• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی تہذیب کا ارتقاء تو ایک نہ رکنے والا عمل ہے۔ ہم مسلمانوں کے مذہبی اعتقاد اور ایمان کے مطابق اس کا اختتام تو روزِ قیامت ہی ہوگا، جب انسان فانی زندگی کے بعد اپنے اصل کی جانب لوٹ جائے گا لیکن گزری صدی میں ارتقائی عمل میں جو امتیازات پیدا ہوئے وہ انسانی دماغ سے زیادہ اجتماعی ضمیر سے متشکل ہوئے، ساتھ ہی چیلنج پیدا ہوگیا کہ اس حاصل کو کیسے تحفظ دینا ہے اور کیونکر اسے مزید ارتقائی شکل دینا ہے۔

یورپ کے سب نہیں چند ممالک (برطانیہ، فرانس، ہالینڈ، بلجیم، اسپین اور پرتگال) کے اپنی حدود سے نکل کر دنیا بھر میں پھیل کر نو آبادیاتی نظام، سامراج (بزور طاقت گوروں کی حکومت کا قیام) اجتماعی انسانی خود غرضی کی انتہا اور اس کا جدید ترین مہذب اور وسیع تر ماڈل تھا۔ جس کو یورپ میں ہی پیچھے رہ جانے والی لیکن نئی طاقت پکڑتی ریاستوں نے چیلنج کیا تو اس کے نتیجے میں انسانیت کو سب سے بڑی ہلاکتوں سے دوچار کرنے والی پہلی اور دوسری ہولناک عالمگیر جنگوں نے جنم لیا۔ اس میں یہودیوں کے تمام دعوئوں کو سچ سمجھتے ہوئے ہٹلر کے ہاتھوں ان کے ہولو کاسٹ کو بھی تسلیم کر لیا جائے تو ہر دو جنگوں اور ہولو کاسٹ کی نسل کشی میں لاکھوں نہیں کروڑ ہا افراد کا قتلِ عام ہوا، اسی کے پس منظر میں 1917میں جو کمیونسٹ انقلاب برپا ہوا، خود اس میں اور اس کے اپنے پس منظر میں زاروں کے ادوار میں روسی ریاست کے نواح خصوصاً وسط ایشیائی اسلامی تہذیب کے مسلم معاشروں میں جو قتلِ عام ہوا اس کی انسانی ہلاکتیں بھی 4کروڑ سے زیادہ نفوس پر مشتمل تھیں۔ انسانی تہذیبی عمل کے ارتقاء میں شیطانیت کے غلبے کے ساتھ یہ پے درپے قتل ہائے عام فقط ایک ڈیڑھ صدی میں تب ہوئے جب صنعتی انقلاب اور پھر انقلاب فرانس (یعنی عظیم تر اقتصادی اور سیاسی تبدیلیوں) کے متوازی یورپ میں تحریک احیائے علوم کا آغاز اور عروج ہوا۔

اس پس منظر میں گزری 20ویں صدی کا وسط شروع ہونے سے قبل انسان پر انسان کے بے قابو اور بے پناہ تشدد نے (کہتے ہیں) انسان کے اجتماعی ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ اقوام متحدہ کے قیام اور اس کے منشور پر نئے عالمی معاشرے کے اتفاق رائے، پھر نو آبادیاتی نظام (Colonialism) کے خاتمے کا نہیں بلکہ نیم نو آبادیاتی نظام (Neo-Colonialism)کی شکل میں آ جانے سے جاری صدی کا جو امتیاز بنا اس کی عملی شکل اقوام متحدہ اور اس کے منشور کی چھتری میں فرد کے حق خودارادیت اور ریاست کا تحفظ بشکل جغرافیائی سرحدوں کا عمومی احترام بنی رہی۔

آج جبکہ 21ویں صدی کا دوسرا عشرہ قریب الاختتام ہے، مسئلہ فلسطین و کشمیر کے موجود رہنے اور ان کے حل میں مزاحمت نہیں، ان کو بدترین شکل دینے، اس سے قبل جنگ عظیم دوم اور اقوام متحدہ کے قیام کے باوجود کوریا کی تقسیم سے وجود میں آنے والی ایٹمی مسلح ریاست شمالی کوریا اور عالمی دہشت گردی، پھر یورپ سے اٹھنے والی مذہبی منافرت بشکل کیری کیچر ایشو (2004) اور یہ سارا پس منظر لئے بھارت، امریکہ اور اسرائیل میں مذہبی بنیاد پرستی کے مزاج کی حکومتوں کا قیام اور اس کے مطابق ان کی پالیسیاں اور اقدامات اور ان سے ان کے اپنے عوام اور عالمی معاشرے کا متاثر ہونا، عالمی امن کے لئے ایک گمبھیر صورتحال ہے۔

جب مغرب کی بات کی جائے تو اس میں سامراج کی ہی آف شوٹ سے جنم لینے والا امریکہ (جس نے داخلی ارتقا اور جمہوری عمل سے خود کو کمال شفاف بھی کیا) بھی عالمی تشدد اور بے امنی کا ذمہ دار نہیں؟ پہلے اپنے قیام کے لئے افریقیوں کو غلام بناکر اور پھر ریڈ انڈینز کی کروڑوں کی تعداد میں ہلاکت جدید میں تاریخ کے ہولناک ابواب نہیں۔ اس ساری جدید تاریخ جس کے ایک ایک واقعہ میں کروڑوں کی ہلاکتیں ہیں، اقوام متحدہ کے قیام اور اس سے عالمی اتفاق کے باوجود مسئلہ کشمیر و فلسطین اور شمالی کوریا کی خطرناک ریاست کے جنم لینے کا ذمہ دار کون ہے؟ یورپ اپنی وحدت یورپبانزیشن (بشکل یونین) کا تیزی سے کامیاب عمل کس طرح کیری کیچر جیسے شعوری طور پر پیدا کی گئی عالمی شر، بریگزٹ (یونین) سے برطانوی اخراج کی طرف مڑ گیا۔ سی پیک جیسے خطے اور پھر خطوں کی یقینی خوشحالی جیسے پُرامن منصوبوں پر بھارتی اور امریکی مخالفت کا کیا مطلب ہے؟ اور یکطرفہ اور طاقت کے زور پر دعویٰ کے ساتھ اسلام کو دہشت گردی سے 30-25سال سے منسوب رکھنے میں ناکامی۔ اب مسئلہ کشمیر کے فقط نیوکلیئر فلیش پوائنٹ ہی نہ ہونے بلکہ اس کے ساتھ بھارتی جنگی جنون اور پاکستان پر ہوائی حملے کے بعد کی صورتحال نے سب کچھ کھول کر نہیں رکھ دیا؟ کشمیریوں پر اسرائیلی اسلحے سے ہونے والی بھارتی ریاستی دہشت گردی آج دنیا کو کہاں لے گئی ہے؟

وقت آ نہیں گیا کہ پوری شدت، اجتماعی اسلامی حکمت و دانش اور دستیاب ابلاغی ٹیکنالوجی کی مدد سے عالمی امن کا پرچم تھامے یہ سوال اٹھائے جائیں کہ ڈیڑھ سو سال کی انسانی تہذیبی ارتقاء کے متوازی امنِ عالم اور انسانیت کی تباہی کا ذمہ دار کون اور کیوں ہے؟

نیوزی لینڈ میں جو کچھ ہوا اس پر اس ننھی خوبصورت انصاف پسند اور اعلیٰ ترین ماڈل حکومت کا رویہ و ردعمل اشارہ ہے کہ ایسے ماڈل سے دنیا کے امن کو سنبھالا جا سکتا ہے اور انسانیت ابھی زندہ ہے لیکن مسلم دنیا جس کا بالشویک انقلاب، اس سے قبل زاروں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام، پہلی اور دوسری جنگ عظیم، کروڑوں افریقیوں، ابارجینز اور ریڈ انڈینز کے قتل عام اور ہولو کاسٹ میں دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں، نہ شمالی کوریا بنانے میں اور مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین میں، پھر میانمار میں ہونے والی مسلمانوں کے خلاف ریاستی معاونت میں ہونے والی دہشت گردی سے ان کا قتل عام، یا یہ سب کس نے کیا۔

وزیراعظم عمران خان نے عرب و عجم کے جاری مسئلے کے باوجود اسلامو فوبیا کے خلاف پاکستان، ملائیشیا اور ترکی کے اسٹرٹیجک اتحاد کی تجویز تو دے دی جس سے ان کی قیادت کے کیلیبرکا اندازہ ہوتا ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کی حکومت خصوصاً پاکستانی وزارت خارجہ، دانشور طبقے، یونیورسٹیاں، پارلیمنٹ، میڈیا اور پوری پاکستانی قوم میں اتنی جان ہے کہ وہ اس کے فالو اَپ میں اور اسے عالمی ایجنڈے میں تبدیل کرا سکیں؟ اگر نیوزی لینڈ جیسا معصوم لیکن شفاف اور الگ تھلک ملک دنیا بھر میں اسلامو فوبیا کے مقابل عالمی شیطانیت کو بے نقاب کر سکتا ہے تو کیا عالم اسلام کی تین طاقتیں اس کو آگے بڑھا سکتی ہیں؟ ذرا سوچئے!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین