وطنِ عزیز کے کٹھن حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ انتہائی غور و خوض سے اپنی ضروریات و ترجیحات کا تعین کرکے ان کی روشنی میں قدم بڑھائے جائیں۔ بلاشبہ اولین ترجیح ملکی سالمیت کا تحفظ اور دفاع ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کی کارکردگی لائقِ ستائش ہے اور اس کا بیانیہ پوری دنیا پر عیاں کہ پاکستان کسی کی جنگ نہیں لڑے گا اور نہ اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال ہونے دے گا۔ پاکستان کا دوسرا بنیادی مسئلہ اقتصادی بحران ہے، عصرِ حاضر میں اقتصادی استحکام ہی سرفرازی کا باعث ہے اور اس کے بغیر ناقابلِ تسخیر دفاع بھی ممکن نہیں۔ کوئی شک نہیں کہ حکومت نے اس سلسلے میں اپنی شبانہ روز محنت سے چند درچند اہم اقدامات کئے، دوست ممالک سے معاونت حاصل کی، سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات کے حکام نے پاکستان کے دورے کئے، بہت سے معاہدے بھی ہوئے۔ اس سرمایہ کاری سے پاکستان پر زرمبادلہ کا دبائو کم ہوا۔ برادر اسلامی ملک ملائیشیا کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد بھی اسی سلسلے میں پاکستان میں ہیں۔ شنید ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین سوا کھرب روپے کے معاہدوں پر دستخط ہوں گے۔ مشیرِ تجارت عبدالرزاق دائود نے چیئرمین سرمایہ کاری بورڈ ہارون شریف کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا کہ ملائیشیا کی جانب سے ٹیلی کام، حلال فوڈ، آئی ٹی اور آٹو سیکٹر میں 8سے 9سو ملین ڈالر کی سرمایہ کاری ہو گی اور یہ سرمایہ کاری گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ کے بجائے بزنس ٹو بزنس ہوگی۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد سے ملک کو ترقی یافتہ بنانے کا وہ نسخہ دریافت کیا جائے گا جس کا استعمال کرکے وہ پسماندہ ملائیشیا کو ترقی کی بلندیوں پر لے گئے۔ معاشی استحکام کیلئے کی گئی کاوشوں پر حکومت کو داد نہ دینا زیادتی کے زمرے میں ہی آئے گا کہ اس نے دوستوں کا حلقہ وسیع کیا۔ ان کے ساتھ اقتصادی معاہدے بھی کئے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے جس سے انتہائی مثبت نتائج کی توقع عبث نہیں۔ دوسری طرف مسائل بھی ہیں جن کا تذکرہ خود وزیراعظم پاکستان نے ملک بھر کے قومی سطح کے اخبارات کے ایڈیٹروں سے ملاقات میں کچھ یوں کیا کہ ’’ہمارے بیورو کریٹ فیصلے نہیں کر پا رہے جس سے حکومتی مشکلات بڑھ رہی ہیں، نیب ہر کیس کھولنے کے بجائے بڑے مقدموں پر توجہ دے، بڑے لوگوں کو سزا ملتے ہی چھوٹے بدعنوان خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے، انڈیا کے الیکشن تک سرحدوں پر خطرات منڈلاتے رہیں گے، پلوامہ واقعہ کے بعد بلوچستان میں دہشت گردی بڑھنے کی انٹیلی جنس رپورٹیں ہمارے پاس ہیں، جن کی روشنی میں اقدامات کر رہے ہیں، آئی ایم ایف ہمیں بہتر شرائط پر قرضہ دینے پر تیار ہو گیا ہے پاکستان کو عالمی سطح پر بلیک لسٹ قرار دیئے جانے کا خطرہ موجود ہے جس کے نتیجے میں پاکستان پر پابندیاں لگ گئیں تو بڑا نقصان ہوگا، ہم عالمی ادارے کی شرائط و مطالبات پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔ وزیراعظم نے جن معاملات کا ذکر کیا ہے ان میں سےکچھ انتظامی نوعیت کے ہیں۔ معاملات کیسے ہی ہوں بطور چیف ایگزیکٹو ان کا اپنا کردار اور ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ انتظامی معاملات میں انہیں بیورو کریٹس کے کام نہ کرنے کا حل نکالنا ہو گا۔ کہا جاتا ہے کہ بیورو کریٹ نیب سے خوفزدہ ہیں اور اپنے فرائض کی انجام دہی سے کتراتے ہیں۔اس کے نتیجے میں معاملات سست روی کا شکار ہیں جنہیں درست کرنا ضروری ہے۔بیوروکریسی کا اعتماد بحال کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیںتاکہ بروقت فیصلہ سازی ممکن ہو اور گڈگورننس کے تقاضے بھی پورے ہوں۔مسائل کے حل کیلئے حکومتی اقدامات اسی وقت نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں جب حکومت، انتظامیہ اور مقننہ ایک پیج پر ہوں ۔اس مقصد کیلئے سیاسی اختلافات کوپس پست ڈالتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن کوقومی چیلنجزکے مقابلے کیلئے باہمی مشاورت سے متفقہ لائحہ عمل اپنانا ہوگا۔ بس یہ ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ مسائل حکومت نہیں پاکستان کے ہیں اور زندہ قومیں مل کر طوفانوں کا رخ موڑا کرتی ہیں، پاکستان اس وقت ریاست کے تمام اداروں اور قوم سے اسی جذبے کا متقاضی ہے۔