• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر اقبال شاہد نے میرا کہا ہوا شعر مجھے سناکر بڑی درد مندی سے کہا

باندھ کے رکھتا ہوں مضبوط گرہ میں لیکن

پاکستانی نوٹ کی قیمت گر جاتی ہے

’’آخر کب تک روپیہ میں گراوٹ آتی رہے گی‘‘ بے شک جب تک روپےکی قدر گرتی رہے گی۔ مہنگائی کے اژدھے گلیوں میں پھنکارتے رہیں گے۔ قرضوں کے عفریت آتی نسلوں کو نگلتے رہیں گے۔دشتِ غربت میں ہڈیاں اگتی رہیں گی، جھونپڑیوں میں دیے بجھتے رہیں گے، بنگلوں میں شادیانے بجتے رہیں گے مگر ابھی آسمان ہم سے مایوس نہیں۔ ہماری معیشت کوئی مردہ معیشت نہیں، اُس کی رگوں میں خون کی گردش جاری ہے۔ ہماری کرنسی کے قدم کسی ایسی ڈھلوان پر نہیں جہاں پائوں جمانا ممکن ہی نہ ہو۔ مجھے یقین ہے روپیہ کی قدر میں اب اور کمی نہیں آئے گی۔

میں اِس یقین کے لئے خاصا پریشان رہا۔ ڈاکٹر اقبال شاہد کا سوال کسی تیر کی طرح سینے میں ترازو ہو گیا تھا۔ بے چینی بڑھی تو میں نے وزیر خزانہ اسد عمر کو میسج کیا۔ اُس کے لفظ یہ تھے ’’روپے کی قدر میں بہتری کے لئے برآمدات اور ریزرو میں اضافے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا صورتحال ہے ہماری؟ کب تک روپے کی قیمت بہتر ہو گی؟‘‘

اُنہوں نے کمال محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میسج کے جواب میں مجھے فون کیا اور کافی دیر تک اِس موضوع پر مجھ سے گفتگو کرتے رہے۔ اُس گفت و شنید کا نچوڑ یہ ہے کہ روپے کی قیمت اور نہیں گرے گی مگر اُس میں بہتری کے لئے کم از کم دو سال اور درکار ہیں۔ مجھے دو سال کا دورانیہ بہت طویل لگا۔ یہ سوچ کر ہول اُٹھنے لگا کہ اگلے دو برسوں میں غربت کی لکیر کے نیچے رہنے والی ہماری ستر فیصد آبادی کیسے زندہ رہے گی۔ یقیناً نوبت خود کشیوں تک پہنچ جائے گی۔ میں اہلِ رائے سے ہمکلام ہوا کہ جلد سے جلد کس طرح روپے کو پستی سے نکالا جا سکتا ہے۔

میں اِس خوفناک مسئلے کے ایک حل تک پہنچا مگر وہ بھی کوئی آسان کام نہیں، ممکن ضرور ہے۔ وہ حل صرف اتنا ہے کہ پاکستان کے نوے فیصد لوگوں کو معاشی تنگدستی سے بچا لیا جائے گا اور دس فیصد لوگوں سے درخواست کی جائے کہ وہ یہ دو سال تھوڑی سی مشکل میں گزار دیں۔ کرنا صرف اتنا ہے کہ ایسی تمام درآمدات پر پابندی لگا دی جائے جن کی خریداری صرف ڈالر سے ممکن ہے تاکہ درآمدات اور برآمدات کے درمیان عدم توازن ختم ہو۔ چین کے ساتھ روپے میں کاروبار کا معاہدہ موجود ہے، ترکی، سعودی عرب، ملائیشیا اور چند اور دوست ممالک کے ساتھ مقامی کرنسیوں میں لین دین کے معاہدے کئے جائیں۔ برآمدات زیادہ سے زیادہ اِن ممالک میں کی جائیں جہاں سے ڈالر میں ادائیگی ہوتی ہے۔ ہم دنیا میں کھیلوں کا سامان، سرجیکل آلات، خام چمڑا، سوتی کپڑا، سوتی دھاگا، چاول، کپاس، چینی، گندم، پھل فروٹ، سنگ مرمر اور دوسرے پتھر، قالین، سمندری خوراک، افرادی قوت اور اسلحہ برآمد کرتے ہیں۔ پچھلے چند ماہ میں اِس میں تقریباً چار فیصد کا اضافہ ہوا ہے مگر یہ بہت کم ہے۔ دہشت گردی کی جنگ فتح کرنے کے بعد پاکستان ایک نئے دور کا آغاز کر رہا ہے، برآمدات کو بہت تیزی سے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں پاکستانی سفارت خانوں میں سب سے زیادہ توجہ اپنی برآمدات بڑھانے پر دی جانا چاہئے۔ تمام سفارت خانوں میں باقاعدہ ٹریننگ دے کر نئے ٹریڈ آفیسر بھیجے جائیں اور اُنہیں باقاعدہ ٹاسک دیا جائے کہ اگر اتنے عرصہ میں اتنی ٹریڈ نہ ہوئی تو تم خود کو فارغ سمجھو۔ میں ایک خلیجی ملک گیا تھا تو وہاں میری ملاقات ایک مقامی سے کرائی گئی ، جو پاکستان سے پچیس ہزار افراد اپنی فیکٹری میں کام کرنے کے لئے بلانا چاہتا تھا مگر پاکستانی سفارت خانے نے ہر قدم پرراستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں، مجبوراً پچیس ہزار لوگ انڈیا سے بلانا پڑے۔ ایسے عملےکو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

برآمدات میں کئی ایسی چیزیں بھی شامل کی جا سکتی ہیں جو ابھی پاکستان کی ضرورت بھی پوری نہیں کر رہیں مگر اُن کی پاکستان میں کمی کے سبب ملک کو نقصان نہیں ہوگا جیسے پاکستان میں تیار ہونے والی گاڑیاں۔ اگر تمام گاڑیاں بنانے والوں پر پابندی لگا دی جائے کہ اُنہیں پچاس فیصد گاڑیاں پاکستان سے برآمد کرنا ہیں اور پچاس فیصد پاکستان میں فروخت کرنا ہیں تو ممکن ہے پاکستان میں گاڑیوں کی قیمت میں معمولی سا اضافہ ہو جائے۔ بہت سی فیکٹریاں جو پہلے صرف ایک شفٹ میں کام کرتی ہیں انہیں دو شفٹوں میں کام کرنے کا پابند بنایا جائے۔ وزیراعظم عمران خان کو برآمدات سے متعلق بزنس کمیونٹی کے لئے روزانہ کم از کم دو گھنٹے وقف کرنا چاہئیں۔ ان کے مسائل سننا چاہئیں اور انہیں فوری طور پر حل کرنا چاہئے۔ پاکستان کو سب سے زیادہ توجہ افرادی قوت کی برآمد پر دینا چاہئے۔ اگر اگلے ایک سال میں پانچ لاکھ افراد بھی مختلف ممالک میں کام کرنے کے لئے چلے جاتے ہیں تو پاکستان معاشی بحران سے باہر نکل آئے گا۔ قطر نے ایک لاکھ پاکستانیوں کو ملازمت دینے کی پیشکش اسی سال جنوری میں کی تھی۔ اس پر کیا عمل درآمد ہوا ہے؟ مہاتیر محمد پاکستان آ رہے ہیں، اُن سے کہا جائے کہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد کو ملائیشیا میں ملازمت فراہم کریں۔ اسی طرح اور بھی بے شمار ممالک سے بات ہو سکتی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین