• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاست میں بھونچال ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی عوامی طاقت سے انکاری تمام سیاست دانوں کے اعصاب پر لانگ مارچ سوار ہے۔ کوئی فاتحہ خوانی کیلئے جاتا ہے تو گفتگو طاہر القادری پر شروع کردیتا ہے، کوئی جلسوں میں انہیں ہدف تنقید بناتا ہے تو کوئی اخباری بیانات کے ذریعے حق مخاصمت ادا کر رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کا ترجمان میڈیا بھی کئی روز سے لانگ مارچ کی مخالفت کر رہا ہے لیکن اب جیسے جیسے وقت قریب آتا جا رہا ہے، اضطراب بڑھتا جارہا ہے۔ اس بے چینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نام نہاد جمہوریت پسندوں کی کوئی محفل لانگ مارچ کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ کوئی اخبار ایسا نہیں جو اس مارچ کے تذکرے کے بغیر ہو اور نہ ہی کوئی ٹی وی چینل ایسا ہے جس پر لانگ مارچ کا چرچا نہ ہو۔ اگر بھونچال نہیں تو ایسی کونسی قیامت ہے کہ چھ روز قبل ہی راستوں کو کنٹینروں کے ذریعے بند کر دیا گیا ہے۔ گویا پورا ایک ہفتہ زندگی کا پہیہ جام رہے گا، سر پر لانگ مارچ سوار رہے گا۔ خبریں یہی ہوں گی اور خبروں میں یہی ہوگا۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر طویل عرصے سے ملکی سیاسی بساط پر قابض پارٹیوں کو خوف نہیں تو پھر ان کی نیندیں حرام کیوں ہو گئی ہیں پھر انہیں ہر وقت الیکشن کا التوا کیوں نظر آرہا ہے۔ دلیل کوئی نہیں کہ طاہر القادری کے سامنے دلیل لے آئیں، انہیں ڈرانے کی کوشش کی گئی مگر کار بے سود۔ کوشش کرنے والے بے نیل مرام لوٹ آئے کہ طاہر القادری موت سے بے خوف انسان ہے۔ اگر دال میں کالا نہیں تو پھر لانگ مارچ کی مخالفت کیوں کی جارہی ہے۔ اس میں کچھ بھی تو غلط نہیں کہ وطن عزیز میں سیاست دولت کا کھیل بن چکا ہے، پاکستانی سیاست پر مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔ جمہوریت پرستوں کو سوچنا چاہئے کہ جمہوریت اجارہ داری کا نام نہیں۔جمہوریت چند خاندانوں میں ملکی دولت کی تقسیم کا نام نہیں۔ سیاستدانوں کی چالبازیوں سے ہٹ کر ایک لمحے کو سوچئے کہ کیا ہماری سیاست میں کوئی عام آدمی الیکشن لڑ سکتا ہے اور اگر لڑ بھی لے تو کیا مخصوص ٹولہ اس کا راستہ نہیں روکتا۔
صاحبو! پاکستان کی ترقی کو اسی نام نہاد جمہوریت نے روکے رکھا۔ اپنے عوامی نمائندوں پر غور فرمایئے اور ضمیر سے پوچھئے کہ کیا یہ لوگ ایسی نمائندگی کا حق بھی رکھتے ہیں۔ کیا پاکستان کی دولت کو بے دردی سے نہیں لوٹا گیا۔ یہاں تو جمہوریت باریوں کا کھیل بن کر رہ گیا۔کیا یہ سچ نہیں پاکستان کی معاشی صورتحال ابتر ہے، کیا یہ جھوٹ ہے کہ پاکستان کے طول و عرض میں امن و امان ناپید ہے،کیا آپ جھٹلا سکیں گے کہ پاکستان میں جانوروں سے سستی انسانوں کی موت ہے،کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہر روز قریباً پچاس افراد کو زبردستی موت کے منہ میں دھکیل دیا جاتا ہے،کیا یہ سچ نہیں کہ غروب آفتاب کے بعد کسی بھی لنک روڈ پر سفر محال ہے،کیا یہ جھوٹ ہے کہ بھری مارکیٹوں میں لوگوں کے سامنے لوٹ مار کا بازار گرم رہتا ہے۔ یہ بات آپ سب کے علم میں ہے کہ پاکستان کے بڑے شہروں میں اغوا برائے تاوان کی وارداتیں بہت بڑھ چکی ہیں اور آنکھیں کھولنے کیلئے یہی کافی ہے کہ سرفہرست پنجاب ہے۔ اگر یہ سب کچھ سچ ہے اور اس سے انکار ممکن نہیں تو پھر طاہر القادری کے ایجنڈے میں کونسی بات غلط ہے۔ ہاں ان کی یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ نگران حکومت تمام پارٹیوں اور ریاستی اداروں کی مرضی سے بننی چاہئے، صرف دو پارٹیوں میں بندر بانٹ نہ ہو۔ جو لوگ اسے مذہب کی طرف موڑنے کی کوشش کررہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ دنیا کے ہر ملک میں کوئی نہ کوئی مذہب ہے مگر وہاں جمہوریت عام لوگوں کیلئے ایوانوں کے دروازے کھولتی ہے۔ آپ ہی بتائیے کہ پاکستانی ایوانوں میں کتنے مزدور پہنچے، کتنے صحافی، کتنے کارکن؟ کیا ایوان مخصوص خاندانوں کیلئے ہیں۔ کیا حق حکمرانی ایک ہی گروہ کو حاصل ہے، کیا یہ باقی سولہ کروڑ عوام کے مقدر میں لکھا جاچکا ہے کہ وہ محکوم ہی رہیں گے،کیا غلامی تقدیر کا فیصلہ ہے، کیا سیاستدانوں نے اپنی چکنی باتوں سے لوگوں کو غلام نہیں بنا رکھا۔ کیا پاکستان میں قدرت کا دیا سب کچھ نہیں۔ اگر ہے تو پھر مسائل کیسے؟ رہنماؤں کے پیدا کردہ مسائل ہیں جو طوالت اقتدار کی راہ میں سب کچھ کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔کہاں کی دانشمندی ہے کہ جمہوریت کے نام پر مذہب اور سیاست کو الگ روپ دینے کی کوشش ہو رہی ہے۔ برسوں پہلے شاعر مشرق نے کہا تھا کہ
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
انتخابی اصلاحات کا نعرہ بلند کرنا کوئی جرم تو نہیں، کیا یہ کہنا کوئی خطا ہے کہ صاف ستھرے عوامی نمائندے ایوانوں کی زینت بنیں۔شاباش الطاف حسین شاباش، آپ نے اداروں کے احترام میں خود کو جھکا کر بڑا کام کیا ہے۔ آپ کا یہ اقدام آپ کو قدآور بنا گیا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے احترام سے آپ کے احترام میں اضافہ ہوا ہے۔ الطاف حسین کا برسوں سے یہ نعرہ ہے کہ پاکستان کو جاگیرداروں کے چنگل سے چھڑایا جائے، اب اس کاوش میں وہ طاہر القادری کے ہمنوا بن گئے ہیں۔ یقینا ان صداؤں کے پیچھے سولہ کروڑ آوازیں ہیں، وہ آوازیں جنہیں آج تک دبایا جاتا رہا، جنہیں آج تک محکوم رکھا گیا۔چودہ جنوری کے روز اسلام آباد میں مارچ ہو رہا ہوگا، اس روز صدر مملکت مٹھی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کر رہے ہوں گے، ان کے ساتھ بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری بھی ہوں گے۔ صدر صاحب نے اچھی مصروفیت ڈھونڈ لی ہے۔ میاں نواز شریف کو چاہئے کہ وہ بھی اس روز کوئی مصروفیت ڈھونڈ لیں۔ ورنہ ٹی وی اسکرین پر وہ لانگ مارچ کے نظارے ضرور کریں گے۔ صدر سندھ سدھار رہے ہیں تو میاں صاحب پنجاب میں میلہ سجالیں۔ خیر شور بہت ہے، اضطراب ہے اور سیاست میں بھونچال ہے۔ لگتا ہے سب کچھ بدلنے والا ہے بقول راحت زاہد
یہی تو عہد رفاقت کی شرط اول ہے
کسی بھی حال میں پہلو تہی نہ کی جائے
معاملات میں راحت# غرض ہے لوگوں کی
اسی میں خیر ہے اب دوستی نہ کی جائے
تازہ ترین