• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہرِ قائد کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ایک بار پھر اضافہ ہو گیا ہے، جمعہ کو نیپا چورنگی کے قریب موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے معروف عالم دین مولانا مفتی تقی عثمانی کی دو گاڑیوں پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں سیکورٹی گارڈ اور ڈرائیور جاں بحق اور دو افراد زخمی ہو گئے جبکہ خوش قسمتی سے خود مولانا محفوظ رہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے پولیس سے رپورٹ طلب کر لی ہے اور پولیس کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ رات گئے پولیس اور رینجرز نے مختلف علاقوں میں کومبنگ آپریشن شروع کر دیا۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی کے حالات بالواسطہ یا بلاواسطہ پورے ملک پر اثر انداز ہوتے ہیں، گویا کراچی کے امن سے پورے ملک کا امن وابستہ ہے۔ یہ شہر امن سے محروم ہو جائے تو پورے ملک کی اقتصادی و کاروباری سرگرمیاں منجمد ہو کر رہ جاتی ہیں۔ کراچی ایک عرصہ تک ٹارگٹ کلنگ اور بدامنی کا شکار رہا، سیکورٹی فورسز نے جان کی بازی لگا کر اس کا امن و امان بحال کیا اور اس کی رونقیں واپس آگئیں جو ملک دشمن قوتوں کو کھٹک رہی تھیں۔ گزشتہ برس کے آخری مہینوں میں ان عناصر نے چینی قونصل خانے پر حملے سمیت متعدد کارروائیاں کیں تو پتا چلا کہ اس حملے اور ٹارگٹ کلنگ کے دیگر واقعات میں استعمال ہونے والے سلیپنگ سیلز کا تعلق بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ سے تھا۔ اس پس منظر میں مولانا تقی عثمانی پر حملے میں بھی لگتا ہے کہ پاکستان کا امن تباہ کرنے کی بیرونی سازش کار فرما ہے۔ یہ ان قوتوں کی سازش ہے جو کراچی کو بدامنی کا شکار کرکے پاکستان کو مفلوج کرنے کی خواہاں ہیں۔ مفتی تقی عثمانی ایک دینی اسکالر اور سابق جج ہیں۔ ان پر قاتلانہ حملے سے ملک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ صدر، وزیراعظم اور سیاسی و مذہبی رہنمائوں نے واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کو تفصیلی تفتیش کے بعد واقعے کے مقاصد کو بے نقاب کرنا اور اس کے کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہئے۔

تازہ ترین