• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ2جنوری کی انتہائی سرد اور کہر آلود شام تھی  مگر بلوچستان قومی کانفرنس کے مدعوئین بلوچستان کے بھائیوں کی باتیں سننے اور اُن سے اظہارِ یک جہتی کرنے کے لیے کشاں کشاں الرازی ہال  جامعہ پنجاب کی طرف چلے آرہے تھے جو وقت مقررہ پر کھچا کھچ بھر چکا تھا۔ ہال میں تقریباً پندرہ ٹی وی چینلز کے کیمرے نصب تھے اور پرنٹ میڈیا بھی موجود تھا۔ حاضرین دانش ور  سیاسی تجزیہ نگار  پروفیسر اور طلبہ پر مشتمل تھے جو تین گھنٹے بڑی دلجمعی سے معزز مہمانوں کی تقریریں سنتے اور بلوچ بھائیوں کی آواز میں اپنی آواز شامل کرتے رہے۔ یہ دو روزہ قومی کانفرنس پائنا اور پنجاب یونیورسٹی نے مشترکہ طور پر منعقد کی تھی جس کا افتتاح وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران نے کیا اور سامعین کو بتایا کہ پنجاب یونیورسٹی اِس وقت سو بلوچ طلبہ کو مفت تعلیم فراہم کرنے کے علاوہ اُنہیں ماہانہ تین ہزار روپے وظیفہ بھی دے رہی ہے۔ اِس کا بنیادی مقصد قومی یک جہتی کو فروغ دینا اور بلوچستان کو اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد فراہم کرنا ہے۔ اجتماع کا جوش و خروش دیکھتے ہوئے یہ اعلان بھی کیا کہ ہم آئندہ بڑے ہال میں تقریب کا اہتما م کریں گے جس میں ہزار کے لگ بھگ اساتذہ اور طلبہ شامل ہوں گے جو بلوچستان کاز کو آگے بڑھائیں گے اور عوامی شعور بیدار کریں گے۔
دوسرے روز قومی کانفرنس کے دو اجلاس ہوئے  یوں تین نشستوں میں بلوچستان کے سولہ سے زائد زعماء نے حصہ لیا اور لاہورسے سیاسی قائدین اہلِ دانش اور دفاعی تجزیہ نگاروں نے خیال افروز گفتگو کی اور مکالمے کی فضا قائم رکھی۔ کانفرنس کی اصل غرض و غایت بھی یہی تھی کہ پوری صورتِ حال کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے اور قومی شعور کے ساتھ مفاہمت کے دریچے مزید وا ہوتے جائیں۔ بلوچ دوستوں نے بڑے سلیقے سے بگاڑ کے اسباب و علل بیان کیے اور اپنے زخم ہائے دل کھول کر رکھ دیے۔ اُن کا کہنا تھا کہ وفاق بلوچستان کو نظر انداز کرتا اور عوام کے حقوق پر شبخون مارتا آیا ہے۔ اِس کے گیس کے ذخائر سے پورا ملک فائدہ اُٹھاتا چلا آ رہا ہے  مگر بلوچستان کے عوام اپنے بیش قیمت ذخائر کے فیوض و برکات سے محروم ہیں۔ اکثر دوستوں نے شکایت کی کہ ماضی میں جو فوجی آپریشن ہوئے  اُن سے اعتماد کا رشتہ بار بار ٹوٹتا رہا ہے اور حکومت کی طرف سے اب تک جو اعلانات کیے جاتے رہے  اُن میں سے کسی پر بھی دیانت داری سے عمل درآمد نہیں ہوا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں ہمارے صدر اور وزیر اعظم کو بلوچستان میں قیام کرنے  مسائل کا قریب سے جائزہ لینے اور بروقت احکام جاری کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ اِسی طرح اٹھارھویں ترمیم کے تقاضے بھی پورے نہیں کیے جا رہے۔ اُن کی یہ تشویش مشترک تھی کہ 2008ء کے انتخابات میں خفیہ ایجنسیوں نے جو جعلی حکومت قائم کی تھی  اِس بار اُس کے ایک ایک ممبر کو ایک ایک ارب سے زائد دی جانے والی رقم سے ووٹ خریدے جائیں گے۔ اُن کو یہ بھی خدشہ تھا کہ بدامنی کے ماحول میں سیاسی جماعتوں کے لیے انتخابی مہم چلانا ناممکن ہو جائے گا۔ اُن کا مطالبہ تھا کہ ریاستی ادارے جمہوری قوتوں کو تحفظ فراہم کریں اور الیکشن کمیشن  سول سوسائٹی  وکلاء  میڈیا اور فوج انتخابات کو شفاف بنانے میں انتہائی موثر کردار ادا کریں۔
بلوچستان سے آئے ہوئے احباب مختلف سیاسی جماعتوں اور مکتبہٴ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ مسلم لیگ نون سے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عبدالقادر بلوچ اور انوار الحق کاکڑ  پیپلز پارٹی سے ڈاکٹر آیت الله درانی  بلوچستان نیشنل پارٹی سے قائم مقام صدر ڈاکٹر جہاں زیب جمال دینی  جمعیت علمائے اسلام سے حافظ حسین احمد  نیشنل پارٹی سے جناب طاہر بزنجو  جماعت اسلامی سے حاجی عبدالقیوم کاکڑ  ہزارہ قبیلے سے عبدالخالق ہزارہ  دانش ور اور سابق چیف سیکرٹری جناب عبد الحکیم بلوچ  بگتی امن کونسل سے سرفراز بگتی آئے۔ اسلام آباد سے ریٹائر میجر جنرل محمد فاروق نے شرکت کی جو بلوچستان میں جی سی او رہ چکے ہیں۔ لاہور سے ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر  سینئر سیاست دان سید فخر امام  شاہد حامد  احسان وائیں  ہمایوں اختر خاں اور کراچی سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر جناب یاسین آزاد  ڈاکٹر حسن عسکری رضوی اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر فاروق حمید خاں نے مکالمے میں حصہ لیا۔ اُن سب کا اِس امر پر اتفاق تھا کہ مسئلہ سیاسی بنیادوں پر حل کیا جائے  انتخابات میں حصہ لیا جائے اور قائد اعظم کے وژن کے مطابق بلوچستان کو دوسروں صوبوں کے برابر لانے کے لیے سیاسی اور عسکری قیادت اور سول سوسائٹی ایک جاندار کردار ادا کرے۔ تقاریر کے دوران یہ نقطہٴ نظر بھی سامنے آیا کہ بلوچستان کی قیادت کو اِس موقع سے بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہیے جو اٹھارھویں ترمیم نے فراہم کیا ہے۔ اب صوبے کو اپنے وسائل کی ملکیت حاصل ہو گئی ہے اور این ایف سی ایوارڈ کی بدولت مالی وسائل میں غیر معمولی اضافہ ہو چکا ہے۔ خوشی کی بات یہ تھی کہ ریٹائرڈ فوجی افسروں نے فوری طور پر سیاسی مصالحت کی راہ اپنانے اور عوام کی فلاح و بہبود کو اوّلین ترجیح دینے کا مشورہ دیا۔ قومی کانفرنس میں اِس امر کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے چھاوٴنیوں کی تعمیر کا منصوبہ یکسر ختم کر دیا ہے اور فوج میں بلوچستان کو آبادی کے تناسب سے نمائندگی حاصل ہو گئی ہے جو تعلیم اور انفراسٹرکچر کی تعمیر میں غیر معمولی دلچسپی لے رہی ہے اور بلوچ طلبہ اِس کے تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔لاپتہ افراد کا معاملہ بھی زیرِ بحث آیا اور اِس پر اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ سپریم کورٹ کی موثر مداخلت سے اُن کی تعداد صرف سو کے لگ بھگ رہ گئی ہے۔ کانفرنس میں اُن بیرونی طاقتوں کو انتباہ کیا گیا جو ریاست کے خلاف ہتھیار اُٹھانے والوں کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ وہ نسلی  لسانی اور مذہبی تشدد کو ہوا دے کر انسانیت پر ظلم ڈھا رہی ہیں  اُنہیں اپنی سرگرمیاں یک لخت بند کر دینی چاہئیں۔ ہر مقرر اِس عزم اور اعتماد سے سرشار تھا کہ بلوچستان پاکستان سے کبھی علیحدہ نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ اُس کا اٹوٹ انگ اور اسٹرٹیجک خزانہ ہے اور اِس کے امن کے ساتھ پاکستان کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ  سینٹرل ایشیا اور جنوبی ایشیا کا امن وابستہ ہے۔
بلوچستان کے وفد کی امیر جماعت اسلامی سید منور حسن سے ملاقاتیں رہیں۔ سیکرٹری جنرل پائنا کی درخواست پر وزیر اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف نے قومی کانفرنس کے مندوبین کے اعزاز میں عشائیہ دیا جس میں پنجاب اور بلوچستان کے درمیان رشتے مزید مستحکم کرنے کی بات ہوئی۔ وفد کے بیشتر ارکان بار بار یہی تقاضا کرتے رہے کہ مسلم لیگ نون کی قیادت ملکی سیاست کو صحت مند رُخ دینے اور بلوچستان کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ وہاں اِس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ بلوچستان کے حوالے سے ایک ورکنگ پیپر تیار کیا جائے اور بلوچستان کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے سائنٹفک بنیادوں پر کام کیا جائے۔ اِس عشائیے کے علاوہ دانش وروں سے بھی تبادلہٴ خیال ہوتا رہا اور شدید سردی کے باوجود کسی قدر تصورات کی برف پگھلی ہے اور ماضی کی دلدل میں دھنسے رہنے کے بجائے تاریخی شعور کے ساتھ آگے بڑھنے کا حوصلہ پہلے سے زیادہ مستحکم ہوا ہے۔ اِس مکالمے کی کامیابی میں جامعہ پنجاب کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران  جناب اکرم چودھری اور ایثار رانا کا حصہ قابلِ ذکر ہے  جبکہ پائنا کے منتظمین اتنی بڑی تعداد میں بلوچستان کے اربابِ فہم و بصیرت کو پاکستان کے دل ۔۔۔ شہر لاہور تک لے آنے میں دن رات مصروف رہے۔ اُمید ہے کہ محبت کی زبان اپنی تاثیر دکھائے گی اور باہمی رشتوں کی خوشبو دیر تک قائم رہے گی۔
اِس خوشگوار تاثر کے درمیان سرمایہٴ ملت قاضی حسین احمد کی وفات کی خبر سینے میں خنجر کی طرح پیوست ہو گئی۔ وہ تاریخ کا ایک منفرد باب تھے۔ اُن کے اُٹھ جانے سے بہت سارے خواب ٹوٹ گئے ہیں۔ الله تعالیٰ اُن کی لحد پر شبنم افشانی کرے اور اُنہیں عظیم درجات عطا فرمائے۔ اُن کی ہمہ پہلو شخصیت کے بارے میں اِن شاء الله جلد ہی اپنے محسوسات بیان کروں گا۔
تازہ ترین