• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا: راجہ اکبر داد خان
یکم مارچ کو شائع ہوئے مراسلہ میں راقم نے ’’ہم دیر کیوں کردیتے ہیں؟‘‘ کے عنوان کے تحت اپنی انٹیلیجنشیا Intelingentia سے شکایت کی تھی کہ ہم کمیونٹی سے جڑے اہم معاملات پر توجہ دینے میں اللہ جانے کیوں دیر کردیتے ہیں اور اس تحریر میں پرائمری اسکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب جس میں ایک ہی جنس کے درمیان شادیوں جیسے معاملات پر خصوصی توجہ دلائی گئی اور علماء کرام سے آگے بڑھ کر قیادت فراہم کرنے پر زور دیا گیا۔ 15مارچ کے اخبار The Timesمیں یہ خبر کہ والدین کے احتجاج پر لیزبین، ہم جنس پرستی اور ان گروپس کے درمیان شادیوں کے موضوعات پر اس اسکول میں اس وقت تک تعلیم اور تدریس بند کردی گئی ہے جب تک کہ مسلمان، جوئش اور دیگر والدین سے بات چیت کے ذریعہ نصاب پر اتفاق نہیں کرلیا جاتا۔ اسی روز یہ خبر روزنامہ جنگ لندن میں بھی شائع ہوئی، جس سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارا یہ موقر اخبار اہم کمیونٹی معاملات پر نظر رکھنے میں دوسروں سے پیچھے نہیں پایا جاتا۔ اس لئے اگر ہماری اکثریت انگریزی میڈیا سے انگیج ہونے میں تامل کا اظہار کرتی ہے تو روزنامہ جنگ کم قیمت میں یہ خدمت سرانجام دے رہا ہے۔ دونوں اخبارات اگرچہ پچھلے دو تین ماہ سے مسلمان والدین میں پائی جانے والی اس تشویش کا اظہار اپنے صفحات میں کرتے چلے آرہے ہیں، مگر پارکفیلڈ اسکول سے چلنے والی اس جائز مہم کے ایسے موضوعات کو اتنے کم بچوں میں انٹروڈکشن جہاں والدین کے مذہبی عقائد کے خلاف ہے وہاں اتنے گہرے موضوعات بالعموم ان بچوں کو کنفیوژ بھی کردیتے ہیں۔ تمام بچے عمر کے ساتھ اپنے جنسی معاملات خود ہی سمجھ جاتے ہیں کہ ان کے لئے کون سی راہ بہتر ہے۔ آفسٹڈ نے اسکول ٹیچر کی حمایت کی ہے اور والدین کے ساتھ اسکول کی بات چیت پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ مگر برمنگھم کا تعلیمی نظام پوری طرح اس معاملہ پر اب فوکسڈ ہے۔ اگرچہ اسی طرح کے احتجاج لیڈز، بریڈ فورڈ، لیورپول میں بھی چل رہے ہیں، مگر تاحال پارکفیلڈ سے جڑی کمیونٹی ہی ایک مثبت نتیجہ حاصل کرسکی ہے۔ اسکول کو بات چیت کے لئے تیار کرنے میں کمیونٹی خواتین نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہمیشہ تمام اچھے کاموں کی ابتدا چند کمیونٹی احوال کو ہمدردی سے دیکھنے والے احباب ہی کرتے ہیں۔ پارکفیلڈ کمیونٹی کی اس ٹیم نے جس محنت اور لگن سے کمیونٹی کو اپنے جائز حقوق کے لئے کھڑا کرکے دوسرے شہروں کے باسیوں کے لئے ایک عمدہ مثال قائم کردی ہے وہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ توقع ہے کہ اسکول اور متاثرہ والدین کے درمیان بات چیت کے اہم مرحلے اطمینان بخش انداز میں مکمل ہو جائیں گے اور ان کے درمیان یہ معاہدہ برطانوی تعلیمی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت سے جانا جائے گا اور اس کے نتیجے میں ابھرنے والا ’’نصاب‘‘ ملک بھر کے اسکولوں کے لئے قابل تقلید بن جائے گا۔ ہم سب کی نظریں آپ پہ لگی ہیں۔ کمیونٹی کے اندر سے اٹھنے والی درمیانہ درجہ کی یہ قیادت مسلمان کمیونٹی کے لئے اچھی خبر ہے کہ بالآخر لوگوں نے دوسروں کی طرف دیکھے بغیر اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے فیصلے کرنے کی جرأت کرنی سیکھ لی ہے۔ یقیناً یہ مثبت روش ملک کے دوسرے حصوں میں بھی دیکھنے کی توقع کی جاسکتی ہے برمنگھم والوں نے پچھلے چھ ماہ میں دوسری بڑی کامیابی کچرا ’’بن کلیئر‘‘ کروانے میں حاصل کی۔ جہاں انہوں نے اپنے رویوں سے کونسل کو مجبور کردیا کہ وہ ہر دو ہفتہ بعد ’’بن کلیئر‘‘ کروانے کی قانون سازی ختم کرکے دوبارہ ہفتہ وار بن کلیئر کروانے کا بندوبست کرے۔ دستخطوں کی مہم کے ساتھ میڈیا اس سٹوری سے جڑا رہا جس کے نتیجہ میں آج برمنگھم کونسل کمیونٹی کو بن کلیئر کرنے کے حوالہ سے ہفتہ وار سروس فراہم کررہی ہے مقامی سطح پر کونسلیں اپنے اتنے بڑے فیصلے آرام سے نہیں بدلتیں برمنگھم والے ان دونوں اہم کامیابیوں پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ہمارے شہر لوٹن میں بھی گزشتہ اکتوبر سے ایک نہایت کمزور کنسلٹیشن کے بعد ہر دو ہفتہ بعد ’’بن کلیئر‘‘ کرنے کا عمل شروع ہوگیا ہے۔ یہاں بھی مقامی مساجد نے دستخطی مہم اور میڈیا مہم کے دوران اس فیصلہ کے خلاف بھرپور حصہ لیا۔ بری پارک علاقہ کی چاروں وارڈز میں لوگوں نے دستخط مہم میں بھرپور حصہ لیا۔ لکھنے والوں نے کئی کالم بھی لکھے کہ یہ غیر معقول فیصلہ ہے جس کے نتیجے میں شہر میں حفظان صحت، کمیونٹی سیفٹی اور ماحولیات کے مسائل پیدا ہوں گے۔ مگر وقت کے ساتھ مقامی اتحاد میں کبھی ایک نام پر اور کبھی دوسرے پر دراڑیں پڑنی شروع ہوگئیں اور ہم اپنی مہم کو اعلیٰ ترین سطح پر پہنچانے کے باوجود اس سے اچھے نتائج حاصل نہ کرسکے۔ آج بری پارک وارڈز کی بیشتر سڑکوں کے کونوں پر ’’ربش بیگز‘‘ کے ڈھیروں میں اضافے ہر کسی کو نظر آرہے ہیں۔ ماسوائے17مسلمان کونسلروں کے اور لوٹن کونسل کے ان چاروں وارڈوں میں اپنے لوگوں کی بھاری تعداد آباد ہے۔ ہماری برمنگھم اور لوٹن میں کمیونٹیز کی شناخت تقریباً ایک جیسی ہے۔ صرف برمنگھم ڈھائی تین گنا بڑا شہر ہے بن ایشوز پر ہمارے سترہ میں سے صرف ایک معزز کونسلر ہماری پٹیشن کی حمایت کی جرأت کرسکے، باقی سب کا ایک ہی جواب تھا، جی تھری لائن وہپ تھی۔ برمنگھم معاملات میں بہتری کیلئے یقیناً اقلیتی کونسلرز نے اہم کردار ادا کئے ہوں گے۔ ہمارے ہاں مئی میں کونسل انتخابات ہورہے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ سولہ میں سے9موجودہ کونسلرز کو اپنی وارڈوں نے اگلے انتخابات کیلئے دوبارہ نامزد نہیں کیا۔ لہٰذا انہیں اپنے ضمیر کے مطابق اس مسئلہ پر فیصلہ کرنے میں کوئی دشواری نہ اکتوبر میں اور نہ ہی نومبر میں تھی، کیونکہ وہ الیکشن ریس سے باہر ہوچکے تھے اس کے باوجود وہ اس کمیونٹی مسئلہ پر اپنا ووٹ نہ استعمال کرسکے۔ ہماری کمیونٹیز کے درمیان تین قسم کے حلقے موجود ملتے ہیں۔ پہلا حلقہ کچھ اس طرح کی سوچوں میں جکڑا ہوا ہے کہ ہم کوئی تبدیلی نہیں لاسکتے لہٰذا جو ہے اسے تسلیم کرلیا جائے اس بڑے طبقہ کیلئے برمنگھم کی یہ دونوں مثالیں رہنمائی کا باعث بن کر انہیں کچھ کرنے کی طرف مائل کریں گی۔ دوسرا مڈل کلاس طبقہ ہے جو اپنے ماحول سے Detached ہے۔ یہ طبقہ اپنی مصروفیات کی بنا پر کمیونٹی ایشوز سے لاتعلق ہے۔ بیشتر کمیونٹی ایشوز پر صرف ایک چھوٹا سا طبقہ جڑا ملتا ہے۔ اگر پہلے دو طبقات بھی کچھ تعاون فراہم کرنے کے لئے تیار ہوجائیں تو ہر شہر میں مقامی اور قومی سطح کے مسائل پر مضبوط لابنگ کی جاسکتی ہے۔ اسکولوں کے معاملات سے مستقبل نسلوں کی امیدیں جڑی ہیں۔ لہٰذا ان پر توجہ دینی نسبتاً زیادہ اہم ہے۔ اہم کمیونٹی معاملات پر ذمہ دار لوگوں کے کچھ نہ کرنے کے رویوں کے بارے میں کیا کہا جائے۔ اس کا جواب آپ پر چھوڑتا ہوں۔ برمنگھم سے دونوں صورتوں میں لوئر مڈل کلاس لیڈر شپ کا ابھرنا اچھے مستقبل کی نشانی ہے۔ واضح ہو کہ جہاں کمیونٹی ایشوز کی بات آجائے۔ ہمارے بزرگ اور نوجوان مل کر بات کو آگے بڑھاتے ہوئے معاملات سے نمٹ لینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ میری طرح سوچنے والے جس طرح ایسی پیش رفتگیوں پر جس طرح شادیانے بجانے شروع کردیتے ہیں۔ اللہ کرے ناکام خبروں کی بو تک بھی ان کے قریب سے نہ گزرے۔
تازہ ترین