیکھ سکوں ۔اور وہ ڈبڈبائی آواز میں کہنے لگا یہ میری محبت کا میرے لیے پہلا اور آخری تحفہ تھا ۔جو میں نے اپنی جان سے زیادہ سنبھال کررکھا تھا۔کبھی کبھی استعمال بھی کیا ہے ۔لیکن یہ تھوڑا سا اپنے کفن کے لیے بچا کے رکھا تھا ۔میں اس نوجوان قیدی کی جو قید کے دوران میرا دوست بھی بن چکا تھا گفتگو سن کر گنگ ہوچکا تھا ۔آج وہ میرے سامنے پھانسی گھاٹ کی طرف جا رہا تھا ۔وہ ساری رات عبادت کرتا رہا تھا ۔کچھ ہی لمحوں کے بعد اسے پھانسی دے دی گئی ۔اللہ تعالیٰ اسکے گناہ معاف فرمائے ۔آمین ۔یہ واقعہ جیل کے ایک اہلکار نے میری ایک یونیورسٹی فیلو کے سامنے کئی سال پہلے اس وقت سنایا تھا جب وہ لندن سے ریسرچ کے لئے پاکستان آئی تھی اور میں اسے اڈیالہ جیل لے گیا تھا۔آج اسکی اچانک لندن سے کال آگئی ۔وہ پاکستان میں کرائم کے حوالے سے کچھ ڈیٹا اکھٹا کرنا چاہ رہی تھی اور میں اس وقت کالم لکھنے کی تیاری کر رہا تھا۔ اس وقت میری یونیورسٹی فیلو کی کال نے مجھے یہ واقعہ یاد کرا دیااور میرا قلم اس واقعہ کی طرف چل نکلا حالانکہ میں نے اپنے کالم کے لئے ایک دوسرا موضوع سوچ رکھا تھا۔مجھے نہیں معلوم کہ مجھے واقعہ لکھنا چاہیے تھا یا نہیں ۔لیکن میں یہ ضرور کہونگا کہ آج سے کچھ سال پہلے میں نے جب اپنی یونیورسٹی فیلوکے ساتھ اڈیالہ جیل کا دورہ کیا تھا۔تو مجھے وہ ایک عجیب دنیا اور ایک عجیب شہر معلوم ہوا تھا ۔جسمیں اسوقت چھ ہزار کے قریب قیدی اپنی سزائیں کاٹ رہے تھے ۔کچھ ایسے قیدی بھی تھے جو سالہا سال سے قید کاٹ رہے تھے ۔لیکن انکے مقدمات کا فیصلہ نہیں ہو رہا تھا ۔اس شہر عجیب میں بچے بھی قید تھے اور عورتیں بھی بوڑھے بھی اورنوجوان بھی اور ہر شخص ایک ایسی کہانی لیے ہوئے تھا کہ سن کر روح کانپ جاتی تھی ۔جیل میں قیدیوں کی تربیت کے حوالے سے کچھ اچھی کوششیں ہو رہی تھیں ۔لیکن میں نے محسوس کیا کہ ان قیدیوں کو معاشرے کا اچھا فردبنانے کے لیے وہ کچھ نہیں کیا جا رہا جو ہونا چاہیے ۔کیونکہ میں نے اسوقت اڈیالہ جیل میں ہی قیدیوں کی ایک وین کے پیچھے لکھاہوا پڑھا تھاکہ نفرت مجر م سے نہیں بلکہ جرم سے کرنی چاہیے ۔
تازہ ترین