• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ٹی آئی کی حکومت کو اقتدار میں آتے ہی سب سے بڑا چیلنج زرمبادلہ کے ذخائر کے انتہائی نچلی سطح پر آجانے کا پیش آیا، اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے بین الاقوامی مانیٹری فنڈ سے رجوع کرنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ دکھائی نہیں دے رہا۔ ماضی میں جب بھی کسی حکومت کو ایسی صورتحال درپیش ہوئی تو آئی ایم ایف نے ہماری مالیاتی پالیسیوں کو اپنی شرائط کے تابع بنانے کی کوشش کی۔ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستانی حکام کے گزشتہ کم و بیش 6ماہ سے مذاکرات چل رہے ہیں جن کے آئندہ ماہ طے ہو جانے کے امکانات ہیں۔ اب تک ہونے والی بات چیت میں وہ اپنی بہت سی شرائط پیش کر چکا ہے۔ اب اس نے حکومت پاکستان سے کہا ہے کہ وہ اسٹیٹ بینک کے ساتھ مارکیٹ کی بنیاد پر لچکدار شرح مبادلہ اختیار کرنے کی جانب قدم بڑھائے۔ آئی ایم ایف نے اس سلسلے میں دنیا میں ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کی مثال دی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق حکومت شرح مبادلہ میں نظم و ضبط کے حصول کی منصوبہ بندی کر رہی ہے اور اسٹیٹ بینک کو ایک شفاف اور مضبوط ادارے کے طور پر نیز کرپشن کے حوالے سے بڑی خود مختاری دینے کے بارے میں سوچ بچار کر رہی ہے۔ اس سلسلہ میں اسٹیٹ بینک ایکٹ میں ترمیم ایک منطقی اور بنیادی امر ہو گا جو ایک طویل عمل ہے، جس میں اسٹیٹ بینک کا دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت اور تجاویز حاصل کرنا ضروری ہے۔ ہر ملک کی مالیاتی پالیسی وہاں کے زمینی حقائق ملحوظ رکھتے ہوئے ترتیب دی جاتی ہے۔ گزشتہ 71برس میں ملک میں بدعنوانی اس قدر بڑھی کہ آج حکومت کو سب سے بڑا چیلنج قومی محاصل کے حصول کے ضمن میں ہی درپیش ہے اور حکومت بھی اس سلسلے میں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کا ارادہ رکھتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حتمی فیصلے کرتے وقت آئی ایم ایف کے مطالبات کو ہر زاویے سے ملکی و قومی مفادات کے تناظر میں جانچا جائے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین