• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جیسنڈا آردرن …وزیراعظم یا پھر کوئی ماں …!

ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار
نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کے خلاف ہونی والی دہشت گردی اور شہادتوں نے جہاں مغربی ممالک کے بعض حکمرانوں، لیڈروں اور سول سوسائٹیز کا اصلی چہرہ بے نقاب کردیا ہے، وہیں مغرب میں ہی رہنے والے نرم دل، ہمدرد، انسان دوست اور درد دل رکھنے والوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔ اس سے یہ بھی نمایاں ہوا ہے کہ دنیا میں اگرچہ نسل پرستوں، انسانیت دشمنوں اور متعصب برتنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے، مگر اس میں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن جیسی شخصیات کی بھی کمی نہیں ہے جو رنگ و نسل اور مذہب سے بالاتر ہوکر صرف انسانیت کو اولین ترجیح دیتی ہیں۔ 39سالہ وزیراعظم آرڈرن نے دہشت گردی کے بعد مساجد میں جاکر جس طرح مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ اس کی دنیا میں کہیں اور کوئی بھی مثال نہیں ملتی۔ خاص طور پر مغربی معاشروں کے اندر اس طرح کا شدت کے ساتھ ہمدردی کا نظارہ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ ان کی وائرل ہونے والی کئی تصاویر میں جہاں جہاں وہ مسلمان خواتین کو گلے لگاکر دلاسہ دے رہی ہیں، ان میں سے بعض میں ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی ماں یا بڑی بہن کسی بہت برے المیے کے بعد اپنے بچوں اور بہن، بھائیوں کو صبر کی تلقین کررہی ہیں۔ ان تصاویر میں ان کے چہرے پر کرب، ہمدردی، محبت، دکھ اور عاجزی کے سارے جذبات نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ صدیوں سے بے چین ہیں اور پریشانی کا شکار ہیں۔ دہشت گردی کے بعد وہ کئی بار مساجد میں جاچکی ہیں۔ مسلمانوں سے مل کر تعزیت کرچکی ہیں، مگر چین ہے کہ انہیں آتا ہی نہیں ہے! حتیٰ کہ انہوں نے اپنے دل کو سکون دینے کیلئے اپنی پارلیمنٹ کے اجلاس کی ابتدا تلاوت کلام پاک سے کرائی اور اس دوران بھی ان کے اندر کا کرب اور بے چینی واضح طور پر دیکھی جاسکتی تھی اور انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز بھی السلام علیکم کرکے کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس واقعے نے ان کی زندگی ہی بدل کر رکھ دی ہے۔ جیسے اب ان کی زندگی کا واحد مقصد دنیا بھر سے دہشت گردی کا خاتمہ ہی رہ گیا ہے۔ اس حوالے سے وہ نیوزی لینڈ میں قانون سازی کا آغاز کردیا ہے۔ تاہم وہ اس کام کے ذریعے دنیا بھر کو سفیدفام دہشت گردی کے خلاف سخت پیغام بھی دیں گی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی اپنے عمل کے ذریعے شاید یہ باور کرائیں گی کہ یہ دنیا فانی ہے۔ اس میں کوئی نسل یا مذہب کی دوسرے سے بڑا چھوٹا نہیں ہے اور یہ کہ سارے انسانوں کو جینے کا حق حاصل ہے وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن اور نیوزی لینڈ کے سارے لوگ دو مساجد میں ہونے والی اس دہشت گردی کے غم سے ابھی تک نہیں نکلے۔ وزیراعظم بالکل ایک ماں کی طرح آنکھیں بند کرکے شاید یہ دعا کرتی ہیں کہ شہید ہونے والے50افراد واپس آ جائیں ملک میں سوگ کی کیفیت ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ نیوزی لینڈ جیسے پرامن ملک میں پہلی مرتبہ دہشت گردی اور پہلی مرتبہ اس قدر زیادہ انسانی جانیں گئی ہیں اس ملک میں گزشتہ ایک ہفتے سے کوئی اور بات سوچی اور کی ہی نہیں جارہی ہے۔ اس کے باوجود کہ شہید ہونے والے تقریباً سارے لوگ ہی امیگرنٹس تھے، کوئی پاکستانی، کوئی بنگلہ دیشی، بھارتی اور کوئی عربی تھا۔ وہاں سب کا سوگ منایا جارہا ہے۔ اگر ہم وطن عزیز پاکستان کی بات کریں تو ہم نے ہزاروں شہدا کی لاشیں اپنے کاندھوں پر اٹھاکر دفنائی ہیں۔ ایک ہی دن میں سیکڑوں بچوں کا خون ہوتے دیکھا ہے۔ دہشت گردوں نے روزانہ کی بنیاد پر اس طرح سیکڑوں پاکستانیوں کو شہید کیا ہے کہ اب ہمیں شاید نیوزی لینڈ کا واقعہ اتنا بڑا نظر نہیں آتا۔ پھر یہ واقعہ ایسے وقت میں ہوا ہے کہ جب پاکستان کے22کروڑ عوام کوPSLکی صورت میں کئی برس بعد پہلی خوشی نصیب ہوئی تھی۔ پاکستان میں کرکٹ میچوں کی وجہ سے پاکستانی قوم تو خوش تھی ہی مگر اس سے بڑھ کر خوشی کی بات یہ ہے کہ اس سے بھارت کو بہت زیادہ تکلیف پہنچ رہی تھی، جس کو پاکستان کی کوئی معمولی سی خوشی بھی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ یہ ملک کچھ ہفتے پہلے پاکستان کو ’’سبق‘‘ سکھانے اور اپنی طاقت کے زعم میں اپنے دو مگ21طیارے پاکستانی شاہینوں کے ہاتھ تباہ کراچکا ہے۔ اس کیلئے ضروری تھا کہ پاکستان میںPSLکے میچوں کا اختتام شاندر انداز میں ہوتا، سو ہوا فائنل میں سیاسی اور عسکری قیادت کا ایک ساتھ ہونا بھی قومی اتحاد کو نمایاں کررہا تھا۔ پاکستان نے اس سے اگلے روز سوگ کا اعلان بھی کیا اور قومی پرچم کو سرنگوں بھی رکھا۔ اسٹیڈیم میں ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی گئی۔ PSLکے منتظمین کے مطابق اس سانحے کی وجہ سے فائنل کی رنگا رنگ تقریب کو مختصر بھی کردیا گیا، مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ فائنل کی تقریب میں صرف ساحر علی بگا کی آواز میں23مارچ کا قومی نغمہ پیش کیا جاتا اور باقی پروگرام بھی ختم کردیا جاتا؟
تازہ ترین