• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کل ’’دم پر پائوںآنا‘‘ کا محاورہ بڑی پذیرائی حاصل کرر ہا ہے اور اس حرکت کا رواج فروغ پا رہا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر کوئی دوسرے کی دم پر پائوں رکھنے کے درپے ہے ۔ میڈیا میں ’’جب میر اپائوں کسی کی دم پر آتا ہے تو وہ چیخ اٹھتا ہے ‘‘ اور ’’ہماری دم پر کسی کا پائوں نہیں آیا ‘‘ جیسے بیانات تواتر سے سننے کو ملتے ہیں ۔ وہ جو فرمایا گیا ہے کہ …رسم دنیا بھی ہے ،موقع بھی ہے، دستور بھی ہے…سو موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نیب نے بھی اپنا پائوں اس زور سے اربابِ اقتدار کی دم پر مارا ہے کہ وہ بلبلا اٹھے ہیں ۔ کراچی میں رینجرز بھی اسی خیرالعمل میں مصروف ہےاور ملک کے مختلف حصوں میں پاک فوج بھی۔پچھلے دنوں حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ کر کے بھی ایسی ہی حرکت کی تھی ۔ ادھر مصطفی کمال کی دم پر جانے کس کا پائوں آیا کہ انہوں نے بھی اپنا پائوں کسی کی دم پر رکھ دیا ہے ۔ دوسروں کی دیکھا دیکھی پنجاب اسمبلی نے بھی ’’تحفظ حقوق نسواں بل ‘‘ منظور کر کے ایک بڑی سی دم پر اپنا پائوں دے مارا ہے۔ غالباً ظفر اقبال نے اسی دم کی طرف اشارہ کیا ہے کہ :
دم ہی ان کی اتنی لمبی ہے کہ یوں ہی
ہر کسی کا پائوں آ جاتا ہے اس پر
ہماری یہ لمبی دم سرحدوں کی قائل نہیں ۔ پانامہ کی نہر سے لے کر فجی کے جزیروں تک پھیلی اس دم پر کوئی بھی گھر بیٹھے بلا تکلف اپنا پائوں رکھ کر دنیا کو انٹر ٹین کر سکتا ہے ۔ ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ ہم اپنی یہ دم دنیا بھر میں گھسیٹتے پھر رہے ہیں تاکہ اس پر کسی نہ کسی کا پائوں آتا رہے اور ہم بلبلانے کا اپنا شوق پورا کرتے رہیں ۔ ناجائز بچہ یورپ میں پیدا ہوتا ہے اور پائوں ہماری دم پر آ جاتا ہے ۔ کوئی چاہے تو سات سمندر پار ملالہ یوسفزئی کو نوبل انعام یا شرمین عبید چنائے کو آسکر ایوارڈ دے کر بھی اس دم پر اپنا پائوں رکھ سکتا ہے ۔ جدید علوم، سائنس و ٹیکنالوجی میں مسلمانوں کی پسماندگی کا رونا رو کر یا یوں کہیں کہ دہشت گردی ، انتہا پسندی اور جہالت کے خاتمے کی خواہش کا اظہار کر کے بھی اس دم پر اپنا پائوں رکھا جاسکتا ہے ۔ کافر گری کی روش کے خلاف یا منطق ، دلیل اور معقولیت کی بات کر کے بھی یہ کارِ خیر انجا م دیا جا سکتا ہے ۔ تاریخ کی تدوین سے بھی اس دم پر پائوں آ جاتا ہے ( تاہم تاریخ کی تدفین میں کوئی مضائقہ نہیں) حتیٰ کہ کوئی ’’ناہنجار پرسن ‘‘عورتوں کے حقوق یا لبرل ازم یعنی ’’فحاشی‘‘ کی حمایت کر کے بھی اپنا یہ شوق پورا کر سکتا ہے ۔ ہر معقول پائوں کیلئے ہماری یہ دم اور چیخیں حاضر ہیں ، البتہ اگر کوئی بھاری بھر کم بوٹ ہمارے سر پر پڑ جائے تو ہم کوئی آہ و فغاں نہیں کریں گے بلکہ اس ’’فعل جمیلہ‘‘ میں ہم راحت محسوس کرتے ہیں۔ ’’برق گرتی ہے تو بیچارے پنجاب پر ‘‘ …تحفظ حقوق نسواں بل سے قبل صوبے میں فقط ایک ’’خادم اعلیٰ ‘‘ تھا، اب ایسے بے شمار ’’خدام‘‘ پیدا ہو جائیں گے ۔ اب اگر کوئی صاحب خاتون خانہ کو اشارتاً ، کنایۃً ، وضاحتاً،صراحۃً یا عادتاً بھی تنگ کریں گے تو یہ جرم شمار ہو گا۔ اس بل کا ایک اور تاریک پہلو یہ ہے کہ اس سے کچہری کی رونقیں بھی ماند پڑنے کا خدشہ ہے ۔ اب خواتین ’’دعویٰ ہائے تنسیخ نکاح بر بنائے خلع ‘‘ جن میں وکلاء ’’خاوند نے تن پوشیدنی میں گھر سے نکال دیا ‘‘ برانڈ فریادی فقرے لکھا کرتے تھے ، دائر کرنے کی بجائے اس نئے قانون کا سہارا لیں گی اور خاوند حضرات کو خود تن پوشیدنی میں گھر سے نکلنا پڑے گا۔ اس سے وہ مشہور زمانہ دعویٰ بھی درست ثابت ہوجائے گا کہ جو جنت سے نکلوا سکتی ہے وہ گھر سے بھی نکال سکتی ہے ۔ ’’شوہر سلامت تو بد گمانی کے ہزار قرینے سلامت‘‘ پر یقین رکھنے والی خواتین اس قانون کا غلط استعمال بھی کریں گی ۔تبھی تو مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے ’’ یہ بل مردوں کو رسوا کرنے کیلئے لایا گیا ہے ‘‘ ایک اور بزرگ محترم نے اسے کالا قانون قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ مردوں کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں کریں گے ۔ انہوں نے ’’ ملکی نظریاتی تشخص‘‘ کی حفاظت کا عزم کرتے ہوئے یہ بھی قرار دیا ہے کہ خواتین بل عورتوں کے حقوق پر ڈاکہ اور خاندانی نظام پر وار ہے ( آفرین ، صد آفرین) ہمارا دعویٰ برحق ہے کہ اس برگزیدہ معاشرے میں عورتوں کو پہلے ہی تمام حقوق حاصل ہیں ، لہذا ایسی شرپسندانہ حرکت کی ضرورت نہیں تھی ۔ ابھی پچھلے ہی سال تو لاہو رہائی کورٹ نے خواتین کو جائیدادوں میں حصہ دینے کے مقدمات کا چار ماہ میں فیصلہ کرنے کا حکم جاری کیا ہے ۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ آزادی کو 68سال ہو گئے لیکن ابھی تک بیٹیوں کو وراثتی جائیداد میں حصہ نہ دینے کی روایت چلی آرہی ہے ۔ فاضل عدالت نے یہ حکم پندرہ سال سے زیر سماعت لاہور کی دو بہنوں کو باپ کی جائیداد میں حصہ نہ ملنے کے ایک مقدمے کی اپیل میں سنایا ۔ چونکہ ملکی نظریاتی تشخص کے تحت یہاں خواتین تمام حقوق سے بہرہ مند ہیں ، لہذا ہماری مقدس بارگاہوں سے کبھی ان نام نہاد اور خود ساختہ مظلوم عورتوں کیلئے کوئی آواز بلند نہیں ہوئی جو مردانہ فسطائیت کا شکار ہیں اور جن کا بقول نامعقول دانشوروں کے ، مذہب کی غلط اور خود ساختہ تعبیر کی بنا پر استحصال ہو رہا ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ جب کوئی مظلومہ دہائی دیتی ہے کہ اس کے ساتھ وحشیانہ اور غیر انسانی سلوک ہوا ہے تو اس سے چار گواہ طلب کئے جاتے ہیں ۔ اگر نہیں لا سکتی تو اسے ’’اعتراف جرم‘‘ میں جیل بھیج دیا جاتا ہے ۔ کلیم عاجز کے تین شعر یاد آئے ہیں ، غیر متعلق سے ہیں مگر سن لیجئے :ـ
میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو
مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو
دن ایک ستم ، ایک ستم رات کرو ہو
وہ دوست ہو ، دشمن کو بھی مات کرو ہو
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
ہم صدق دل سے سمجھتے ہیں کہ یہ قانون ہمارے مایہ نازملکی نظریاتی تشخص کو زک پہنچانے اور ہمارے ہنگامہ ہائے شوق کو سرد کرنے کی گھنائونی مغربی سازش ہے ۔ قیامت کی نشانیاں ہیں بھائیو ! کیا یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ آدھی گواہی والیاں ہم نیکو کاروں کو کڑے پہنائیں گی ؟ کیاجن مجاہدوں نے دنیا کو گریبان سے پکڑ رکھا ہے ، ان کا گریبان یہ ناقص العقل پکڑیں گی ؟ آئیے باہم یکجا ہو کر اپنی دم سے یہ پائوں ہٹا دیں تاکہ ہمارا’’ملکی نظریاتی تشخص‘‘ برقرار رہ سکے ۔
تازہ ترین