• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خانس پور ٹاپ پر دنیا کا بلند ترین کرکٹ گراؤنڈ تعمیر کیا ہے

بات چیت:  ارشد عزیز ملک، سلطان صدیقی، پشاور

عکّاسی: تنزیل الرّحمٰن  

خیبرپختون خوا کے ہزارہ ڈویژن میں واقع ضلع ایبٹ آباد کے علاقے’’ گلیات‘‘، قدرتی حُسن سے بھرپور،سر سبز و شاداب جنگلات اور برف پوش پہاڑوں پر مشتمل ہیں۔ جہاں ہر سال 20 لاکھ سے زاید ملکی و غیر ملکی سیّاح گھومنے پھرنےاور پُرکیف و پُرکشش قدرتی مناظر کا لطف اٹھانے آتے ہیں ۔قیام کے دَوران سیّاح، ان علاقوں میں تقریباً آٹھ سے دس ارب روپے تک خرچ کر کے جاتے ہیں ،جس کی وجہ سے علاقے کے لوگوں کا روزگار چل رہاہے ۔گلیات درحقیقت ایک ایسا خطّہ یا پہاڑی گلیاں ہیں، جو ایک تنگ پٹّی یا علاقے کی شکل کا انتہائی خُوب صُورت مقام ہے۔یہ فلک بوس ، پہاڑوں کے درمیان واقع مختلف علاقوں پر مشتمل ہے، جن میں چھانگلہ گلی ، گھوڑا گلی ، نتھیا گلی ، باڑہ گلی ،بیرن گلی ، نملی میرہ ہرنو ،ٹھنڈیانی ، چھرہ پانی ، ڈونگا گلی ، خیرہ گلی ، خانس پور ، ایوبیہ ، جھیکا گلی ، بھوربن اور مَری شامل ہیں۔ تاہم، انتظامی تقسیم میں مَری ، بھوربن اور جھیکا گلی کے علاقے صوبۂ پنجاب کا حصّہ بنے اور باقی علاقے خیبر پختون خوا کاحصّہ قرار پائے۔

خانس پور ٹاپ پر دنیا کا بلند ترین کرکٹ گراؤنڈ تعمیر کیا ہے
نمایندگانِ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

1961ء میں حکومتِ مغربی پاکستان کی جانب سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیاتھا، جس کےتحت ان علاقوں کی ترقّی و دیکھ بھال کے لیے ایک ، ’’ہزارہ ہِل ٹریکٹ امپرومنٹ ٹرسٹ‘‘(Hazara hill tract improvement trust) کا قیام عمل میں لایا گیا۔بعدازاں، 1996ء میں صوبائی حکومت نے گلیات کی ترقّی کے لیے ایک ایکٹ منظور کیا، جس کے تحت8 جون 1999ءکو ’’گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی(جی ڈی اے)‘‘ کا قیام عمل میں آیا ۔ یہ ادارہ گلیات کی تزئین و آرایش، مرمّت اور دیگر ترقّیاتی امورانجام دینے کا پابند ہے۔گزشتہ دنوں ہم نے گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) کے نوجوان ڈائریکٹر جنرل، رضا علی حبیب سے ملاقات کی ۔ان کاتعلق کرّم ایجینسی کے علاقے پارہ چنار سے ہے ۔ ابتدائی تعلیم یونی وَرسٹی پبلک اسکول، پشاور سے حاصل کی، بعد ازاں اُن کاداخلہ ایڈوَرڈ اسکول پشاور میں ہو گیا، جہاں سے میٹرک اور ایڈورڈز کالج، پشاور سے انٹر کیا۔2005ءمیں یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، پشاور سے انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد نیشنل یونی وَر سٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں داخلہ لیااور انجینئرنگ مینجمنٹ کی سند حاصل کی۔رضا حبیب 2007ءمیں سینٹرل سُپیریئر سروسز(سی ایس ایس) کا امتحان پاس کرنے کے بعد ریلوے اور پھر سیکریٹیریٹ گروپ میں شامل ہوئے ۔اُن کی پہلی تقرّری بہ طورڈپٹی سیکرٹری فنانس، شعبۂ پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ (پی اینڈ ڈی) میں ہوئی۔ وہ اکنامک افیئرز ڈویژن ، پورٹ قاسم ،کراچی میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں ۔رضا علی حبیب کے والد 2011ء میں سیکرٹری کمیونیکیشن اینڈ وَرک (سی اینڈ ڈبلیو) کی حیثیت سے ریٹائرہوئے ۔سی اینڈ ڈبلیو کی نئی تعمیر شدہ عمارت میںان کے نام سے ایک ہا ل بھی منسوب ہے ۔رضا علی حبیب سے ہونے والی گفتگو نذرِ قارئین ہے۔

رضا علی حبیب نےجی ڈی اے کےتحت آنے والے علاقوں ، ٹاؤنز اور جی ڈی اے کی ذمّے داریوںکے حوالے سے بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ’’ ایک ایکٹ کے تحت چھے ٹائونز اور پندرہ ہزارایکڑ اراضی پر پھیلا ہواریزرو فاریسٹ کا علاقہ ، خانس پور،( جوپہلے آرمی کاعلاقہ تھا، 1970 ءمیں ہزارہ ٹرسٹ کے حوالے کیا گیا ) ایوبیہ ، خیرا گلی،ڈونگا گلی، چھانگلہ گلی، باڑہ گلی ، نتھیا گلی اور ٹھنڈیانی وغیرہ جی ڈی اے کے علاقے ہیں۔البتہ ،کالا باغ اور فرنٹیئر فورس(ایف ایف) سینٹرز پاک آرمی کی جگہیں ہیں ۔ گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے)لیز، کرایوں ،چیئرلفٹس، ریسٹ ہائوسز، واٹر ٹیکس اور صفائی ٹیکس وغیرہ سے ہونے والی آمدنی سےاپنےفنڈز خود جنریٹ کرتی ہے۔ ہمارےمحصولات 25سے 30کروڑ روپےتک ہیں،جن میں سے تقریباً دس کروڑتَن خواہوںاور پینشنز وغیرہ میں خرچ ہو جاتے ہیں، جب کہ باقی فنڈز کو مختلف ترقّیاتی اسکیمز میں لگادیا جاتا ہے۔علاقے میں سیّاحوں کی آمد کے حوالے سے ان کاکہنا تھا کہ ’’ورلڈ بینک کی ایک حالیہ اسٹڈی کے مطابق ،گلیات میں سیرو سیّاحت پر آنے والوں کی سالانہ تعداد پندرہ سے بیس لاکھ تک ہے۔یہ افرادسیرو تفریح کے دَوران آٹھ سے بارہ ارب روپے تک خرچ کردیتے ہیں۔جی ڈی اے کے قائم کردہ، ٹریفک کا ئونٹنگ سسٹم کے تحت جو اعداد و شمارجمع کیے گئے ہیں،اُن کے مطابق سال 2019ء کے ابتدائی دو ماہ ( جنوری اور فروری) کے دَوران ڈھائی لاکھ افراد یہاں کا رُخ کر چکےہیں ۔ جی ڈی اےکےبورڈ آف ممبرز کے بارے میں بتاتے ہوئے ڈی جی نےکہا کہ پہلےبورڈ سرکاری ملازمین پر مشتمل ہوتا تھا، جس کےسربراہ وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا تھے۔تاہم،2016ء میں صوبائی حکومت کی جانب سے ایکٹ میں ترمیم کی گئی اوراب بورڈ کے ارکان ،سات پرائیویٹ سیکٹرز او ر چار پبلک سیکٹر زپر مشتمل ہوتے ہیں، جب کہ چیئرمَین بھی پرائیویٹ سیکٹرہی سے ہوتا ہے۔ اس وقت جی ڈی اے کےسربراہ، احسان مانی ہیں۔ حکومت نے مختلف محکموں کے اٹھارہ ریسٹ ہائوسز،جی ڈی اے کے حوالے کیے، جن میں سےگیارہ فنکشنل اور سات نان فنکشنل تھے۔ ان سے اتھارٹی کو سالانہ ایک کروڑ 52لاکھ روپے کی آمدنی ہوتی تھی، آمدنی میںسے تقریباً ساٹھ لاکھ روپےسالانہ متعلقہ ملازمین کی تن خواہوں وغیرہ پر خرچ ہوجاتے تھے ، مگر اب ہم اِن ریسٹ ہائوسزکو ٹھیکے (آئوٹ سورس)پر دے رہے ہیں ۔ چار کی نیلامی ہوچکی ہے، باقی کا عمل جاری ہے۔ صرف چارریسٹ ہاؤسز کی نیلامی سے اتھارٹی کو 72لاکھ روپے کی آمدنی ہوئی ہے، اس ضمن میں مزید دوکروڑ روپے تک کی آمدنی متوقع ہے،مگر پرائیویٹ سیکٹرزکو پراپرٹی ٹرانسفر نہیں کی جائےگی ۔ہر سال سالانہ5 فی صد اضافے کے ساتھ بولیاں(بِڈنگ) لگیںگی۔‘‘

رضا علی حبیب نے ترقیاتی کاموں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہاکہ’’ تمام ٹاؤنز(چھے) میں دو اورچار کمروں کے سائٹ آفسز بنائے جائیں گے،جب کہ مَیگا پراجیکٹ کے طور پر شنگریلا میں22کنال اراضی پر 70،75 کمروں کا ایک ’’فوراسٹار‘‘ ہوٹل بھی تعمیر کیا جائے گا، کیوں کہ اس وقت پورے گلیات میں کوئی فورا سٹار ہوٹل نہیں ہے ۔ جب یہ منصوبہ مکمّل ہو گا، تواس سے کرائے کی مَد میں سالانہ کم ازکم ایک کروڑ روپے کی آمدنی ہوگی اور روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوںگے، جن میںسےپچاس فی صدملازمتیں مقامی افراد کو دی جائیںگی۔اسی طرح ایک اور بڑا پراجیکٹ ایوبیہ چیئر لفٹ کا ہے ۔ویسے تویہ پراجیکٹ 1964ء کا ہے ، مگر بد قسمتی سےپاکستان میں چیئرلفٹ کاکوئی ایکسپرٹ نہیں ہے، اس لیے ہم نے پاک فضائیہ کے توسّط سے آسٹریا کے ایک ایکسپرٹ سے بات کی ہے ۔اس کام کے لیےنیشنل انجینئرنگ سروسز پاکستان(نیس پاک) نے 2 کروڑ 60لاکھ روپے مانگے تھے ،جب کہ آسٹریا کےمتعلقہ ماہرکے(جو شوقیہ کام کرتا اوردنیا میں کئی جگہ یہ کام کرچکا ہے،) قیام، طعام اور ایئر ٹکٹ پر ہمارے صرف دس لاکھ 75 ہزار خرچ ہوں گے۔ چیئر لفٹ پراجیکٹ کے حوالے سے ایک آپشن تویہ ہے کہ وزیرِاعظم پاکستان اور وزیرِاعلیٰ خیبرپختون خواکو اس حوالے سے بریفنگ دی جائے اور حکومت اس کی فنڈنگ کرے ، جب کہ دوسرا راستہ پرائیویٹ سیکٹر سے فنڈنگ کروانے کا ہے۔یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ چیئر لفٹ کی متعلقہ مشینری اور آلات بھی آسٹریا ہی سے لائے جائیں گے ۔اگر پراجیکٹ پرپرائیویٹ سیکٹر کام کرے گا، تب بھی وہی مشینری اورسامان لایا جائے گا، جو ہم پسند کریںگے۔ چیئر لفٹس ،کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے تحت ہوں گی اور ان سے سالانہ پندرہ کروڑ روپے تک کی آمدنی متوقع ہےنیز،چیئر لفٹس کے ساتھ ہی بلندی پر ایک پارک بھی بنایا جائے گا۔‘‘ بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئےاُنہوں نے کہاکہ’’ پانچ ماہ کی مسلسل کوششوں کے نتیجے میں صوبائی حکومت نے واٹر سپلائی اسکیم کے پلاننگ کمیشن (پی سی )وَن کی منظوری دے دی ہے۔ یہ سوملین روپے کا منصوبہ ہے، جس کے لیے ٹینڈر کا عمل عن قریب مکمل کر لیا جائے گا۔پھر ہم نے مختلف موبائل کمپنیوں سے با ت کی ہے، جن کے تعاون سے اگلے ماہ اپریل2019ءمیں پورے گلیات میں فِری وائی فائی سروس بھی شروع کر دی جائے گی۔ گلیات گائیڈ مَیپ بھی تیار کر لیا ہے،جیسے ہی فِری وائی فائی سروس کا آغاز ہو گا ، توگائیڈ میپ اور گلیات ایپ بھی لانچ کر دی جائے گی۔اس طرح گلیات آنے والے سیّاحوں کو راستوں کے حوالے سے رہنمائی حاصل ہو گی۔کوئی بھی فرد اسمارٹ فون سے گلیات میپ کے کسی بھی پوائنٹ پر کلک کرے گا ،تو جگہ سے متعلق تمام تفصیلات سامنے آ جائیں گی۔ ہم نےخانس پور ٹاپ پر دنیا کا بلند ترین کرکٹ گرائونڈ تعمیرکیا ہے، جہاںرواں سال جولائی میں ایک میچ کا انعقاد کیا جائے گا۔ خانس پور سطح ِسمند ر سے7,600فیٹ کی بلندی پر واقع ہےاور ہمیں امّید ہےیہ کرکٹ گرائونڈکھیلوں اور سیاحت کے فروغ میں بڑے کردار کا حامل بنے گا۔‘‘

رضا علی حبیب کا مزیدکہنا تھا کہ ’’گلیات میں لبِ سڑک یا سڑکوں کےقریب مختلف علاقوں میں57کیبنز تعمیرکرنے کی منظوری دی جا چکی ہے، جن کا ڈیزائن کراچی کے ایک رہائشی نے مفت فراہم کیا ۔ کیبنز کی خاص بات یہ ہوگی کہ انہیں برف باری میںا سکوٹر یا موٹر سائیکل کے ساتھ لگا کر نیچے ،ایبٹ آباد تک لایا جا سکے گا اور عام موسم میں مقررہ مقامات پر واپس لے جا کر ان میں دُکانیں قائم کی جا سکیں گی۔ اسی طرح رہائشی مقاصد کے لیے ہَٹس کے قیام کے آزمائشی منصوبے(پائلٹ پراجیکٹ )کی منظوری دی جا چکی ہے اور مختلف علاقوں میں پچاس گھروں کی نشان دہی بھی ہو چکی ہے، جن کے ساتھ کچن ،دو، دو کمروںاور گارڈن پر مشتمل ہٹس تعمیر کیے جائیں گے۔ بارہ مختلف مقامات پر بیت الخلاءتیار کر کے آپریشنل کردیئے گئے ہیں ، جب کہ مزید دس مختلف مقامات پر بیت الخلاء تیاری کے مراحل میں ہیں۔ علاقے کی تعمیر و ترقّی اور سیّاحت میںاضافےکے لیے ہم لوکل کلچر ل ٹورازم کو فروغ دینے کی کوشش اور منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔گلیات کی ترقّی کے لیے تجاوزات (انکروچمینٹس )کو ریگولرائز یا لیگل کیا جا رہا ہے، ٹریفک کائونٹنگ سسٹم شروع کر دیاگیا ہے، پلاسٹک بیگز کے خاتمے کے لیے پیپر بیگز متعارف کروا رہے ہیں، جو گلیات کے دونوں داخلی راستوں پر لوگوں کودے کر اُن سے دو ، دوسو روپے وصول کریںگے ۔ واپسی پر لوگ بیگ واپس کرکے اپنے پیسے لیں گے ،جوبیگ واپس نہیں کرے گا، اس کے پیسے ضبط کرلیے جائیں گے۔ان کااس حوالے سےمزیدکہنا تھا کہ ہم نے گلیات کی تزئین و آرایش کے سلسلے میں نتھیا گلی سمیت پانچ بازاروں کی فیس لفٹنگ کی ،چار ریسٹ ایریاز(آرام کی جگہیں) قائم کیے اور30 اور29کلو میٹر کی دو طویل سڑکیں بھی تعمیر کروائی ہیں۔’’اگر جی ڈی اے کا کوئی اہل کار کرپشن یا کسی غیر قانونی کام میں ملوّث پایا جائے، تو کیا کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں رضا علی حبیب کا کہنا تھا کہ ’’1995 ء سے2005ءکے دَوران97پلاٹس کی غیر قانونی الاٹمنٹ پر ایک اہل کار کو جبری ریٹائراور دو کو بر طرف کیا گیا ، جب کہ ترقّیاتی کاموں میں غیر معیاری کام کرنے پر ایک تعمیراتی کمپنی کے خلاف تادیبی کارروائی بھی عمل میں لائی گئی۔‘‘ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نےبتایاکہ ’’اس سال علاقے میں ریکارڈ برف باری ہوئی ہے۔ اس برس برف باری کے 12دَور چلےاور مجموعی طور پر38دن برف باری ہوئی، جس کے نتیجے میں17فیٹ برف ریکارڈ کی گئی۔ تاحال (6مارچ2019ءتک)چھے سے سات فیٹ تک برف پڑی ہوئی ہے۔ڈی جی ،جی ڈی اے،رضا علی حبیب نے بتایا کہ ’’ملکۂ کوہ سار، مَری کے مقابلے میں گلیات کی کم ترین بلندی پر واقع خیرہ گلی، سطح سمند ر سے6,800فیٹ کی بلندی پر ہے، جب کہ مَری6,600فیٹ ہے۔ اسی طرح چھانگلہ گلی9,800فیٹ، نتھیا اورڈونگا گلی8,200فیٹ، ایّوبیہ نیشنل پارک7,000فیٹ اور ٹھنڈ یانی9,000فیٹ کی بلندی پر واقع ہے۔‘‘

سیاحت ،بالخصوص پہاڑی علاقوں کی سیر کے شوقین افراد کے لیے پیغام دیتے ہوئے رضا علی حبیب نے کہا کہ ’’گلیات ہوں یا گلیات کی طرح دیگرپُرفضا پہاڑی علاقے جیسے کاغان، چترال، سوات، دیر، کمراٹ، کوہستان یا گلگت بلتستان وغیرہ ۔ وہاں جانے سے قبل سردیوں میں تو گرم کپڑوں وغیرہ کا خصوصی اہتمام کرکے جانا ہی چاہیے، لیکن موسمِ گرما میں بھی وہاں گرم کپڑے،کوٹ، چادریں اور بُوٹ وغیرہ ساتھ ضرورلے کر جائیں۔ سفر کے لیے فور بائی فور گاڑی ، برف میں پہیّوں کے گرد لپیٹنے کے لیے آہنی چین ،پہیے درست اور اچھی حالت میںاور گاڑی میں فیول پورا ہو نا چاہیے، جب کہ صبح سویرے اور رات گئے سفر کرنے سے اجتناب برتیں۔‘‘ہِلی ٹریکس کا ذکر کرتے ہوئے اُنہوں نے بتایا کہ’’ ٹھنڈیانی سے نتھیا گلی ٹریک، ڈونگا گلی پائپ لائن ٹریک ،میران جانی ٹاپ ٹریک تک ، مشک پوری ٹریک اور ایوبیہ نیشنل پارک ٹریک ،گلیات کے مشہور ٹریکس ہیں۔ اگر آسمان صاف ہوتومشک پوری ٹاپ سے صبح کے اوقات میں نانگاپربت دکھائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی گلیات میں کئی تاریخی مقامات جیسے انگریز دَور کے بنے کاٹیجز، زمانۂ قدیم کی سُرنگیں، قبریں اور ٹریکس وغیرہ ہیں، جو ابھی تک سیّاحوں کی نظروں سے اوجھل ہیںاورہماری پوری کوشش ہے کہ ان مقامات تک سیّاحوں کی رسائی ممکن بنائی جائے۔‘‘

تازہ ترین