• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سانحہ کرائسٹ چرچ
جیسنڈا آرڈرن ایک متاثرہ خاتون کوگلے لگا کردلاسا دے رہی ہیں، دوسری تصویر میں جائے وقوع کے دورے کے موقعے پر غم و اندوہ میں ڈوبی ہوئی ہیں

نیوزی لینڈ کے شہر، کرائسٹ چرچ میں ہونے والی دہشت گردی کے انسانیت سوز واقعے نے نہ صرف اس دُور دراز واقع پُر امن مُلک کو ہِلا کر رکھ دیا، بلکہ پوری دُنیا کو ایک مرتبہ پھر شدّت پسندی، نسل پرستی اور تعصّب کے خوف میں مبتلا کر دیا۔ آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے سفید فام دہشت گرد، برینٹن ٹیرنٹ نے 50 نمازیوں کو فائرنگ کر کے شہید کر دیا، جن میں پاکستان، بنگلا دیش، تُرکی اور شام سمیت دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان شامل تھے۔ اس دِل دوز واقعے کی دُنیا بَھر نے مذمّت کی اور اس کا سبب ’’اسلامو فوبیا‘‘ یا اسلام کے پیروکاروں سے نفرت کو قرار دیا۔ تاہم، اس موقعے پر نیوزی لینڈ کی حکومت بالخصوص کیوی وزیرِ اعظم، جیسنڈا آرڈرن نے جس تدبّر، معاملہ فہمی اور انسان دوستی کا مظاہرہ کیا، اُس کی جتنی بھی تعریف کی جائے ،کم ہے۔ اس دوران اُن کی وہ تصویر کافی مشہور ہوئی، جس میں وہ سیاہ شلوار قمیص پہنے ، دوپٹا اوڑھے پاکستانی شہدا کے لواحقین سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ رہی ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی خاتون وزیرِ اعظم کے یہ جملے بھی خاصے مقبول ہوئے کہ’’شہید ہونے والے افراد ہمارے ہیں اور قاتل ہم میں سے نہیں۔‘‘ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جیسنڈا نے ’’بزدلانہ کارروائیاں ہمیں خوف زدہ نہیں کر سکتیں‘‘ جیسے روایتی کلمات ادا کرنے کی بہ جائے شہداء کے لواحقین کے غم میں شریک ہو کر نیوزی لینڈ کی مسلمان برادری کے ساتھ عملاً یک جہتی کا مظاہرہ کیا۔ اسی طرح انہوں نے پارلیمنٹ سے اپنے خطاب کا آغاز ’’السّلامُ علیکم‘‘ سے کیا۔ علاوہ ازیں، انہوں نے قتلِ عام کی ہول ناک ویڈیو سوشل میڈیا پہ دکھانے پر بھی شدید تنقید کی اور کیوی وزیرِ اعظم کی ان تمام انسان دوست صفات نے انہیں دُنیا بَھر کے حُکم رانوں کے لیے مثال بنا دیا۔ اسی طرح نعیم راشد نامی پاکستانی باشندے نے دوسرے نمازیوں کی جان بچانے کی خاطر گولیوں کی بوچھاڑ کے سامنے ڈھال بن کر پوری قوم کا سَرفخر سے بلند کردیا۔ 15مارچ کو کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں ہونے والی دہشت گردی کی گونج آج بھی ساری دُنیا میں سُنائی دے رہی ہے اوراس کے اثرات شاید تادیرباقی رہیں۔ نیوزی لینڈ جیسے پُرامن مُلک میں رُونما ہونے والے اس انسانیت سوز واقعے کا کُھلے دل و دماغ اور سائنسی انداز سے تجزیہ کرنا اشد ضروری ہے، وگرنہ مستقبل میں بھی اس قسم کے واقعات پیش آ سکتے ہیں۔ اب تمام مذاہب اور ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کو یہ جان لینا چاہیے کہ انٹرنیٹ نے پوری دُنیا کو ایک گلوبل ویلیج بنا دیا ہے اور انہیں ایک دوسرے سے رواداری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ سانحۂ کرائسٹ چرچ کے بعد نیوزی لینڈ کے باشندوں نے رنگ، نسل اور مذہب کے امتیازات سے بلند ہو کر اپنے دِلوں اور عبادت گاہوں کے دروازے مسلمانوں کے لیے کھول دیے اور اسی طریقے سے شدّت پسندی کے خلاف جنگ جیتی جا سکتی ہے۔

سانحہ کرائسٹ چرچ
النورمسجد، جہاں دہشت گرد نے خون کی ہولی کھیلی

کرائسٹ چرچ میں مسلمانوں کے قتلِ عام پر عام افراد تو یقیناً حیرت میں مبتلا ہیں، لیکن گزشتہ کئی برسوں سے مشرقِ وسطیٰ اور مغربی ایشیا کی صورتِ حال پر گہری نظر رکھنے والےماہرین کو اس واقعے کے اسباب سمجھنے میں زیادہ دقّت نہیں ہو گی۔ اس ضمن میں مزید تفصیل میں جانے سے قبل ہم نیوزی لینڈ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ نیوزی لینڈ، بحرالکاہل کا سب سے دُورد راز جزیرہ ہے اور یہ آسٹریلیا سے بھی 2ہزار میل کی دُوری پر ہے۔ دُنیا کے ایک کونے پر واقع، نیوزی لینڈ کا شمار اُن خطّوں میں ہوتا ہے ، جو سب سے آخر میں انسانوں کا مسکن بنے۔ اس مُلک کی آبادی 50لاکھ سے بھی کم ہے اور اس کے قدیم باشندوں کو ’’مائوری‘‘ کہا جاتا ہے، جنہوں نے تیرہویں صدی میں جنوبی امریکا کے جزائر سے یہاں نقل مکانی کی۔ نیوزی لینڈ کو 1620ء میں ایک ولندیزی جہاز راں، ایبل تسمان نے دریافت کیا تھا اور اس مُلک کا سمندر بھی ڈچ جہاز راں کے نام سے موسوم ہے۔نیوزی لینڈ کو اُس دَور میں دریافت کیا گیا تھا کہ جب یورپی بالخصوص اسپین، پُرتگال اور ڈنمارک کے جہاز راں، ہسپانیہ کے جہاز رانی کے علوم سے استفادہ کر کے نئے خطّوں کی کھوج لگانے کی مُہم پر روانہ ہوئے تھے۔ ان میں کولمبس اور واسکو ڈے گاما جیسے کھوجی بھی شامل ہیں، جنہوں نے بالتّرتیب امریکا اور ہندوستان کو دریافت کیا۔ بہر کیف، نیوزی لینڈ کی دریافت کے بعد یہاں بڑی تعداد میں مشرقی یورپ کے باشندے آکر آباد ہوئے، جن میں عیسائیوں کی اکثریت تھی۔ وہ اپنے ساتھ جدید علوم اور ثقافت بھی لے کر آئے۔ بعد ازاں، اُس وقت کی عالمی طاقت، برطانیہ عظمیٰ نے نیوزی لینڈ کو اپنی نو آبادی بنا لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی برطانیہ کی کوئن ایلزبیتھ نیوزی لینڈ کی ملکہ ہیں اور انگریزی اس کی سرکاری اور رابطے کی زبان ہے۔ نیوزی لینڈ ہر اعتبار سے ایک ترقّی یافتہ مُلک ہے۔ وہاں کے باشندے نرم مزاج ہیں اور مُلک میں امن و امان کی صورتِ حال مثالی ہے۔ کرائسٹ چرچ میں دہشت گرد، برینٹن ٹیرنٹ نے جس سفّاکیت، قساوت اور درندگی کا مظاہرہ کیا، وہ اس کی بیمار ذہنیت، اذیّت پسندی اور مسلمانوں سے نفرت کا اظہارتھا۔ برینٹن خود کو اُس نازی ازم کا حامی بتاتا ہے، جو سفید فاموں کی برتری پر یقین رکھتا ہے۔ مختلف ذرایع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق، مذکورہ دہشت گرد نے گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان، تُرکی اور فرانس کے علاوہ کئی اسلامی اور یورپی ممالک کی سیر کی تھی۔

سانحہ کرائسٹ چرچ
گولیوں کی بوچھاڑ کے سامنے ڈھال بننے والے پاکستانی ہیرو، نعیم راشد

آج پوری دُنیا ہی شدّت پسندی کے عفریت سے نبردآزما ہے اور شاید ہی دُنیا کا کوئی مُلک اس سے محفوظ رہا ہو۔ شدّت پسندی کی وجہ سے اسلامی دُنیا لہو لہان ہے، تو مغربی ممالک، رُوس اور چین تشویش کا شکار ۔ گرچہ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ وقتاً فوقتاً مختلف صُورتوں میں سامنے آتی رہی، لیکن نائن الیون کے بعد اس نے باقاعدہ پنجے گاڑنا شروع کیے۔ تمام شدّت پسند اپنے اپنے نظریات کے ذریعے اپنی انتہا پسندی کو جواز فراہم کرنے اور اپنے ہم خیال افراد کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم، اب دُنیا کسی بھی بہانے سے کیا جانے والا معصوم شہریوں کا قتلِ عام قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ یاد رہے کہ مذہب اور تاریخ انسانیت کو اچّھائی کا درس دیتے ہیں، لیکن شدّت پسند انہیں جذبات بھڑکانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ بھی پیشِ نظر رہے کہ ماضی میں ہر قوم ہی سے غلطیاں ہوئیں، لیکن جن اقوام نے ان سے سبق حاصل کیا، وہ ظفرمند ہوئیں اور جو اپنی غلطیوں پر ڈٹی رہیں، وہ صفحۂ ہستی سے مِٹ گئیں۔

سانحہ کرائسٹ چرچ
نیوزی لینڈ کے شہری، شہید نمازیوں کو خراجِ عقیدت پیش کررہے ہیں

حوصلہ افزاء پیش رفت یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی بہ دولت اس وقت تعلیم، صحت، ٹیکنالوجی، سماجیات، سیاسیات اور ماحولیات سمیت زندگی کے دیگر شعبوں میں جو عالمی تعاون قائم ہے، اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ تاہم، مسئلہ یہ ہے کہ اسی انٹرنیٹ ہی کو بعض افراد یا گروہوں نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ ان عناصر نے انٹرنیٹ کی مدد سے نفرت انگیز مواد گھر گھر پہنچا دیا، حالاں کہ اسے اتحاد و روا داری کا ذریعہ بنانا چاہیے تھا۔ پاکستان میں شر پسند عناصر نے جس طرح اختلافات کو ہوا دے کر فسادات میں تبدیل کیا، وہ کسی سے ڈھکا چُھپا نہیں۔ اس موقعے پر سوشل میڈیا نے منفی پروپیگنڈے کو پھیلانے میں مدد فراہم کی اور تربیت اور منفی پروپیگنڈے کے عواقب و نتائج سے نا بلد افراد ایسے ایسے غیر ذمّے دارانہ تجربات کرنے لگے کہ جو خود ان کے لیے وبالِ جان بن چُکے ہیں۔ مجرمانہ ذہنیت کے مالک افراد نے انہیں خُوں ریزی اور دہشت گردی کے لیے استعمال کیا۔ گرچہ سوشل میڈیا کی بہ دولت عرب ممالک میں شروع ہونے والی انقلابی تحریک، ’’عرب اسپرنگ‘‘ کو ابتدا میں تبدیلی کا محرّک قرار دیا گیا، لیکن بعد میں پتا چلا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے وجود میں آنے والے انقلابات مرکزی قیادت نہ ہونے کی وجہ سے بہتری پر منتج نہیں ہوتے اور عوام ان سے جلد ہی مایوس ہو کر دوبارہ پُرانے نظام کو گلے لگا لیتے ہیں۔ مصر سے لے کر یمن اور یمن سے لے کر مراکش تک یہی کہانی دُہرائی گئی۔ لہٰذا، نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم کا یہ کہنا دُرست ہے کہ ’’ہمیں بے لگام سوشل میڈیا قبول نہیں۔‘‘

مشرقِ وسطیٰ میں گزشتہ 40برس سے جاری افراتفری اب پوری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چُکی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران یہ بدنظمی الائو کی شکل اختیار کر چُکی ہے۔ عرب اسپرنگ کی ناکامی کی صُورت میں شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی۔ پہلے اس نے پورے خطّے کو متاثر کیا اور پھر ساری دُنیا اس میں شامل ہو گئی۔ افغانستان میں القاعدہ کا خاتمہ ہوا نہ تھا کہ شام، عراق اور پھر پوری دُنیا میں داعش تشدّد کی علامت بن کر سامنے آئی۔ بد قسمتی سے تمام شدّت پسند تنظیمیں اسلامی ممالک ہی میں جنم لیتی رہیں اور اس میں بِلاشُبہ عالمی طاقتوں کا بھی کردار رہا۔ گرچہ ان تنظیموں نے غیر مسلم ممالک میں بھی دہشت گردی کی کارروائیاں کیں، جن کی اسلامی دُنیا نے شدید مذمّت کی، لیکن انہوں نے سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں اور عالمِ اسلام ہی کو پہنچایا اور آج بھی انہوں نے مسلمانوں کی تمام صلاحیتوں کو مفلوج کر رکھا ہے۔ خیال رہے کہ جس روز دُنیا بَھر کے میڈیا میں کرائسٹ چرچ میں 50سے زاید افراد کی موت کا ذکر عام تھا، اُسی روز اقوامِ متّحدہ کی وہ پریس ریلیز بھی سامنے آئی، جس میں یہ بتایا گیا کہ گزشتہ 8برسوں میں شام میں3لاکھ 71ہزار افراد شہید ہوئے، جن میں 21ہزار سے زاید خواتین اور بچّے شامل ہیں، جب کہ غیر سرکاری تنظیمیں شام میں شہید ہونے والے افراد کی تعداد5لاکھ سے زاید بتاتی ہیں۔ نیز، ایک کروڑ 20لاکھ سے زاید شامی باشندے بے گھر ہو چُکے ہیں۔ یاد رہے کہ شامی صدر، بشار الاسد کی افواج اور شامی اپوزیشن کے درمیان جاری خانہ جنگی میں کیمیائی ہتھیار بھی استعمال ہوئے اور رُوس یہاں گزشتہ 3برس سے بم باری کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ ایرانی افواج بھی شامی صدر کی معاونت کر رہی ہیں، جب کہ عرب ممالک اور تُرکی شامی اپوزیشن کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اسی خانہ جنگی ہی نے داعش کو جنم دیا اور پھر امریکا، یورپ اور رُوس سمیت دیگر ممالک داعش کے خلاف کارروائی کی آڑ میں اس جنگ میں شامل ہو گئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ لاکھوں شامی شہری لقمۂ اجل بن گئے، لیکن داعش کا وجودتاحال باقی ہے۔

اسی دوران شامی خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے ’’جنیوا ون اور جنیوا ٹو‘‘ کے نام سے مذاکرات ہوئے، جو ناکام ثابت ہوئے۔ اقوامِ متّحدہ کا متفقہ امن روڈ میپ بھی رائیگاں گیا اور رُوس میں ہونے والے مذاکرات بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے۔ یعنی کوئی بھی مُلک شامی حکومت اور اپوزیشن کو خانہ جنگی کے خاتمے پر آمادہ نہیں کر سکا۔ اسی طرح عرب، ایران تنازع بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اس خانہ جنگی میں مَرنے اور در بہ در ہونے والے شامی باشندے مسلمان ہیں اور شامی مہاجرین آج بھی پناہ کی تلاش میں مارے مارے پِھر رہے ہیں۔یہ تارکینِ وطن یورپ کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن چُکے ہیں اور انہیں ہر طرف سے مزاحمت کا سامنا ہے۔ شامی مہاجرین سے نفرت کے سامنے جرمن چانسلر، اینگلا مِرکل جیسی طاقت وَر اور مقبول لیڈر ڈھے گئیں۔اسی طرح فرانس، اٹلی اور بیلجیم سمیت دوسرے یورپی ممالک کے لیے بھی تارکینِ وطن ناقابلِ قبول ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اسلامی ممالک نے اس مسئلے کا حل تلاش نہیں کیا اور مجرمانہ خاموشی اختیار کی۔ نیز، عالمی طاقتوں نے بھی شامی خانہ جنگی کو اپنے مفادات کے لیے طول دیا، تارکینِ وطن کے مسئلے سے مجرمانہ غفلت برتی اور اب وہ بھی اس کاخمیازہ بھُگت رہے ہیں۔

سانحہ کرائسٹ چرچ
حملہ آور ، برینٹن ٹیرنٹ اور حملے میںستعمال ہونے والی بندوق،جس پر سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف لڑنے والے یورپی جنگ جوؤں کے نام درج ہیں

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بڑھتی ہوئی نفرت کا خاتمہ کیسے ممکن ہے، جو وقتاً فوقتاً سانحۂ کرائسٹ چرچ جیسے اندوہ ناک واقعات کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ مغربی میڈیا اور اہلِ دانش کے ایک حصّے نے اسلامی دُنیا میں جنم لینے والی شدّت پسند تنظیموں کو مذہب کے نام پر بحث مباحثے کا موضوع اور عام مسلمانوں اور اسلام کو ہدفِ تنقید بنایا۔ مسلمانوں کو دہشت کی علامت کے طور پر پیش کیا اور غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں پر پابندیاں عاید کی گئیں اور یہ تمام عوامل ہی ان اذیّت ناک واقعات کا سبب بن رہے ہیں۔ تاہم، ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مسلمانوں کی اکثریت نے ہمیشہ شدّت پسند تحاریک کی مخالفت کی ہے اور وہ یہ بات اچّھی طرح جانتی ہے کہ یہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کی جنگ نہیں اور نہ ہی مذاہب یا تہذیبوں کے درمیان تصادم ہے، بلکہ انسانیت کی شدّت پسندی کے خلاف مشترکہ جنگ ہے اور اس میں ہتھیاروں سے زیادہ عقل و دانش کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ اگر شدّت پسندوں کو یہ یقین ہو جائے کہ اُن کی کسی بھی معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں، تو وہ خود ہی معدوم ہوتے چلے جائیں گے۔ البتہ اگر کوئی شدّت پسند کسی مذہب یا نظریے کے نام پر بے گناہ انسانوں کا خُون بہائے، تو سب کو مل کر اس کے خلاف آواز اُٹھانی چاہیے اور شدّت پسندوں کی قوم، مذہب اور نسل کے نام پرحمایت نہیں کی جانی چاہیے، لیکن یہ کہنا جتنا آسان ہے، اس پر عمل درآمد اتنا ہی مشکل ، کیوں کہ اس راستے میں تعصّبات رُکاوٹیں کھڑی کر دیتے ہیں۔ سو، نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم، جیسنڈا آرڈرن کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ’’ روایتی ذرایع ابلاغ اور سوشل میڈیا ایسے انسانیت سوز واقعات کی تشہیر کر کے بہت بڑی غلطی کرتے ہیں۔ ‘‘اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’’ حملہ آور دہشت گردی سے کئی مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا، جن میں شُہرت بھی شامل تھی۔ اس لیے آپ کبھی میرے منہ سے اُس کا نام نہیں سُنیں گے۔ وہ ایک دہشت گرد، ایک مجرم اور ایک انتہا پسند ہے۔ وہ ہمیشہ بے نام رہے گا۔‘‘ اس بات سے مفر ممکن نہیں کہ نفرت سے لب ریز معاشرے میں کسی فرد کے لیے اپنے منفی جذبات پر قابو پانا بہت مشکل ہوتا ہے، لیکن نیکی و اچّھائی کی جیت تب ہی ہوتی ہے کہ جب پُرآشوب حالات میں چند حوصلہ مندافراد انسانیت کے لیے آواز بلند کرتے ہیں۔

تازہ ترین