• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مدبر رہنما وہ ہوتے ہیں جو اپنے تصور کو عملی شکل دینے میں کامیاب رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر قائداعظم محمد علی جناح۔ برصغیر میں مسلمانوں کی ایک الگ ریاست کا تصور 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد سے کسی نہ کی صورت آگے بڑھ رہا تھا۔ مسلمان مفکرین، سر سید احمدخان نے اس تصور کی وکالت کی۔ آل انڈیا مسلم لیگ اور اس کے رہنمائوں، بشمول علامہ اقبال نے اس تصور میں مزید جان ڈال دی لیکن یہ قائدِ محترم تھے جنہوں نے اس تصور کو عملی شکل میں برصغیر کے مسلمانوں کے سامنے رکھا، اُن کے دل میں تڑپ پیدا کی اور پھر ایک ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ بیشک، محمد علی جناح کا شمار گزشتہ صدی کے عظیم ترین مدبر رہنمائوں میں ہوتا ہے۔تمام سیاستدان اپنے وعدے پورے نہیں کر سکتے۔ درحقیقت کچھ وعدے اتنے تصوراتی اور بعید از حقیقت ہوتے ہیں کہ اُنہیں عملی شکل دینا انسانی بس میں نہیں ہوتا۔ باایں ہمہ، سیاستدان ایسے وعدوں کا شیش محل آباد رکھتے ہیں لیکن کیا وہ محض اپنے ووٹروں کو بیوقوف بنا رہے ہوتے ہیں یا وہ واقعی سمجھتے ہیں کہ انہیں عملی شکل دی جا سکتی ہے؟

حال ہی میں نفسیات میں استعمال ہونے والی ایک اصطلاح ’’Dunning-Kruger effect ‘‘ میری نظر سے گزری۔ اس کا ممکنہ اردو ترجمہ ’’فرضی دماغی صلاحیتوں پر ناز‘‘ ہو سکتا ہے۔ میں سوچنے لگا کہ اس اصطلاح کا اطلاق ہمارے وزیراعظم اور اُن کے کچھ رفقا کے وعدوں پر کیوں نہیں ہوتا؟ آئیے ان کے وعدوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

1۔حکومت ٹیکس کا حجم دگنا کر دے گی۔ اس کے لئے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا گیا، لیکن تاثر یہ تھا کہ ایک سال کے اندر اندر ایسا ہو جائے گا۔ 2۔بیرونی ممالک میں پاکستانیوں کے چھپائے گئے 200بلین ڈالر واپس لائے گی۔ منی لانڈرنگ مکمل طور پر ختم کر دی جائے گی اور یوں کئی بلین ڈالر بچا لئے جائیں گے۔ 3۔غیر ملکی سرمایہ کاری میں تیزی سے اضافہ ہو گا اور بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانی زرمبادلہ کی بارش کر دیں گے۔ ان افراد کے لئے پی ٹی آئی کا اقتدار میں آنا ہی کافی تھا۔ 4۔پاکستان آئی ایم ایف یا کسی ملک کے پاس قرضہ مانگنے نہیں جائے گا۔ ایک مرتبہ جب یہ اقتدار میں آگئے تو کسی قرضے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ان کا اقتدار میں آنا ہر مسئلے کا شافی حل ہوگا۔ 5۔ان کا دعویٰ تھا کہ وہ وزیراعظم ہائوس کو ایک یونیورسٹی میں تبدیل کر دیں گے۔ ایسا کرنے میں ناکام ہوتے ہوئے انہوں نے محض اعلان کرنے پر ہی اکتفا کیا کہ ایسا کر دیا گیا ہے۔ 6۔پچاس لاکھ نئے گھر تعمیر کرنےکا وعدہ کیا گیا (وزیراعظم اور ان رفقا نے شاید اندازہ لگانے کی زحمت نہیں کی کہ اس وقت لاہور اور کراچی کے مجموعی پکے گھر بھی پچاس لاکھ نہیں ہیں) 7۔ایک کروڑ نئی ملازمتیں دی جائیں گی۔ ملازمتیں دینے کا دار و مدار معاشی شرح نمو پر ہوتا ہے۔ پانچ سال میں ایک کروڑ ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کے لئے پاکستان کو اوسطاً سات فیصد سے بلند شرح نمو درکار ہے۔ میرا نہیں خیال کہ موجودہ حکومت نے کبھی ملازمتوں اور معاشی شرح نمو کے درمیان تعلق پر سوچنے کی زحمت کی ہے۔ اپنے پہلے سو روزہ پلان میں اُنھوں نے ملازمتوں کی بات تو کی لیکن معاشی شرح نمو کا ذکر تک نہ کیا۔ 8۔انہوں نے کہا تھا کہ غیر ملکی دوروں کے لئے وزیراعظم پرائیویٹ جہاز استعمال نہیں کریں گے نیز وہ پروٹوکول ترک کر دیں گے۔ اب تک کے مشاہدے کے مطابق گورنرز، وزرائے اعلیٰ اور خود وزیراعظم عمران خان اُس سے کہیں زیادہ پروٹوکول لے رہے ہیں جتنا مسلم لیگ (ن) کے رہنما لیتے تھے، تاہم اب اس کی وجہ ’’سیکورٹی‘‘ بتائی جا رہی ہے۔

ان میں سے ایک وعدہ بھی پورا نہیں ہوا اور نہ ہی امکان ہے۔ تو وزیراعظم عمران خان نے ایسے وعدے کیوں کئے؟ ایسا صرف اُس وقت ہی نہیں کیا جب وہ اپوزیشن میں تھے بلکہ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد بھی وعدوں کا سلسلہ جاری ہے۔ عملی طور پر ہر وعدے کے برعکس کیا۔ کیوں؟ان عجیب و غریب وعدوں کی ایک وضاحت تو مذکورہ بالا ’’Dunnig-Kruger effect‘‘ ہے۔ اس اصطلاح کا حوالہ ’’پرسنل سوشل سیکالوجی‘‘ رسالے میں پڑھنے کو ملا۔ اس کے مطابق کم صلاحیت رکھنے والے افراد اس نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اُنہیں اپنی محدود صلاحیتوں کا ادراک نہیں ہوتا لیکن احساسِ برتری میں مبتلا ہوکر خود کو دوسروں سے زیادہ ماہر سمجھنے لگتے ہیں۔ سقراط کا قول ہے ’’میرے علم میں جتنا اضافہ ہوتا ہے، اتنا ہی اپنی لاعلمی کا احساس زیادہ ہوتا جاتا ہے‘‘۔ مذکورہ بالا نفسیاتی اصطلاح اس دانائی کے بالکل برعکس ہے۔ کوئی شخص جتنا کم جانتا ہے، اُتنا ہی اُسے اپنی صلاحیتوں کا یقین ہوتا ہے۔ اختیار اس یقین کو بڑھاتا جاتا ہے۔ چنانچہ موجودہ حکمراں غیر حقیقی وعدے اس لئے کرتے رہے ہیں کیونکہ وہ گورننس کی پیچیدگی اور اپنے تجربے، مہارت اور صلاحیتوں کی کمی کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ لاعلمی اُنہیں پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کے فوری حل کا نسخہ بتاتی رہتی ہے۔ ابھی حل کی نوبت نہیں آتی کہ احساسِ برتری اُنہیں مزید غیر عملی وعدے کرنے پر اکسا دیتا ہے۔ اور یوں ایک اور دن گزر جاتا ہے۔

گزشتہ ایک عشرے سے انہوں نے ایک سادہ سا بیانیہ عام کیا ہوا ہے کہ پاکستان کا واحد مسئلۂ بدعنوانی ہے۔ ایک مرتبہ جب بدعنوانی کا تدارک ہوگیا تو ہر چیز ٹھیک ہو جائے گی۔ جب وہ اقتدار میں آئے تو قوم کو توقع تھی اب مثبت تبدیلیاں دکھائی دیں گی۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بدقسمتی سے وزیراعظم اور ان کے رفقا یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پاکستان کا اصل مسئلہ کیا ہے اور ترقی کا سفر شروع کرنے میں کتنے مراحل درپیش ہیں۔ جب آپ دکان پر کچھ خریدنے جاتے ہیں یا اپنے بل ادا کرتے ہیں، تو آپ کو اس کا اندازہ ہونے لگتا ہے۔

(صاحبِ مضمون سابق وفاقی وزیر برائے مالیاتی امور ہیں)

تازہ ترین