• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی سلطنت کے بادشاہ کو اپنے دشمنوں کے خلاف بار بار شکستوںکا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، کوئی حکمت کارگر ثابت نہیں ہو رہی تھی اور دشمن مسلسل حاوی تھا۔ نظام حکومت درہم برہم ہوگیا، معیشت بدحالی کا شکار ہوگئی، رعایا فاقوں مرنے لگی، بادشاہ کی ناکامی اور نااہلی کو دیکھتے ہوئے علم و دانش رکھنے والے درباریوں نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ منادی کراکے امور سلطنت چلانے کے لئے عبوری طور پر ایک ماہ کے لئے نئے بادشاہ کا انتخاب کر لیا جائے۔ سلطنت کے چوکوں، چوراہوں پر منادی ہوئی کہ سلطنت کے امور علم و دانش اور حکمت سے چلانے کے لئے ایک ایسے شخص کو بادشاہ بنانا مقصود ہے جو نہ صرف رعایا کو سکون و راحت فراہم کرے بلکہ زندگی کی بنیادی آسائشیں فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ طاقت ور دشمن کا مقابلہ کرنے کی بہترین حکمت عملی پر بھی عبور رکھتا ہو۔ نئے بادشاہ کو عبوری طورپر وہ تمام اختیارات حاصل ہوں گے جو سلطنت کے دستور کے مطابق حقیقی بادشاہ سلامت کو حاصل ہیں۔ منادی کا آخری پیغام یہ تھا کہ بادشاہ سلامت کے حکم کی تعمیل ہو اور کل صبح سورج کی پہلی کرن کے ساتھ سلطنت کی حدود میں جو شخص سب سے پہلے داخل ہوگا وہ ایک ماہ کے لئے امور سلطنت چلانے کا اہل قرار پائے گا۔ ڈنکے کی چوٹ پر منادی کرائی گئی، اگلی صبح ایک کمہار اپنے گدھے پر سوار سلطنت کی حدود میں داخل ہوا۔ ہر طرف حیرت اور خوشی کا سماں تھا، رعایا کی امیدیں بر آئیں،جشن ہی جشن، ڈھول کی تھاپ پر گدھے پر بیٹھے کمہار کو شاہی دربار میں لایا گیا، کمہار کو خود نہیں پتہ تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور اس کا یہ دیدنی استقبال کیوں؟ سلطنت کے حقیقی بادشاہ نے کمہار کا کھڑے ہو کر استقبال کیا، گلے لگایا اور اسے تمام تفصیلات سے آگاہ کیاکہ اس کا استقبال کیوں کیا جارہا ہے اور اسے آئندہ ایک ماہ کے لئے کیا کرنا ہے۔ شاہی فرمان کے مطابق کمہار کو غسل کرایا گیا، خوشبویات لگائی گئیں، شاہی پوشاک پہنا کر تخت پر بٹھا دیا گیا۔ تمام درباریوں نے حاضری دی اور پہلے شاہی فرمان کے منتظر ہوئے۔ دشمن کا خطرہ بھی سر پر منڈلا رہا تھا۔ نئے بادشاہ سلامت نے پہلا شاہی فرمان جاری کیا کہ حلوے کی دیگیں پکائی جائیں اور رعایا میں تقسیم کر دی جائیں، تمام درباریوں اور رعایا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ امور سلطنت ایک سخی اور رعایا پرور بادشاہ کے ہاتھ میں آگئے ہیں اور اب رعایا کو راحت و سکون ملے گا اور دشمن کے خلاف صحت مند اور طاقت ور سپاہ لڑنے کو تیار ہوگی، غربت اور فاقہ کشی کا دور ختم ہوگا۔ تمام درباریوں نے اس فرمان کو حکمت و دانش سمجھا۔ شاہی فرمان پر فوری عمل ہوا۔ اگلے دن بادشاہ سلامت کو ہرکاروں نے خفیہ اطلاع پہنچائی کہ دشمن پیش قدمی کررہا ہے اور سپاہ آپ کے نئے فرمان کی منتظر ہے۔ بادشاہ سلامت نے درباریوں سے مشاورت کے بعد فرمان جاری کیا کہ حلوے کی دیگیں پہلے سے زیادہ تعداد میں پکائی جائیں اوررعایا میں تقسیم کر دی جائیں۔ شاہی فرمان پر کچھ لوگوں کو حیرت بھی ہوئی لیکن اسے ایک بار پھر حکمت ہی جانا گیا اور شاہی فرمان پر من و عن عمل ہوا۔ قصہ مختصر ہرکاروں نے آخری اطلاع یہ دی کہ دشمن سر پر آن پہنچا ہے اور کسی بھی وقت حملہ آور ہو سکتا ہے۔ شاہی سپاہ آپ کے حتمی حکم کی منتظر ہیں۔ فوری فیصلہ درکار ہے بصورت دیگر شکست یقینی ہے۔ پھر شاہی حکم جاری ہوا حلوے کی دیگیں پہلے سے کئی گنا زیادہ تعداد میں پکائو اور تقسیم کرو۔ بادشاہ سلامت کو آخری اطلاع یہ دی گئی کہ دشمن سلطنت کی حدود میں داخل ہو چکا ہے اور قبضہ کررہا ہے۔ بادشاہ سلامت نے پھر کہا :ساہنوںکی اسی تے حلوہ کھان آئے سی تسی جانو تے تہاڈا کم، اسی تے چلے۔ (مجھے کیا ہم تو حلوہ کھانے آئے تھے آپ جانیں اور آپ کا کام میں تو چلا)۔ پنجاب کی سرکار نے اپنی اوراراکین پنجاب اسمبلی کی تنخواہ و مراعات اور تاحیات صحت کی مفت سہولتوں کا جو بل منٹوں سیکنڈوں میں پاس کروا لیا ہے لگتا یہی ہے کہ یہ سب حلوہ کھانے ہی آئے ہیں اور ’’اَنّے ہتھ بٹیرا‘‘ لگ گیا ہے۔ واری صدقے جائیں تبدیلی سرکار کے، ہماری جان ان پر قربان جو اپنے سینے میں دن رات رعایا کا درد لئے پھرتے ہیں اور انہیں پتہ ہی نہیں چلا کہ سرکار کتنا حلوہ کھا گئی۔ یہ ہماری تبدیلی سرکار بھی کمال ہے کہ گزشتہ ایک ماہ سے سرکار اس شاہی مراعاتی بل پر کام کررہی تھی، ذرائع ابلاغ میں کھلے عام اس بل پر تبصرے ہو رہے تھے، بل کی منظوری سے چند گھنٹے قبل تمام میڈیا میں خبریں گردش کررہی تھیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تبدیلی سرکار تاریخ میں پہلی بار اکثر و بیشتر تخت پنجاب میں دربار سجا کر گھنٹوں درباریوں سے مشاورت کرتی رہی اور ان کے فرمان پر عمل ہوتے رہے اور اب جب پانی سر سے گزر گیا اور سرکار اپنا ٹیلنٹ(واردات) شو کرگئی تو تبدیلی سرکار کوئی سخت ایکشن لینے کی بجائے عوامی دبائو پر صرف ٹویٹ کے ذریعے ’’تعزیت‘‘ فرما رہی ہے۔ کمال کے لوگ ہیںیہ،پہلے خزانہ لوٹنے والوںکو للکارتے ہیں پھر گدھے پر بیٹھ کر امور سلطنت چلانے چلے آتے ہیں اور جب خزانے کا منہ کھلتا ہے تو درباریوں کے منہ میں پانی بھر آتا ہے پھر جشن مناتے ہیں، حلوہ پکاتے ہیں اور خود ہی کھا جاتے ہیں۔ رعایا کو تو حلوے کی خوشبو سونگھنے کا موقع بھی نہیں دیتے اور ہماری تبدیلی سرکار گڈ گورننس کے نام پر صرف ایک ٹویٹ کرتی ہے تو پہلے بل کی حمایت کرنے والے سب درباری ایسا یوٹرن لیتے ہیں جیسے ہوا ہی کچھ نہیں۔ تبدیلی سرکار کو کوئی درباری سچ نہیں بتائے گا ہم ہی آگاہ کئے دیتے ہیں کہ ماضی کے سب چوروں، ڈاکوئوں، لٹیروں کو اندر کرکے جو عوام کے خون پسینے کی کمائی اکیلے ہی لوٹنے کی کوشش کی جارہی ہے ا س واردات کی کسی نہ کسی دن عوامی ایف آئی آر ضرور کٹے گی۔ حلوہ کھانے والوںکا کیا کرنا ہے، فیصلہ بھوکے ننگے عوام، بے روزگار ہوتے نوجوان اور فاقوں مرنے والوں کے لواحقین کریں گے۔ ہمارا کام تھا منادی کرنا سو ہم کرچلے، پر ساہنوں کی حلوہ پکائو موج اڑائو ہم تو چلے سرکار۔

تازہ ترین