• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی کے ایل آئی کو پاکستان کا ہارورڈ بنانا چاہتے ہیں،ڈاکٹر سعید اختر

کراچی(ٹی وی رپورٹ) بانی و صدر پی کے ایل آئی ڈاکٹر سعید اختر نے کہا ہے کہ نیا بل لاکر پی کے ایل آئی کو حکومت کے حوالے کردیا گیا ہے، سرکاری ادارہ بننے کے بعد میرا پی کے ایل آئی کے ساتھ چلنا ممکن نہیں ہوگا، حکومت اپنے ارادے پر قائم رہتی ہے تو میں کوئی اور اسپتال بناؤں گا، پی کے ایل آئی کو پاکستان کا ہارورڈ بنانا چاہتے ہیں۔ وہ جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں ن لیگ کے رہنما بیرسٹر ظفر اللہ،ایڈیٹر انویسٹی گیشن دی نیوز انصار عباسی اور صدر ایسوسی ایشن آف پاکستانی فزیشن آف نارتھ امریکا ”اپنا“ کے صدر ڈاکٹر نسیم شیخانی سے بھی گفتگو کی گئی۔ڈاکٹر نسیم شیخانی نے کہا کہ ڈاکٹر سعید اختر سے جو سلوک پاکستان میں ہوا اس کے بعد پی کے ایل آئی جوائن کرنے والے کئی ڈاکٹرز نے اپنا ارادہ تبدیل کردیا ہے، امریکا سے پاکستان جانے والے ڈاکٹروں کا مقصد غریبوں کی مدد کرنا ہوتا ہے، ڈاکٹر سعید اختر پیسوں یا مراعات کیلئے نہیں وطن کی محبت کا جذبہ لے کر پاکستان گئے تھے، ڈاکٹر سعید اختر امریکا میں ہوں تو یہاں سے دس بیس گنا زیادہ کماسکتے ہیں۔انصار عباسی نے کہا کہ جب پروفیسرز اور پروفیشنلز کو بغیر جرم ثابت کیے ہتھکڑیاں لگیں گی تو کون یہاں آئے گا، ملک کو ترقی کی راہ پر لانے کیلئے میثاق جمہوریت اور میثاق گورننس کرنا ہوں گے، پاکستان میں اچھے ڈاکٹرز سرکاری اسپتالوں میں اس لئے کام کرتے ہیں تاکہ ان کی پرائیویٹ پریکٹس اچھی ہو۔ڈاکٹر سعید اختر نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کو راضی کرنا ہے تو مخلوق کی خدمت کرو یہی جذبہ مجھے پاکستان لے کر آیا، میں نے پاکستان کڈنی انسٹیٹیوٹ میں ڈیڑھ لاکھ غریب لوگوں کو بھی وہی ٹریٹمنٹ دی جو امیروں کو دیتے ہیں۔ ڈاکٹر سعید اختر کا کہنا تھا کہ اب میرا پی کے ایل آئی کے ساتھ منسلک رہنا شاید مشکل ہو، نیا بل لاکر پی کے ایل آئی کی ہیئت تبدیل کردی گئی اور اسے حکومت کے حوالے کردیا گیا ہے، سرکاری ادارہ بننے کے بعد میرا پی کے ایل آئی کے ساتھ چلنا ممکن نہیں ہوگا، اگر حکومت اپنے ارادے پر قائم رہتی ہے تو میں کوئی اور اسپتال بناؤں گا، میرا مقصد اس ادارے کو ایک سینٹر آف ایکسی لینس بنانا تھا، پی کے ایل آئی کا مرکزی ویژن اللہ کی مخلوق کی خدمت کر کے اللہ کو راضی کرنا ہے، پی کے ایل آئی کو پاکستان کا ہارورڈ بنانا چاہتے ہیں، بہترین تعلیم، بہترین ریسرچ، بہترین علاج کی سہولتیں اس ادارے کا مرکزی نکتہ ہے، یہ چیزیں صرف ہمارے سوچے گئے ماڈل میں ہی ممکن ہے، پی ٹی آئی حکومت کو یہ ماڈل آسانی سے سمجھ آنا چاہئے کیونکہ یہ شوکت خانم کے ماڈل کے مطابق ہے، حکومت ہمیں زمین کے ساتھ صرف 470بیڈز کا پہلا فیز بنا کر دینا تھا،اس کے بعد ہمیں چیریٹی سے اسے 1500بیڈز تک لے جانا تھا، اگر پی کے ایل آئی حکومتی کنٹرول میں ہوگا تو قابل لوگ نہیں آئیں گے اور ڈونرز پیسے نہیں دیں گے۔انصار عباسی نے کہا کہ ڈاکٹر سعید اختر سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آئے مگر ہم نے ان کے ساتھ کیا کیا، چھبیس کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹوز کو بلا کر تنخواہیں واپس کرنے کیلئے کہا گیا، اگر کارروائی کرنی ہی تھی تو وزیراعلیٰ کیخلاف کرتے، جب پروفیسرز اور پروفیشنلز کو بغیر جرم ثابت کیے ہتھکڑیاں لگیں گی تو کون یہاں آئے گا، ملک کو ترقی کی راہ پر لانے کیلئے میثاق جمہوریت اور میثاق گورننس کرنا ہوں گے، پاکستان میں اچھے ڈاکٹرز سرکاری اسپتالوں میں اس لئے کام کرتے ہیں تاکہ ان کی پرائیویٹ پریکٹس اچھی ہو، خسارے میں جانے والے اداروں کیلئے وفاقی حکومت کی پالیسی ہے کہ انہیں خودمختار بورڈز کے تحت لایا جائے گا لیکن پی کے ایل آئی میں بالکل مختلف پالیسی ہے۔
تازہ ترین