• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ کالم میں عشق حقیقی اور عشق مجازی کا ذکر ہوا لیکن کالم کا دامن محدود ہونے کے سبب میں عشق مجازی کی ایک قسم کا ذکر نہ کر سکا۔ سچی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے دو عظیم راہنماؤں پروفیسر غفور اور قاضی حسین احمد کا انتقال ہوا تو مجھے جھٹکا لگا، اور میں سوچنے لگا کہ عشق کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ انسان ساری عمر ایک نظریے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے جدوجہد کرتا رہے، وہ نظریہ اس کا اوڑھنا بچھونا اور اس کا سب سے بڑا خواب ہو۔ اتفاق ہے کہ میرا پروفیسر غفور صاحب اور قاضی حسین احمد صاحب سے نہ کوئی ذاتی تعلق تھا کہ میں اس حوالے سے یادوں کے چراغ جلاؤں اور نہ ہی ان سے ملاقاتیں تھیں کہ میں ان کا ذکر کروں۔ میں نے دونوں حضرات کو دور سے دیکھا اور بس دور ہی سے دیکھا۔ یہ الگ بات کہ بعض دور سے نظر آنے والے قلبی اور ذہنی طور پر ان لوگوں سے کہیں زیادہ قریب ہوتے ہیں جن سے آپ اکثر ملتے اور معانقے کرتے ہیں۔ دراصل یہ جسموں کی ملاقات ہوتی ہے اور ضروری نہیں کہ جسموں کی ملاقات ذہنی اور قلبی ملاقات بھی ہو۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ آپ بیک وقت جسمانی ملاقات کے ذریعے ذہنی اور قلبی ملاقات کا لطف بھی اٹھا لیں۔ میں نے دو لفظ قلبی اور ذہنی جان بوجھ کر لکھے ہیں کیونکہ ضروری نہیں آپ کی کسی شخص سے ذہنی ملاقات ہو تو قلبی ملاقات بھی ہو جائے۔دراصل ذہن اور قلب دو مختلف سلطنتوں کے حاکم پائے جاتے ہیں۔ اس موقع پر مجھے اپنے محترم اور برادرم پروفیسر مرزا محمد منور مرحوم ماہر اقبالیات یاد آرہے ہیں۔ وہ جسمانی ملاقاتوں کو تبادلہ منافقت کہا کرتے تھے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم جن ملاقاتوں کا بہت ذکر کرتے ہیں اور نام لیتے نہیں تھکتے وہ اکثر جسمانی ملاقاتیں ہی ہوتی ہیں اور یہ تبادلہ منافقت کی ذیل میں آتا ہے۔ بات ذرا دور نکل گئی۔ ایک خاص مشن اور نظریے کے لئے تن دھن کی بازی لگا دینا، جسم کی تمام صلاحیتوں اور زندگی کی تمام سانسوں کو اس کے لئے وقف کر دینا عشق ہے اور سچا عشق ہے۔ پروفیسر غفور مرحوم اور قاضی حسین احمد مرحوم دونوں سچے عاشق تھے اور وہ عاشق تھے اسلام اور پاکستان کے… ان کا ہماری صفوں سے اٹھ جانا امر ربی ہے کہ موت برحق ہے، انسانی زندگی خالق حقیقی کی امانت ہے جب چاہے واپس لے لے۔ امانت کی واپسی پر واویلا کیسا اور ماتم کیوں؟ … لیکن یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ان دونوں کا انتقال صرف جماعت اسلامی کا ہی نقصان نہیں بلکہ بہت بڑا قومی نقصان بھی ہے۔ جماعت اسلامی سے میرا کوئی تعلق نہیں لیکن پروفیسر غفور اور قاضی صاحب مرحوم سے ملاقات نہ ہونے کے باوجود ان سے ایک قلبی، ذہنی اور روحانی تعلق تھا۔ یاد رکھئے جہاں قلبی اور ذہنی تعلقات ایک نقطے پہ اکٹھے ہو جائیں وہیں سے روحانی تعلقات کا آغاز ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ روحانی تعلق کے لئے روح کا زندہ ہونا پہلی شرط ہے۔ ایک روحانی بزرگ نے کیا خوب بات کہی، کہنے لگے کہ جسم کی تکلیف روح کی لذت ہوتی ہے اور روح کی تکلیف جسم کی لذت۔ جب روح اور جسم ایک ہوجائیں توانسان جسم کی لذت کو روح کی لذت سمجھنے لگتا ہے۔ دنیا داری ، ہوس، جھوٹ اور مادہ پرست زندگی میں سب سے بڑا سانحہ یہی ہوتا ہے کہ روح جسم کا حصہ بن جاتی ہے اور جسم اور روح اپنی اپنی الگ حیثیتیں کھو بیٹھتے ہیں۔
بات پھر دور نکل گئی، مختصر سی بات فقط اتنی ہے کہ میں تاریخ پاکستان کا غیر جانبدارانہ اور بغور مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پاکستان اور اسلام لازم و ملزوم ہیں۔ پاکستان کا خواب ایسی ریاست کا خواب تھا جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جانی تھی اور جسے بقول قائداعظم حمد علی جناح اسلام کی تجربہ گاہ بننا تھا۔ اسے ایک فلاحی، جمہوری اور ترقی یافتہ ریاست ہونا تھا جسے قانون کی حکمرانی، انصاف، انسانی مساوات، سماجی و معاشی عدل کا نمونہ بننا تھا۔ دوسرے الفاظ میں اس میں ان تمام اصولوں کی حکمرانی کا تصور موجود تھا جن کی روشنی ہمیں اسلامی ریاست کی طرز حکومت میں نظر آتی ہے۔ مجھے دہرانے دیجئے کہ قائد اعظم نے قیام پاکستان سے قبل 101بار اور قیام پاکستان کے بعد اپنی زندگی کے ایک سال کے مختصر عرصے کے دوران چودہ بار اس عہد کااعادہ کیا کہ پاکستان کی بنیاد اسلامی اصولوں پر استوار کی جائے گی چنانچہ اسلام اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں لیکن اس کا ہرگز مطلب مذہبی ریاست نہیں کیونکہ تھیوکریسی یعنی بقول قائداعظم پاپائیت(مولوی ازم) کا اسلام میں کوئی تصور موجود نہیں، جو لوگ دہشت گردی، فرقہ واریت یا انتہا پسندی کو اسلام سے جوڑ کر سیکولر ازم کی آرزو پالتے ہیں یا تحریک پاکستان اور قائد اعظم کے تصورات سے زبردستی سیکولرازم”نکالتے“ ہیں ان کی خدمت میں عرض ہے کہ دہشت گردی فرقہ واریت یا انتہا پسندی اسلامی تعلیمات کی نفی ہیں۔آپ براہ کرم ذاتی مجبوریوں سے بلند ہو کر آزاد ذہن سے تحریک پاکستان کے محرکات اور قائد اعظم کی تقاریرکا مطالعہ کریں۔ آپ جن مسلمان ممالک کی ترقی کی مثالیں دے کر شراب خانے اور مساجد کی ہمسائیگی کی ”روشن خیال“ مثالیں دیتے ہیں وہ اسلامی ممالک نہیں بلکہ صرف آبادی کے حوالے سے مسلمان ممالک ہیں۔ ان ممالک میں بھی غیر اسلامی پالیسیوں کے خلاف ردعمل تیزی سے رونما ہورہا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں وہاں بھی غیر شرعی قوانین پر نظر ثانی کی جائے گی۔ رہی ان کی معاشی ترقی تو اس کا راز سیکولر ازم میں نہیں بلکہ نظام حکومت اور لیڈر شپ کی اہلیت اور اچھے کردار میں مضمر ہے۔ پاکستان کی زبوں حالی اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلانے سے نہیں بلکہ لوٹ، کھسوٹ، کرپشن، کرپٹ اور نااہل لیڈر شپ، فیوڈل کلچر، بے انصافی، موروثی سیاست، قانون کی پامالی اور بالائی طبقوں کی مفاد پرستی کا نتیجہ ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں پاکستان کی زبوں حالی، معاشی پسماندگی، تنزل کا سبب اسلامی اقدار سے دوری کی وجہ سے ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ پاکستان جن بالائی طبقوں کی گرفت میں جکڑا ہوا ہے انہیں اسلامی طرز ِ نظام ”سوٹ‘ ‘ نہیں کرتا۔ سیکولر ازم کے علمبردار جس برداشت (Tolerance) معاشرتی ہم آہنگی، امن، بھائی چارہ، شفاف طرزِ حکومت، انسانی برابری، سماجی و معاشی انصاف کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، وہ دراصل اسلامی طرز ِ حکومت کے اصول ہیں لیکن مسئلہ یہ نہیں۔ یہ دین بیزار لوگ جس پینے پلانے کی آزادی اور رنگ و بو سے کھیلنے کی آرزوکرتے ہیں۔ اس کی اسلامی اصول اجازت نہیں دیتے جبکہ یہ رسومات اور عادتیں سیکولر حضرات کی زندگیوں کا حصہ بن چکی ہیں، چنانچہ بیچارے مجبورہیں۔ پنجابی اکھان ہے” روندی یاراں نوں، ناں لے لے پراواں دا“ (روتی یارکو ہے نام بھائی کا لیتی ہے) اگر آپ ان حضرا ت کے الفاظ کے باطن میں جھانکیں توان کی خواہشات کا عکس صاف نظرآنے لگتا ہے۔
کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اسلام اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں۔ قائداعظم کا ایجنڈا پاکستان کوایک اسلامی، فلاحی، جمہوری اور روشن خیال ریاست بنانا تھا جو ان کی بیماری اور وفات کے سبب تشنہ تکمیل رہ گیا اور پھر پاکستان جاگیرداروں، گدی نشینوں، جرنیلوں، صنعت کاروں، موروثی سیاستدانوں اور دولت کی سیاست کے شاہکاروں کے ہتھے چڑھ گیا جو اب تک کھل کھیل رہے ہیں۔ کرپشن، لوٹ کھسوٹ، بے انصافی، غربت، معاشی بدحالی اور انسانی قدروں کی پامالی انہی طبقوں کی طویل حکومت کا حصہ ہیں مجھے پاکستان ابھی ان کی گرفت سے آزاد ہوتا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ یہاں تبدیلی کے ہر نعرے کو دولت، حکومتی مشینری کے زور اوروفادارمفاد پرست کارندوں کی طاقت سے دبا دیاجاتاہے لیکن یہ صورتحال بہرحال زیادہ عرصہ قائم نہیں رہے گی۔ عوام کو ایک روزاس صورتحال کا احساس ہوگا اور وہ ضرور نیند سے بیدار ہوں گے۔ پھر تاج اچھالے جائیں گے اور تخت گرائے جائیں گے۔اگر آپ تاریخی تناظر میں دیکھیں توپروفیسرغفور صاحب اور قاضی حسین احمد صاحب نے قائداعظم کے نامکمل ایجنڈے کو پایہ ٴ تکمیل تک پہنچانے کیلئے زندگیاں وقف کئے رکھیں کیونکہ وہ پاکستان میں قائداعظم و اقبال کی مانند اسلامی طرز ِ حکومت کا قیام چاہتے تھے۔ چنانچہ وہ سچے عاشقان پاکستان تھے۔ جماعت اسلامی کی اپنی مخصوص شناخت کے سبب ان کو اکثریتی عوامی حمایت حاصل نہ ہوسکی لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ اب یہ احساس اوربیداری اور قائداعظم کے پاکستان کا خواب تیزی سے عوامی سوچ میں جگہ بنا رہاہے۔ انشااللہ احساس کی یہ لہررنگ لائے گی۔ اس لئے میں ان لوگوں کو پاکستان کے سچے عاشق سمجھتا ہوں جو پاکستان کو اقبال وقائداعظم کے خوابوں کے سانچے میں ڈھالنے کیلئے جدوجہد کرتے ہیں لیکن جو حضرات اس حوالے سے سیکولرازم کا پرچار کرتے ہیں میں انہیں رقیبان پاکستان جانتا ہوں اور جو اقتدار میں رہنے کے باوجود پاکستان کوقائداعظم کا پاکستان نہ بنا سکے اور اب ووٹ لینے کیلئے ایسے دعوے اور تقریریں کرتے ہیں میں انہیں منافقان پاکستان کا حقیر لقب دیتا ہوں کیا آپ اس سے متفق ہیں؟
تازہ ترین