• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دراصل مجھے آج اس ایشو پر کالم لکھنا تھا کہ ہمارے موجودہ حکمرانوں کے ہاتھوں کس طرح ملکی معیشت کو تباہ کیا جا رہا ہے؟ مگر بدھ کے ایک سندھی روزنامے میں ملکی سطح کے انتظامی فیصلے کرتے وقت چھوٹے صوبوں اور خاص طور پر دوسرے بڑے صوبے سندھ کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے ایشو پر دو تین خبروں کی اشاعت کی وجہ سے مجھے آج کا یہ کالم اس موضوع پرلکھنا پڑا کہ چھوٹے صوبے کس سے فریاد کریں۔ اس سلسلے میں مجھے جس خبر کا خاص طور پر نوٹس لینا پڑا اس کی چند اہم سرخیاں مندرجہ ذیل ہیں۔ (اے) سی ایس ایس کے امتحانات کے حوالے سے مرکزی حکومت کی جانب سے اپنے طور پر قواعد تبدیل کرکے چھوٹے صوبوں کی سیٹیں پنجاب کے حوالے کرنے کے بارے میں انکشاف۔ (بی) سندھ کیلئے وقف 115سیٹوں میں سے صرف سندھ کے 28امیدوار کامیاب ہو سکے۔ (سی) پنجاب کیلئے مخصوص 193سیٹوں کے برعکس پنجاب سے 225امیدوار کامیاب دکھائے گئے۔ (ڈی) 2013ء میں وفاقی حکومت کی منظوری کے بغیر قواعد تبدیل کئے گئے اور ڈاکومینٹس میں جعلسازی کی گئی۔ (ای) قواعد میں کی گئی ان تبدیلوں کے نتیجے میں سی ایس ایس پاس کرنے والے امیدواروں کی شرح 16فیصد سے کم ہوکر 2فیصد ہو گئی۔ (ایف) خیبر پختونخوا کی 55سیٹوں پر فقط 34، گلگت اور فاٹا کی 32سیٹوں پر صرف 11امیدوار کامیاب ہوئے اور (جی) فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے اسٹاف نے عدالتوں میں جھوٹ بولا‘‘۔ بہرحال اس خبر کے مکمل متن میں کہا گیا ہے ’’فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی طرف سے ضوابط کے برعکس اپنے طور پر قواعد کی تبدیلی چھوٹے صوبوں کی سیٹوں پر بھی پنجاب کے امیدواروں کو کامیاب کرانے کے فارمولے پر کی گئی۔

اطلاعات کے مطابق متعلقہ ڈاکومینٹس میں جعلسازی بھی کی گئی۔ ڈاکومینٹس کے مطابق اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے رولز میں تبدیلی کے لئے وفاقی کابینہ سے منظوری حاصل کرنے کی ہدایت کی تھی مگر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے متعلقہ لیٹر میں وفاقی کابینہ سے منظوری حاصل کرنے کے بارے میں جملے ہی غائب پائے گئے۔ قواعد تبدیل کرنے کے نتیجے میں سی ایس ایس پاس کرنے والے امیدواروں کی شرح 16فیصد سے کم ہوکر 2فیصد ہو گئی۔ کمیشن نے اس صورتحال کا سارا نزلہ تعلیمی معیار پر گرا دیا۔ ان دستاویزات کے مطابق چھوٹے صوبوں کی کئی سیٹیں خالی رہ گئیں۔ سندھ کے لئے وقف 115سیٹوں پہ سندھ کے صرف 28امیدوار کامیاب ہو سکے۔ بلوچستان کی 28سیٹوں پہ بلوچستان کے فقط 2امیدوار کامیاب ہوسکے۔ کے پی کی مخصوص 58سیٹوں پہ فقط 34امیدوار کامیاب ہو سکے جبکہ پنجاب کے لئے مخصوص 193سیٹوں پر پنجاب سے 225امیدوارکامیاب ہوئے۔ جب چھوٹے صوبوں سے تعلق رکھنے والے کچھ امیدواروں نے ان نتائج کو اسلام آباد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تو وہاں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے افسران نے موقف اختیار کیا کہ قواعد میں کی گئی یہ تبدیلی سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کی منظوری کے بعد کی گئی جبکہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ان قواعد میں تبدیلی کرنے کا مجاز ہی نہیں ہے۔ ان افسران نے نگران حکومت سے بھی جھوٹ بولا۔ ان ڈاکومینٹس کے مطابق آرڈنینس جاری کرنے کے لئے 2016ء اور 2017ء کے لئے منظوری لی گئی جبکہ یہ تبدیلی 2013ء سے عمل میں لائی گئی۔ ان حقائق کی روشنی میں سندھ کے کچھ ممتاز تعلیمی ماہرین اور بار ایسوسی ایشنز اس بدیانتی کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس عرصے کے دوران پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان کا ایک بیان شائع ہوا ہے جس کے مطابق انہوں نے اعلان کیاہے کہ فاٹا کو ملک کے این ایف سی ایوارڈ میں سے 3فیصد مختص کیا جائے گا۔ سندھ حکومت اور سندھ کے کئی حلقوں نے وزیراعظم کے اس اعلان پر اس لئے اعتراض کیا کہ ایسا کوئی بھی فیصلہ وزیراعظم اکیلے کیسے کر سکتے ہیں حالانکہ سندھ کے یہ حلقے اصولی طور پر فاٹا کے علاقوں کے لئے این ایف سی سے مناسب رقم جاری کرنے کے خلاف نہیں ہیں۔ سندھ کے ان حلقوں کا کہنا ہے کہ اول تو پارلیمنٹ سے اس فیصلے کی منظوری لی جائے، بعد میں یہ ایشو این ایف سی کے سامنے رکھا جائے کہ جو یہ فیصلہ کرے کہ اس تین فیصد میں وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتوں کا کتنا کتنا حصہ ہوگا۔ یہ فیصلہ نہ اکیلے وفاقی حکومت کر سکتی ہے اور نہ کوئی صوبہ اکیلے کر سکتا ہے۔

انہی دنوں سندھ کے وزیراعلیٰ کا یہ اعلان بھی شائع ہوا ہے کہ تھرکول بلاک ٹو سے بجلی کی پیداوار شروع ہو گئی ہے۔ بتایا گیا کہ اس بلاک سے پیدا ہونے والی 330میگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کر دی گئی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا گیا کہ تھرکول کے بلاک کے ایک اور یونٹ سے بھی جلد بجلی کی پیداوار شروع ہونے والی ہے۔ اس مرحلے پر وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے یہ بھی اعلان کیا کہ تھر کے کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی سے حاصل ہونے والی رائلٹی تھر کی ترقی پر خرچ کی جائے گی۔ اس مرحلے پر پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تھرکول پروجیکٹ سے بجلی پیدا ہونے پر تھر اور سندھ کے عوام کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح اب شہید بے نظیر بھٹو کا خواب عملی شکل اختیار کر چکا۔ ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ملک کے موجودہ وزیراعظم نے سندھ کے فنڈز میں سے 120ارب روپے مالیت کی کٹوتی کی ہے۔ بہرحال انہوں نے کہا کہ سندھ کے لئے اس قسم کی معاشی مشکلات پیدا کئے جانے کے باوجود حکومت سندھ اپنے منصوبے مکمل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین