• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک ہفتہ ہی تو گزرا ہے جب ہم نے ایک واقعے کے نتیجے میں دنیا کو بدلتے دیکھا۔ گزشتہ جمعۃ المبارک کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں ایک آسٹریلوی دہشت گرد نے نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے دوران پچاس مسلمان شہید اور بیس سے زائد زخمی کر دئیے۔ یہ سفاک درندہ اپنے ہیلمٹ میں نصب کیمرے کے ذریعے دہشت گردی کی اِس بدترین واردات کو سوشل میڈیا پر وائرل کرتا اور انسانی ضمیر پر زخم لگاتا رہا۔ ہم نے عالمی سطح پر مسلمانوں کے حق میں مغربی اور مشرقی معاشروں کے اندر سے آوازیں اُٹھتی سُنی ہیں اور میرا وجدان کہتا ہے کہ جس طرح امریکہ میں نائن الیون نے چشمِ زدن میں پوری دنیا بدل ڈالی تھی، اِسی طرح نیوزی لینڈ میں 15مارچ کا واقعہ ایک نئے جہان کو جنم دے رہا ہے اور عالمی برادری میں یہ احساس شدت سے پیدا ہو رہا ہے کہ اسلامو فوبیا نے عالمِ انسانیت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اِس شعوری تحریک میں جان ڈالنے کا سہرا نیوزی لینڈ کی اڑتیس سالہ وزیرِاعظم جیسنڈا آرڈرن کو جاتا ہے جنہوں نے دورِ حاضر میں ایک بہادر، بالغ نظر اور مثالی قیادت کا مظاہرہ کیا ۔

اِس عظیم خاتون کا قابلِ فخر کردار یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنے عوام اور پوری دنیا کے سامنے حقائق پیش کرنے اور دہشت گرد کو مجرم قرار دینے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا اور پریس کانفرنس میں اِس عظیم فلسفے اور نظریے کی تبلیغ کی کہ جو مارے گئے ’وہ ہم تھے‘۔ ’وہ ہم تھے‘ کے الفاظ اِس امر کا اعلان کر رہے تھے کہ مسلمان ہمارے وجود کا حصہ ہیں اور نیوزی لینڈ کی ریاست ایک ماں کی طرح اُنہیں اپنی آغوش میں لیے ہوئے ہے۔ اِس اعلان کے بعد خاتون وزیرِاعظم مسلمانوں کا لباس زیبِ تن کر کے جائے وقوعہ پر پہنچیں، مسلم خواتین کو گلے لگایا اور اُنہیں ہر طرح سے دلاسہ دیا۔ دنیا کی سپر پاور کو ایک چھوٹے ملک کی وزیرِاعظم نے جس بے باکی اور فکری اصابت سے جواب دیا، اُس سے بھی یہ اُمید بندھی ہے کہ اِس پیغام کو فروغ ملے گا۔ جو عناصر نسلی منافرتوں کو ہوا دے رہے ہیں، وہ ہوش کے ناخن لیں گے اور محبتوں کو عام کریں گے۔

وزیرِاعظم جیسنڈا آرڈرن نے شہید ہونے والے بہادر پاکستانی نعیم رشید کو زبردست خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اسے اپنا ہیرو قرار دیا، جنہوں نے دوسروں کی زندگیاں بچانے کے لیے دہشت گرد سے بندوق چھین لینے کی سرتوڑ کوشش کی اور براہِ راست گولیوں کا نشانہ بنے۔ وزیرِاعظم پاکستان نے اپنے اِس عظیم فرزند کو قومی ایوارڈ سے نوازنے کا اعلان کیا ہے۔ جناب نعیم رشید کی فداکاری اور عزیمت نے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان کے عوام دہشت گردی سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور امن کے زبردست حامی ہیں۔

جناب نعیم رشید نیوزی لینڈ کیوی انسٹیٹیوٹ آف ٹریننگ اینڈ ایجوکیشن میں لیکچرار کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ ان کے بڑے بیٹے طلحہ کو ایک اعلیٰ ادارے میں اچھی ملازمت مل گئی تھی۔ یہ نوجوان بھی آسٹریلوی دہشت گرد کے ہاتھوں شہید ہو گیا۔ نعیم کی عظیم والدہ بدر رشید جن کا تعلق ہزارہ سے ہے، اِس دردناک حادثے کے بعد نیوزی لینڈ پہنچیں اور اُنہوں نے وہاں پہنچ کر جو کچھ کہا، وہ انسانی تاریخ میں امر ہو گیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ دہشت گرد کا دل نفرتوں سے بھرا ہوا تھا جبکہ میرا دل محبتوں سے معمور ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ میرے بیٹے اور پوتے کی قربانیاں مسلمانوں پر سے دہشت گردی کا الزام دھو سکیں گی۔ مسلمانوں کی حمایت میں چاروں طرف ایک لہر اُٹھی ہے۔ اب یہ مسلم قیادتوں پر منحصر ہوگا کہ وہ کس طرح ایک ایسا پروگرام وضع کرتے ہیں جس سے بین المذاہب مکالمے کو تقویت پہنچے اور تہذیبوں کے مابین حقیقی مفاہمت فروغ پائے۔ اِس مقصد کے لئے او آئی سی میں نئی روح پھونکنا ہوگی۔

اس ضمن میں پاکستان کا کردار غیر معمولی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ 28فروری کی صبح اس کی فضائیہ نے بھارت کے دو جنگی طیارے مار گرائے اور دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان تصادم کا حقیقی خطرہ پیدا ہو گیا، چنانچہ سب عالمی طاقتوں کو حرکت میں آنا پڑا اور گاہے پرائیویٹ اور گاہے پبلک سفارتکاری کے ذریعے حالات پر قابو پانے کی سرتوڑ کوشش کی گئی۔ اِن سفارتی سرگرمیوں کے دوران یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی کہ جب تک کشمیر کا تنازع حل نہیں ہوتا، جنوبی ایشیا میں ایٹمی تصادم کا خطرہ منڈلاتا رہے گا۔ اِس حقیقت کا برملا اعتراف امریکہ نے بھی کیا ہے، روس، چین، وسطی ایشیا اور عرب ممالک نے بھی۔ اقوامِ متحدہ کے کمشنر نے مقبوضہ کشمیر کے بارے میں جو رپورٹ پیش کی ہے، وہ رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے۔ دو لاکھ سے زائد کشمیری آزادی کی جنگ میں جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں، عوام کا جینا حرام کر دیا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں روزگار ہے نہ کاروبار۔ اس سے بڑا انسانی المیہ اور کیا ہو گا؟

یہ وقت ہے کہ پاکستان کشمیریوں کا کیس ہر فورم پر پوری تیاری کے ساتھ پیش کرے اور عالمی قائدین کو یہ احساس دلائے کہ جنوبی ایشیا میں جو ایٹمی تصادم ہو گا، وہ عالمی امن کو نیست و نابود اور انسانی تہذیب صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کا باعث بن سکتا ہے۔ اِس لیے اُنہیں بھارت پر دباؤ ڈالنا چاہئے کہ مذاکرات کے ذریعے مسئلۂ کشمیر کا منصفانہ حل تلاش کرنے میں تعاون کرے۔ حکومت نے کشمیر کمیٹی کی سربراہی جناب فخر امام کو سونپی ہے جو ایک نہایت اچھا اقدام ہے۔ اِس کمیٹی کو اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے ہر طرح کی مدد فراہم کی جائے۔ ریٹائرڈ بیورو کریٹس، یونیورسٹی کے پروفیسرز اور تجربہ کار صحافی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اِس امر پر بھی غور کیا جائے کہ اُمورِ کشمیر کا ایک مستقل نائب وزیرِ خارجہ ہونا چاہئے۔ عالمی برادری میں کشمیر کے حوالے سے حقیقی تشویش پائی جاتی ہے۔ پاکستان کو جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کے علاوہ تمام اہم دارالحکومتوں میں سرگرمیاں تیز کر دینا چاہئیں۔ ایک جہانِ نو کی نمود ہمیں اپنا احساس دلا رہی ہے۔

تازہ ترین