• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نریندر مودی پاکستان توڑنے اور مسلمان مارنے پر فخرکرے مگر ہمارے کچھ لوگ اُسے Happy Birthdayکا کیک کھلا کر اُس کی دی ہوئی پگ پہن لیں ،حسینہ واجد پاکستان کے نام سے بھی نفرت کرے مگر ہمارے بعٗض دوست اس کی جمہوریت پسندی کی تعریف کریں اور برطانیہ میں مسلمان مکھی ما ر نے کے شبے میں اندر ہو جائے مگرتمام ثبوتوں کے باوجود الطاف حسین ابھی تک باہر، یہی نہیں میمو گیٹ ہضم ہوا ،ذوالفقار مرزا نے تھک ہار کر قرآن واپس غلاف میں لپیٹ دیا اور بولتا بولتا صولت مرزا اگلے جہان جا پہنچا۔ کیا۔کچھ ہوا ۔کسی بھینس کی سمجھ میں کوئی بین آئی ،کوئی خراٹے مارتا ضمیر جاگا یا کسی کوانقلاب کا ’’الف ‘‘ بھی نظر آیا۔نہیں ناں۔ تو پھر بھائی جان حوصلہ رکھیں مصطفی ٰکمال کے رونے دھونے سے بھی یہاں کوئی انقلاب نہیں آنے والا ، یقین جانئے یہاں تو اب درجہ چہارم کا انقلاب بھی نہیں لایا جاسکتا ۔ ہاں البتہ یہ خوشی ضرور کہ وقت بدل رہا ہے اور جب وقت بدلتا ہے تو پھر ہوتا کیا ہے ذرا اپنے ’’پدی اور پدی کے شوربوں ‘‘ سے نکل کر ملاحظہ فرمائیں 3نمونے اُن راج کماروں کے کہ کبھی وقت کی لگام جن کے ہاتھ میں تھی ۔
اپنے کرنل قذافی کو جب کبھی اسکے دوست کہا کرتے کہ ’’ فوج کو مضبوط اوردگنا کرو ‘‘تو وہ قہقہہ مار کر کہتا ’’ فوج کا کیا کرنا میں اکیلا ہی پوری دنیا کیلئے کافی ہوں ‘‘ ۔ جن دنوں وہ (نعوذ باللہ)بیت اللہ کو کالے پتھروں کا کمرہ کہہ کر طواف کا سرِعام مذاق اڑایا کرتا اور بہانے بہانے اپنے ہم وطن داڑھی والوں کو رسوا کیا کرتا ،ان دنوں اگر کوئی دبے لفظوں اسے ایسا کرنے سے روکتا تو بڑی بے زاری سے کندھے اچکا کر وہ فرمایا کرتا ’’ یہ گمراہ کیڑے ہیں اور کیڑوں سے کیا ہمدردی ‘‘ اور پھر امریکہ کے کہنے پر آہستہ آہستہ جب دنیا لیبیا کو چھوڑنے لگی ،تب دنیا سے تعلقات بہتر کرنے کا مشورہ دینے والوں کو وہ جواب دیتا ’’بزدلوں کی دوستی کیا اور دشمنی کیا ‘‘ مگر جب وقت بدلا تو پھر فوج سے بھی طاقتور اسی قذافی کو اسی بزدل امریکہ نے گھیر کر سڑک کنارے اُس برساتی نا لے میں پہنچا دیا کہ جہاں اسکے اپنے ’’گمراہ کیڑوں‘‘ نے اسے گریبان سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے باہر نکالا اور ایک شرمناک تشدد کے بعد نیم برہنہ کر کے گاڑی کے بونٹ پر گولی ماردی ۔ یہی نہیں یو ٹیوب پر یہ ویڈیو آپ آج بھی دیکھ سکتے ہیں کہ جس میں چہروں پر ماسک لگائے ، ہاتھ میں پانی کے پائپ پکڑے 3افراد قذافی کی پھولی بدبودار لاش کو پہلے غسل دیتے ہیں پھر لاش کو دو سفید چادروں میں لپیٹ کر اسکے چھوٹے بیٹے متعصم قذافی اور انٹیلی جنس چیف کی لاشوں کے ساتھ رکھ کر جنازہ پڑھتے ہیں اور پتا ہے کہ خود کو بادشاہوں کا بادشاہ کہلوانے والے قذافی کا جنازہ کتنے لوگوں نے پڑھا ،صرف 7لوگ، جی ہاںامام سمیت 7لوگ ۔
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ مصر کے حسنی مبارک نے جب 5ویں بار صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا تو قاہرہ کے صدارتی محل میں سب مغربی دوست ظّلِ الہی کو ڈھائی گھنٹے تک یہ بات سمجھاتے رہے کہ’’ وقت بدل چکا، آپ کے پاس باعزت جانے کا سنہری موقع ہے، اگرآج آپ ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیں گے تو پھرجا نے کے بعد بھی طاقت آپ کے گرد ہی گھومے گی ‘‘لیکن منہ میں زعفرانی کھجور رکھ کر عربی قہوے کا گھونٹ بھرتے ہوئے حسنی مبارک نے بڑی ہی لاپروائی سے یہ کہہ کر میٹنگ ختم کر دی کہ ’’ میرے بغیر مصر نہیں چل سکتا ‘‘ مگر جب وقت بدلا تو نہ صرف حسنی مبارک کو بے عزت ہو کر صدارت چھوڑنا پڑی بلکہ ہتھکڑیاں پہنے لوہے کے پنجرے میں وہ آج بھی اُن کی باتیں سننے پر مجبور کہ جو کبھی اس سے بات کرنے کیلئے ترسا کرتے تھے اور یہ بھی کل ہی کی بات لگتی ہے کہ عراق پر امریکی چڑھائی سے 3دن پہلے ایک صبح صدام حسین کے بیٹے اودے حسین کو روسی صدر کا فون آیا ’’ حالات کنٹرول سے باہر ہو رہے اور خدشہ ہے کہ کہیں وہ وقت نہ آجائے کہ پھر آپکی کوئی مدد ہی نہ کی جا سکے ،لہٰذا صدام حسین کو راضی کریں کہ وہ اگلے 24گھنٹوں میں خاندان سمیت روس آجائے ،یوں نہ صرف عراق تباہی سے بچ سکتا ہے بلکہ مناسب وقت پر صدام حسین کو اقتدار دلوانے کیلئے دوبارہ کوشش بھی کی جا سکتی ہے ‘‘ ۔ اسی دوپہر اودے حسین نے اپنے پورے خاندان کے ساتھ والد ِ محترم کی ہر منت سماجت کر ڈالی مگر فیلڈ مارشل کی یونیفارم پہنے اور ہاتھ میں پستول پکڑے صدام حسین کا ایک ہی جواب تھاکہ ’’ امریکہ مجھ سے پنگا لینے کی جرأت ہی نہیں کرسکتا اور اگر غلطی سے اس نے پنگا لے لیا تو پھرمیں عراق کا صحرا امریکیوں کیلئے قبرستان بنا دوں گا ‘‘مگر جب وقت بدلا تو نہ صرف 7دنوں میں ہی پورا عراق امریکہ کا ہو گیا بلکہ 9ماہ بعد امریکی فوجیوں نے بڑھی داڑھی ،سوجی آنکھوں اور میلے کپڑوں والے صدام حسین کو بھی ایک گڑھے نما کمرے سے ڈھونڈ نکالا ۔اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ پرائی باتیں ہیں تو ہم اپنی باتیں کر لیتے ہیں ،ہم تو بدلتے وقتوں میں خود ایسے خود کفیل کہ یہاں وقت یوں بھی بدلا کہ قائداعظم ؒاور علامہ اقبالؒ کے ملک میں غلام محمد جیسے گورنر جنرل ، یحییٰ خان جیسے آرمی چیف اور زرداری صاحب جیسے صدربنے ،اگر آپکا خیال ہے کہ یہ گزرے لوگوں کی باتیں ہیں تو ہم آج کی بات کرلیتے ہیں اور مجھے مکمل یقین کہ آج کے حکمران بدلتے موسموں میں لگی ہتھکڑیو ں ،سانپوں والی حوالاتوں اور جلاوطنی نہیں بھولے لیکن فرض کریں کہ اگر وہ یہ بھول چکے تو پھر وہ کراچی میں موجود اُس پرویز مشرف سے سب کچھ پوچھ سکتے ہیں کہ جو خود آج بدلے وقت کی سب سے بڑی زندہ مثال ۔
مگر قارئین کرام !جیسے مجھے اچھی طرح یہ معلو م کہ تیسری بار اقتدار کے گھوڑے پر سوار میاں برادران کیلئے اب یہ سب باتیں بے معنی اور بے مقصد ، ویسے مجھے یہ بھی بخوبی علم کہ 30سالہ اقتدار کے بعدانہیں بھلا کیا بتایا اور کیا سمجھایا جا سکتا ہے لیکن پھر بھی نجانے آج دل کیوں یہ چاہ رہا ہے کہ جان کی امان پا کر میاں برادران سے یہ عرض ضرور کروں کہ حضور والا اگر لاہور کی تاریخی حیثیت مسخ کرنے کی کہانیاں ایک طرف اور کرپشن اور کمیشن کے قصوں کو دوسری طرف رکھ کر بھی دیکھیں تو بھی آپ 6ارب فی کلومیٹر والے دنیاکے مہنگے ترین ٹریک ،14بلین سالانہ خسارے اور 4بلین سالانہ خرچے والی اورنج ٹرین کیسے لے آئے اور وہ بھی لاہور کے صرف 2لاکھ 50ہزار مسافروں کیلئے ،مطلب ڈھائی لاکھ مسافراور خرچہ 165بلین کا یعنی ہر مسافرپڑا 6لاکھ 50ہزارمیں ، اس سے تو کہیں اچھا تھا کہ آپ ہر مسافر کو 6لاکھ 30ہزار کی زیرومیٹر کار ہی خرید کردیدیتے ، یقینا کچھ پیسے پھر بھی بچ جاتے ،پھر عزت مآب آپکے 101ملین رعایا والے پنجاب میں جہاں صحت کے 2461بنیادی مرکز ڈاکٹروں کا منہ تکتے تکتے بوڑھے ہو چکے،جہاں ہیپاٹائٹس کے 70لاکھ مریض دھکے کھارہے ، جہاں لاکڑاکاکڑ اکے 30لاکھ مریض رُلتے ہوئے، جہاں ٹی بی کے 34لاکھ مریض خون تھوکتے پھریں اور جہاں 1700مریضوں کیلئے ایک ڈاکٹر (اگر وہ ہڑتال یا چھٹی پر نہ ہو )، پھرعالی جاہ آپکا وہ پنجاب کہ جہاں دل کے آپریشن کیلئے 6ماہ سے ایک سال جبکہ بچوں کے آپریشن کیلئے 2دو سال لائنوں میں لگنا پڑے،جہاں بر وقت آپریشن نہ ہونے پر 100میں سے 10مریض اور صحت کی سہولتیں نہ ملنے پر 115مائیں ماہانہ مرجائیں وہاں اگریہ 165بلین صحت پر لگا دیئے جاتے تو نہ صرف یہ سب بنیادی مسائل حل ہوجاتے بلکہ صوبے میں شوکت خانم جیسے 41اسپتال اور بھی قائم ہو جاتے ،حضور ! خالی ہیلتھ انشورنس سے کام نہیں چلے گا کیونکہ ہم غریبوں کیلئے شروع کی گئی آپکی ہیلتھ انشورنس ا سکیم تبھی کامیاب ہوگی جب حمزہ شہباز سے مریم نواز تک یہ سب بھی اپنی انشورنس کروا کر ہیلتھ کارڈ سے انہی اسپتالوں میں علاج کروائیں جہاں ہم اپنا علاج کرواتے ہیں اور پھر عالی مرتبت اگر اورنج ٹرین کے 165ارب صوبے کی تعلیم پر لگا دیئے جاتے تو نہ صرف 10ہزار اعلیٰ معیار کے پرائمری اسکول قائم کئے جاسکتے تھے بلکہ پنجاب کے 29لاکھ وہ بچے جو غربت کی وجہ سے اسکول نہیں جا رہے انہیں انہی پیسوں سے 5سال تک مفت تعلیم بھی دی جا سکتی تھی ، پھر قبلہ ! یہ کیسا منصوبہ کہ جس کے شروع ہوتے ہی پنجاب کاہر شہری چین کا 1600 روپے کا مقروض ہو گیا اور منصوبہ مکمل ہونے کے 25سال بعد تک روزانہ 30ملین روپے قرض بھی لوٹاناپڑے گا ۔مگر بات پھر وہی کہ وہاں یہ سب کون سنے گا اور وہاں یہ سب کسے سنائیں کہ جہاں پاکستان توڑنے اور مسلمان مارنے پر فخرکرنے والے نریندر مودی کو ہمارے کچھ لوگ Happy Birthdayکا کیک کھلا کر اُس کی دی ہوئی پگ پہن لیں ، جہاں پاکستان کے نام سے بھی نفرت کرنے والی حسینہ واجد کی ہمارے ہاں تعریف کی جائے اور جہاں ذوالفقار مرزا سے مصطفیٰ کمال تک سب تھک ہار گئے مگر کسی بھینس کی سمجھ میں کوئی بین نہ آئی،کوئی خراٹے مارتا ضمیر نہ جاگا اور انقلاب کا ’’الف ‘‘ تک بھی نظر نہ آ یا۔ہاں البتہ یہ خوشی ضرور کہ وقت بدل رہا ہے۔
تازہ ترین