• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1894ء میں جالندھر کے مقام پر تقریر کرتے ہوئے سر سیّد احمد خاں نے ہندوئوں اور مسلمانوں کی راہیں جدا ہونے کا اشارہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ جب ہم آزاد ہوں گے، اپنی تعلیم کے مالک ہوں گے تو کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا تاج ہمارے سر پر ہو گا۔ یاد کیجئے سر سید کے اِن الفاظ کو اور دیکھئے اپنی پارلیمنٹ کو جس کی پیشانی پر یہی کلمہ سجا ہوا ہے۔ یہی کلمہ پاکستان کا مطلب کیا، تحریکِ پاکستان کے دوران لیگی کارکنوں کا مقبول ترین نعرہ بنا اور گلیاں کوچے اِس نعرے سے گونجنے لگے تھے۔ درست ہے کہ یہ مسلم لیگ کے منشور کا حصہ نہیں تھا، نہ ہی کبھی یہ نعرہ قائداعظم نے بلند کیا مگر یہ نعرہ مسلمان عوام کے جذبات اور تمنائوں کی عکاسی کرتا تھا، چنانچہ زبان زدِ عام ہو گیا۔ یاد کریں جب نہرو رپورٹ کی اشاعت کے بعد قائداعظم نے باآوازِ بلند کہا تھا کہ آج سے ہماری اور کانگریس کی راہیں جدا جدا ہیں (This is parting of the ways)۔ پھر 1930ء میں علامہ اقبال کا خطبہ الٰہ آباد آیا اور پورے ہندوستان میں بکھرے ہوئے مسلمانوں کو ایک پیغام دیا گیا لیکن میرے مطالعے کے مطابق دو بنیادی واقعات تھے جنہوں نے قائداعظم کی ذہنی اور نظریاتی تشکیل کی اور اُنہیں علیحدگی کی راہ پر ڈال کر آزاد مسلمان مملکت کے مطالبے کا قائل کیا۔ اوّل علامہ اقبال بنام قائداعظم خطوط (1935-37) ،جن میں علامہ اقبال نے محمد علی جناح کو قائل کیا کہ مسلمانوں کے مسائل کا حل ایک علیحدہ آزاد مسلمان مملکت کے قیام میں مضمر ہے اور پھر اُنہیں احساس دلایا کہ اِس مطالبے کا وقت آن پہنچا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 23مارچ 1940کی قراردادِ پاکستان منظور کرنے کے چند دن بعد قائداعظم نے علامہ اقبال کی برسی کے حوالے سے ایک پیغام میں کہا تھا کہ اگر آج اقبال زندہ ہوتے تو بہت خوش ہوتے کہ ہم نے وہ کام کر دکھایا جو وہ چاہتے تھے۔ اِسی نظریاتی پسِ منظر میں قائداعظم نے 1944میں علی گڑھ میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اُسی روز معرضِ وجود میں آگیا تھا جس روز ہندوستان کی سرزمین پر پہلے مسلمان نے قدم رکھا۔

میرے نزدیک دوسرا اہم ترین واقعہ جس نے قائداعظم کو علیحدہ وطن کے مطالبے کا قائل کیا، وہ (1937-39) انتخابات کے بعد سات صوبوں میں کانگریسی حکومت کی تشکیل تھا۔ کانگریس نے اپنے اندازِ حکومت اور رویے سے یہ ثابت کر دیا کہ وہ صرف ہندوئوں کی نمائندہ جماعت ہے اور اُسے صرف ہندوئوں کے مفادات عزیز ہیں۔ عام انتخابات کے بعد جب کانگریس نے اپنے اکثریتی صوبوں میں حکومتیں بنائیں تو نہ صرف مسلم لیگ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا بلکہ اپنے دورِ حکومت میں کانگریس نے فرقہ وارانہ سوچ و جذبے کے تحت مسلمانوں پر ملازمتوں کے دروازے بند کر دئیے، ہندی کو لازمی زبان قرار دیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسکولوں میں ’’وندے ماترم‘‘ جیسے مسلم دشمن ترانے کو قومی ترانے کے طور پر گانا لازمی قرار دے دیا۔ وندے ماترم مسلمانوں سے نفرت اور حقارت پر مبنی ترانہ تھا، جس کے ساتھ ہی ساتھ گاندھی جی کے بت کی پرستش کی جاتی تھی۔ کانگریسی حکومت کے مسلمان کش اقدامات کی تفصیل پیرپور کمیٹی رپورٹ میں موجود ہے۔ وندے ماترم کے بارے میں قائداعظم نے کہا تھا کہ یہ مشرکانہ (Idoltlarious) ہے اور مسلمان بچے اسے نہیں پڑھ سکتے۔ بہرحال کانگریسی دور حکومت کا ایک فائدہ ہوا کہ مسلمانوں میں یہ احساس تیزی سے جڑ پکڑنے لگا کہ اگر کانگریس انگریزوں کی موجودگی میں ہم سے ’’شودروں‘‘ جیسا سلوک کر رہی ہے تو انگریز کی رخصتی کے بعد کیا گل کھلائے گی۔ دراصل یہی وہ تجربہ اور احساس تھا جس نے ہندوستان کے مسلمانوں میں منفرد قومیت کے جذبے کو جلادی۔ یوں تو اس تصور کی لہریں ہمیشہ مسلمانانِ ہند کے لاشعور میں سفر کرتی رہی ہیں اور اس کا ایک خاکہ شاہ ولی اللہ کے ان خطوط میں بھی ملتا ہے جو انہوں نے مسلمان سرداروں اور حکمرانوں کو لکھے۔

قراردادِ پاکستان کے حوالے سے سندھ مسلم لیگ کو سبقت حاصل ہے۔ سندھ مسلم لیگ نے قائداعظم کی صدارت میں اپنے اجلاس منعقدہ 1938میں قرارداد منظور کی، جس کے الفاظ تھے ’’اِس کی فرقہ وارانہ ذہنیت اور مسلم کش پالیسی کے باعث اکثریتی قوم سے کسی بھلائی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ مسلمانوں کا ہندوئوں سے اختلاف کا منبع دین، زبان، ثقافت، معاشرتی قوانین اور زندگی بارے اندازِ فکر ہے‘‘۔ چنانچہ سندھ مسلم لیگ، آل انڈیا مسلم لیگ سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ایسی آئینی اسکیم تیار کرے، جس کے تحت مسلمانوں کو مکمل آزادی حاصل ہو جائے۔ مارچ 1939میں مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے اس مقصد کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی جس کے ذمہ تمام تجاویز اور مسودوں پر غور کر کے آزادی کے حصول کے لئے قابلِ عمل اسکیم پیش کرنا تھا، چنانچہ اس کمیٹی کی سفارشات پر مارچ 1940میں قراردادِ پاکستان ڈرافٹ کرنے سے پہلے خوب غور کیا گیا۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قراردادِ پاکستان کوئی فوری مطالبہ نہیں تھا اور نہ ہی اُس کے پسِ پردہ کسی کا ہاتھ۔ یہ مطالبہ ارتقائی منازل طے کر کے اپنے منطقی انجام پر پہنچا تھا۔

اپریل 1941میں مسلم لیگ نے قراردادِ لاہور کو قراردادِ پاکستان کا نام دیا اور اعلان کیا کہ ہر سال 23مارچ کو یومِ پاکستان منایا جائے گا۔ یہ سلسلہ تواتر سے 1947تک جاری رہا، اگر آپ قائداعظم کی تقاریر پڑھیں، مسلم لیگ کی قراردادوں اور مسلم لیگ کے اجلاس میں کی گئی تقریروں کو غور سے پڑھیں تو اُن میں آپ کو پاکستان کا ایک واضح تصور ملتا ہے اور ایک ایسا خواب نظر آتا ہے جس کی تعبیر آج بھی تشنۂ تکمیل ہے اور جسے منزل کے طور پر ہمیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ قائداعظم کی تقاریر ہوں، قراردادیں یا مسلم لیگی رہنمائوں کی تقاریر، اُن سب کے مرکزی نکات کا خلاصہ یہی ہے کہ چونکہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں، جو ہزاروں برس اکٹھے رہنے کے باوجود متوازی دھاروں میں بہہ رہی ہیں، اُن کا مذہب، رسم و رواج، بود و باش، تاریخ، ذہنی پسِ منظر اور سوچ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے اور مسلمان سمجھتے ہیں کہ وہ ہندوستان میں اقلیت ہونے کے سبب ہندو اکثریت تلے دب کر رہ جائیں گے۔ اُنہیں معاشرے میں کبھی بھی باعزت مقام حاصل نہیں ہو سکے گا اور نہ وہ اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکیں گے، اِس لئے وہ ایک الگ وطن کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن جسے ہم نظریہ پاکستان کہتے ہیں وہ صرف یہاں تک محدود نہیں ہے کیونکہ آزاد وطن کا قیام اس کا فقط پہلا حصہ تھا جبکہ پاکستان کے قیام کے مقاصد اس کا ناگزیر اور دوسرا حصہ ہے، کیونکہ جب بھی قائد اعظم نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر ایک علیحدہ مملکت کا مطالبہ کیا تو اس کے ساتھ ہی یہ بھی بتایا اور وضاحت کی کہ وہ پاکستان کیوں اور کیسا چاہتے ہیں۔ اِسی تصورِ پاکستان کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے مسلمان عوام نے نہ صرف مسلم لیگ کی حمایت کی، 1945-46کے انتخابات میں پاکستان کے حصول کے لئے 75فیصد ووٹ دیئے،بلکہ بے پناہ قربانیاں بھی دیں۔ اس لئے یہ سمجھنا اور کہنا کہ قیامِ پاکستان کے بعد نظریہ پاکستان بیکار یا بے معنی ہو کر رہ گیا ہے، اپنی تاریخ سے لاعلمی کا ثبوت ہے کیونکہ اگر کوئی نظریہ کامیاب ہو جائے تو وہ مرتا نہیں بلکہ اپنی سچائی کے سبب مزید مضبوط ہوتا ہے، تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ نظریات ابھرتے، ڈوبتے رہتے ہیں لیکن کبھی مرتے ہیں اور نہ بے معنی ہوتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین