• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند دن پہلے میں نے ایک کتاب میں درجہ ذیل دو واقعات پڑھے تو اِن پر یقین نہ آیا۔

میں نے سیرت النبیؐ کے ایک جلسے میں ایک عالم دین کو تقریر کرتے دیکھا۔ وہ حضوراکرمؐ کی سیرت طیبہ بیان کر رہے تھے۔ ان کی آنکھیں فرط عقیدت سے بھیگی ہوئی تھیں۔ ان کے سامنے ہزاروں کا مجمع تھا۔ عالم دین کے خوبصورت الفاظ اور پرسوز ادائیگی سے سننے والوں پر وجد طاری تھا۔ان میں سے بہت سے لوگوں کی قمیصیں آنسوئوں سے تر ہوگئی تھیں۔ رات کو میں ایک ریستوران میں کھانے کے لئے گیا تو دیکھا وہ عالم دین اور حضورؐ کے ذکر پر سر دھننے والے بہت سے لوگ ابوجہل کے ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ یہ لوگ بھرپور قہقہوں سے فضا کو بوجھل کئے ہوئے تھے۔ میں نے جاتی دفعہ ابوجہل کو کھانے کا بل ادا کرتے دیکھا۔

میں ایک مجلس عزا میں بیٹھا تھا، ذاکر شہادت حسینؓ کا دلدوز سانحہ پورے رقت آمیز لہجے میں بیان کر رہا تھا۔ وہ درمیان درمیان میں اپنے سینے پر دوہتڑ بھی مارتا تھا اور رونے جیسی آواز نکالتا تھا۔ سامعین مسلسل گریہ زاری میں مشغول تھے ان کے سینے غمِ حسین سے پھٹے جا رہے تھے جب ان میں صدمہ ضبط کرنے کی تاب نہ رہتی تو وہ اپنا سر اور اپنا سینہ پیٹنے لگتے۔ اگلے روز مجلس عز ا کے بہت سے شرکاء ایک دعوت میں یزید کے دائیں بائیں براجمان تھے۔!

یہ واقعات پڑھ کر مجھے بھی کچھ واقعات یاد آ گئے۔

میں ا یک سیاستدان کے جلسے میں گیا، وہاں عوام کا ایک جم غفیر تھا جو اپنے مقبول رہنما کی تقریر سننے کے لئے وہاں جمع تھا۔ رہنما نے کھدر کا کرتا اور لٹھے کی شلوار پہنی ہوئی تھی۔ وہ عوام کی حالت زار بیان کر رہا تھا اور بتا رہا تھا کہ غریب لوگوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے، وہ انصاف کے لئے ترس رہے ہیں، انہیں علاج معالجے کی سہولتیں میسر نہیں ہیں، ان کے بچے تعلیم حاصل نہیں کرسکتے، ان کی بچیوں کے ہاتھ پیلے نہیں ہوتے، چنانچہ خود کشی کی شرح میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یہ کہتے ہوئے رہنماآبدیدہ ہوگیا اور اس پر اتنی رقت طاری ہوئی کہ اسے اپنی تقریرروکنا پڑی۔ اس دوران پنڈال رہنما زندہ باد کے نعروں سے گونجتا رہا۔ رہنما فرط جذبات سے اپنی تقریر مکمل نہ کرسکا اور اسے ادھورا چھوڑ کر وہاں سے جانا پڑا۔ اسے ویسے بھی جانے کی جلدی تھی کیونکہ شہر کی وہ تمام مقتدر شخصیتیں جن کی وجہ سے عوام کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے ایک ڈنر میٹنگ پر اس کی منتظر تھیں جہاں عوام کی زندگیوں کو مزید اجیرن بنانے کے ایجنڈے کو حتمی شکل دی جانا تھی۔

میں اپنے ایک محب وطن دوست کے پاس بیٹھا تھا وہ اس بات پر بہت مغموم نظر آ رہا تھا کہ لوگوں میں حب الوطنی کا جذبہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ اسے اس بات کا قلق بھی تھا کہ پاکستان میں نافذ ظالمانہ نظام کے خلاف جدوجہد کرنے کی بجائے لوگ دل برداشتہ ہو کر گھروں میں بیٹھ گئے ہیں بلکہ یہ محب وطن امریکہ اور برطانیہ میں سیٹل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ وہ اس بات پر زیادہ اداس تھا کہ مغربی معاشرے میں رہنے والے پاکستانی اپنے سارے مادی خواب تو ایک نہ ایک دن پورے کرلیتے ہیں لیکن جب ان کی اولادیں خصوصاً بچیاں جوان ہوتی ہیں تو ان پر برا وقت آنا شروع ہو جاتا ہے۔ دوست کا کہنا تھا کہ یہ لوگ اگر اپنی ایک آدھ نسل کی دینی، قومی اور ثقافتی پہچان برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جائیں تو بھی اگلی نسل کا پاکستان، اپنی زبان، اپنے کلچر اور اپنے مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ یہ دوست مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو وقتی آسائشوں کے حصول کے لئے اتنی بڑی قربانی دینے پر تیار ہو جاتے ہیں؟ میں نے اس کی سنجیدگی کو نارملائز کرنے کے لئے لائٹ موڈ میں کہا ’’ایسی کوئی بات نہیں بلکہ اگر ان کے پاس امریکی پاسپورٹ ہوگا تو وہ پاکستان کا وزیراعظم بن سکیں گے اگر اور کچھ نہیں تو امریکی یا برطانوی پاسپورٹ ہولڈر وزیر، مشیر، ایم این اے، ایم پی اے تو باآسانی بن جاتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو ہمارے مقتدر طبقے کے پاسپورٹ چیک کرلو ان کی ایک بڑی تعداد دہری شہریت کی حامل ہے۔ مگر میرے دوست کو میری یہ ہلکی پھلکی گفتگو بے موقع محسوس ہوئی اور یوںاس کی سنجیدگی برقرار رہی۔ اگلے روز امریکن ایمبیسی کے سامنے سے میرا گزر ہوا تو میرا یہ محب وطن دوست امیگریشن ویزے کے حصول کے لئے لائن میں لگا ہوا تھا۔ میرے ایک انقلابی دوست نے کہا ’’بلوچستان میں ایک عرصے سے جو کچھ ہو رہا ہے تم اس پر خاموش کیوں ہو؟ میں نے جواب دیا ’’میں خاموش کہاں ہوں میں تو ایک عرصے سے بلوچوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھا رہا ہوں، خصوصاً اکبر بگٹی قتل پر تو میں اس درجہ مغموم تھا کہ اس روز کھانا میرے حلق سے نیچے نہیں اتر رہا تھا۔‘‘

دوست نے پوچھا ’’کیا تم اپنے خالی خولی احتجاج سے مطمئن ہو‘‘۔

میں نے کہا ’’مطمئن تو نہیں ہوں لیکن میں کوئی سیاسی کارکن نہیں ہوں کہ سڑک پر آ کر اپنے جذبات کا اظہار کر سکوں۔‘‘

دوست بولا ’’یہی تو تم لوگوں کا مسئلہ ہے، باتیں زیادہ بناتے ہو اور عمل کم کرتے ہو، کل میں ایک بڑے جلوس کے ساتھ وزیر اعظم ہائوس کے سامنے مظاہرہ کرنے جا رہا ہوںاگر ہمت ہے تو میرا ساتھ دو۔‘‘

میں نے کچھ لمحے توقف کے بعد کہا ’’ٹھیک ہے میں تیار ہوں گھر سے نکلو تو مجھے ساتھ لے جانا۔‘‘ اگلے روز میں اپنے دوست کے انتظار میں بیٹھا تھا کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی میں نے فون اٹھایا تو دوسری طرف میرا یہ دوست تھا’’آئی ایم سوری یار میں تمہاری طرف نہیں آسکوں گا۔ میں وزیراعظم ہائوس وزارت کا حلف اٹھانے جا رہا ہوں۔‘‘

میں حیران، پریشان بلکہ سراپا سوال ہوں کہ کیا سارے انسان ایسے ہوتے ہیں یا انسانوں کی یہ نسل صرف ہمارے ہاں پائی جاتی ہے؟

تازہ ترین