• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ابھی پچھلے مہینے آئین کے متعلق مصر میں ریفرنڈم ہوا ہے اور نیا آئین ریفرنڈم کے ذریعے منظور کیا گیاہے مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ اسی طرز پر پاکستان میں بھی کوئی ریفرنڈم ہونے والا ہے۔ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ کے نتیجے میں اگر پاکستان کی تاریخ پہلا شفاف ریفرنڈم ممکن ہوگیا تو یہ ڈاکٹر طاہر القادری کی ایک بڑی کامیابی ہوگی۔اس ریفرنڈم کا پہلی بار اعلان الطاف حسین نے پچھلے نومبر کے آغاز میں کیا تھا کہ لوگوں سے پوچھا جائے کہ وہ کیسا پاکستان چاہئے مگر اس ریفرنڈم کے پس منظر دہشت گردی کا عفریت تھا موجودہ ریفرنڈام ک بھی یقینا موضوع یہی ہوگا بس سوال آئینی ترمیمات کے حوالے سے ہوں گے۔جون دوہزار دس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ آئین میں ریفرنڈم کسی فوجی جنرل کو صدر بنانے کیلئے نہیں رکھا گیابلکہ اس کو آئین میں ترمیم کے سلسلے میں عوامی رائے معلوم کرنے کیلئے بھی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا تھا کہ آئین میں ریفرنڈم کی شق شامل کرنے کا مقصد یہ تھاکہ کسی بھی معاملہ پر لوگوں کی رائے لی جائے ۔انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں ریفرنڈم کی اہمیت اور آئین کی تمام شقوں کو فعال رکھنا چاہئے“۔دنیا کے کئی ممالک میں آئینی ترامیم ریفرنڈم کے ذریعے کی جاتی ہیں اورپارلیمنٹ کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کے بہت محدود اختیارات ہیں۔برطانیہ میں صرف انیس سو ستانوے سے لے کر دوہزار تک چار ریفرنڈم ہوئے ۔اسٹریلیا میں زیادہ تر آئینی ترامیم ریفرنڈیم سے کی جاتی ہیں ، بلجیم میں آئینی ترمیم کیلئے اسمبلی تحلیل کر کے نئے انتخابات کرانے پڑتے ہیں۔پاکستان میں پہلی بار آئینی ترمیم کیلئے ریفرنڈم کرانے کے متعلق سوچا جا رہا ہے امکان ہے کہ یہ آئینی ترامیم نگران اور الیکشن کے متعلق ہونگی۔یہ بھی ہوسکتا ہے یہ ریفرنڈم ان آئینی ترامیم کے متعلق بھی ہو جنہیں جب سے آئین بنا ہے غیر فعال رکھا گیا ہے۔ خاص طور پر وہ آئینی شقیں تو ضرور اس میں شامل ہونگی جن کا ذکر بار بار ڈاکٹر طاہر القادری کر رہے ہیں ۔
پاکستان میں آج تک جتنے ریفرنڈم ہوئے ہیں وہ صرف فوجی حکمران کی حکومت کو جائز قرار دینے کیلئے کئے گئے ہیں اور ان میں ہمیشہ” کھلی ڈلی“ دھاندلی ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستانی عوام ریفرنڈم کو مذاق سمجھنے لگی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ پاکستان میں پہلی بارکسی حقیقی ریفرنڈم کے متعلق سوچا جا رہا ہے ۔انیس دسمبر انیس سو چوراسی کے دن جنرل ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کو طوالت دینے کیلئے جو ریفرنڈم کرایا تھا اس میں اس نے نوے فیصد ووٹ حاصل کئے تھے ۔اُس ریفرنڈم میں یہ پوچھا گیا تھاکہ کیا آپ صدر پاکستان جنرل محمد ضیا الحق کی جانب سے پاکستان کے قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے ،نظریہ پاکستان کے تحفظ اور استحکام کیلئے کئے جانے والے اقدامات کو جاری رکھنے اور عوام کے منتخب نمائندوں کو اقتدار کی پُرامن اور منظم تبدیلی کی حمایت کرتے ہیں اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو پھر جنرل محمد ضیا الحق اگلے پانچ سال کے لئے پاکستان کے صدر مملکت ہیں ‘اس ریفرنڈم کے حوالے سے حبیب جالب نے کہا تھا
شہر میں ہو کا عالم تھا
جن تھا یا ریفرنڈم تھا
تیئس اپریل دو ہزار دو کوجنرل پرویز مشرف نے اپنے ریفرنڈم میں اٹھانوے فیصد ووٹ لئے تھے۔یہ جنرل ضیا ء کے ریفرنڈم سے بھی زیادہ لچسپ ریفرنڈم تھا اس کیلئے جیلوں ، ہسپتالوں ،پٹرول پمپوں ،فیکٹریوں ، مارکیٹوں، سرکاری عمارات میں ستاسی ہزار پولنگ اسٹیشن بنائے گئے تھے ۔جہاں کوئی بھی شخص جا کر ووٹ کاسٹ کر سکتا تھا چاہے اس کا نام ووٹر لسٹ ہے یا نہیں یعنی ایک آدمی ایک سو مرتبہ بھی ووٹ کاسٹ کر سکتا تھا۔اس ریفرنڈم کا سوال تھا کہ کیا آپ بلدیاتی نظام کی بقا،جمہوریت کے قیام ،اصلاحات کے تسلسل،فرقہ واریت اور انتہا پسندی کے خاتمے اور قائداعظم کے خواب کی تکمیل کیلئے صدر جنرل پرویز مشرف کو پانچ سال کیلئے صدر مملکت منتخب کرانا چاہیں گے۔
پاکستانی تاریخ میں ایسے یادگار ریفرنڈم کی موجودگی ہمیں بے یقینی کے اس موڑپر لے آئی ہے کہ ہمیں ریفرنڈم کا لفظ سن کرصرف دھاندلی کا خیال آتا ہے کہ پھر کوئی زور ور زبردستی کچھ کرنا چاہ رہا ہے مگر سنا ہے اس مرتبہ ریفرنڈم کے پیچھے زور ور نہیں وہ کمزور عوام ہے جنہوں نے ڈاکٹر طاہر القادری اور الطاف حسین کے دستِ مبارک پر بیعت کر رکھی ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دونوں شخصیات کے ماننے والے تعداد میں دو کروڑ سے زائد ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ چودہ تاریخ سے پہلے پہلے کسی ریفرنڈم کا اعلان ہوجائے گا اور ڈاکٹر طاہر القادری کو اپنا لانگ مارچ منسوخ کرنا پڑے گا یہی بھ ممکن ہے کہ لانگ مارچ جب آدھے راستے میں ہو تو ریفرنڈم کا اعلان ہوجائے ۔جہاں تک ڈاکٹر طاہر القادری کا اس سلسلے میں ناکامی کا سوال ہے تو وہ پیدا ہی نہیں ہوتا میں سمجھتا ہوں کہ سیاست کے میدان میں چوہدری برداران سے زیادہ دور بین اور کوئی نہیں ہے۔بس پچھلی مرتبہ ذرا مار کھا گئے تھے مگر اس کی وجہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت تھی ۔ان کی دوربین کے بہت دن پہلے انہیں مستقبل کا منظرنامہ دکھا دیا تھا وہ یونہی ڈاکٹر طاہر القادری سے ملنے نہیں آگئے تھے۔اور پھر الطاف حسین جیسا جہاندیدہ سیاست دان ان کے ساتھ ہے۔ امن و امان کے وزیر رحمن ملک بھی ان سے ملاقات کر آئے ہیں ۔میں نے تو سنا ہے وہ ان سے عربی زبان کی تعلیم حاصل کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں ۔ایسے لوگ اگر بھا گ بھاگ ڈاکٹر طاہر القادری کے پاس جارہے ہیں تو یقینا انہیں ڈاکٹر صاحب کی زنبیل میں بہت کچھ نظر آرہے ہیں بہرحال الیکشن کی تیاری کرنے والے ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے کیلئے تیار ہوجائیں ۔
تازہ ترین