• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس امر میں کوئی شک نہیں کہ جھوٹی گواہی ہمارے نظام انصاف کے رگ و پے میں سرایت کردہ ایسا مرض ہے جو مقدمات کی بے جا طوالت، پیچیدگی اور الجھائو کا بنیادی سبب بنتا ہے۔ اس مرضکا خاتمہ کئے بغیر بروقت فراہمی انصاف کا خواب پورا نہیں ہو سکتا، یہی وجہ ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فروری میں اپنا عہدہ سنبھالتے ہی اعلان کیا تھا کہ وہ جھوٹے مقدمات کے سیلاب کے سامنے ڈیم بنانے کے خواہاں ہیں۔ 5مارچ کو انہوں نے ایک مقدمۂ قتل کی سماعت کے دوران ایک جھوٹے گواہ کو کارروائی کیلئے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے پاس بھیجتے ہوئے کہا کہ دینِ متین بھی اس گواہی کو مکمل طور پر رد کرتا ہے جس میں ذرہ برابر بھی جھوٹ ہو۔ اپنے اس عزم کی تکمیل میں ایک اور قدم آگے بڑھتے ہوئے چیف جسٹس نے بدھ کے روز جھوٹی گواہی کے ذریعے بے گناہ شخص کو پھانسی کے تختے تک پہنچا دینے سے متعلق فوجداری مقدمہ کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا کہ آئندہ کسی فوجداری مقدمہ کی سماعت کے دوران کسی گواہ کی شہادت کا ایک حصہ بھی جھوٹا ثابت ہوا تو اس کی مکمل گواہی کو جھوٹا تصور کرتے ہوئے اس جھوٹے گواہ کیخلاف بھی قانون کے مطابق مقدمہ درج کیا جائے گا اور گواہ کو ہر جگہ جھوٹا تصور کیا جائے گا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ جھوٹی گواہی کی وجہ سے ہمارے نظامِ انصاف کو سخت نقصان پہنچا۔ جھوٹی گواہی ناانصافی کو جنم دیتی اور انصاف کا خون کرتی ہے ۔ ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان فیصلے کی نقول تمام عدالتوں کو بھجوا کر اُسے اُس کی روح کے مطابق لاگو کریں۔ چیف جسٹس کا فیصلہ بلاشبہ تاریخی اہمیت کا حامل اور عدالتی نظام کی اصلاح کی طرف انتہائی مثبت قدم ہے، خاص طور پر عدلیہ کی آبزرویشن بجائے خود ایک ایسا تبصرہ ہے جس کے بعد کسی تجزیے کی گنجائش نہیں رہتی کہ جو عدالتی نظام جھوٹی گواہی کی اجازت دیتا ہے، تباہ و برباد ہو جاتا ہے اور جو معاشرہ اسے قبول کرتا ہے اپنی موت آپ مرجاتا ہے۔ انصاف اور صرف انصاف مہذب معاشرے کی بنیاد ہے۔ قوی امید ہے کہ سپریم کورٹ کے اِس فیصلے کے نفاذ سے جھوٹی گواہی کا خاتمہ اور انصاف کا بول بالا ہوگا۔

تازہ ترین