• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ بات حوصلہ افزاء ہے کہ وزیر خز انہ اسحٰق ڈار نے سینٹ میں پالیسی بیان دیتے ہوئے اس عزم کو دہرایا کہ بیرونی قرضوں کا حجم خواہ کتنا ہی بڑھ جائے پاکستان کبھی بھی ا پنےجوہری پروگرام پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ حکومت کو یہ بات اچھی طرح سمجھنا ہوگی کہ چونکہ افغانستان میں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے امریکہ کو اب بھی پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے اس لئے آئی ایم ایف سمیت عالمی مالیاتی اداروں اور خود امریکہ کا رویہ فی الحال ہمدردانہ ہے۔ جب افغانستان میں پاکستان کی مدد کی ضرورت کم ہو جائے گی تو ان سب کا رویہ بھی بدل جائے گا اور پاکستان کا جوہری پروگرام اور اثاثے خطرات کی زد میں آسکتے ہیں۔ یہ ازحد ضروری ہے کہ پاکستان غیر پیداواری مقاصد کے لئے بیرونی قرضے لینے سے اجتناب برتے۔ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت بڑھانے کے لئے برآمدات میں تیزی سے اضافہ کرکے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھائے۔ یہ بھی ازحد ضروری ہے کہ تجارتی خسارے کو پورا کرنے کے لئے انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111(4) کے سہارے ’’ترسیلات‘‘ بڑھانے کا سلسلہ بند کیا جائے، (اس شق کی وجہ سے قومی خزانے کو تین ہزار ارب روپے سالانہ کا نقصان ہورہا ہے) باہر سے آنے والی ترسیلات کو ممکنہ حد تک سرمایہ کاری کے لئے استعمال کیا جائے، بجٹ خسارے کو پورا کرنے اور زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لئے نج کاری کے نام پر قومی اثاثے فروخت نہ کئے جائیں اور بغیر اکائونٹنگ جادوگری بجٹ خسارے پر قابو پانے کی حکمت عملی وضع کی جائے۔یہ بات ہر محب وطن پاکستانی کے لئے باعث تشویش ہونا چاہئے کہ گزشتہ ساڑھے پانچ برسوں میں پاکستان کے صرف داخلی قرضوں میں8064 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے اور ان قرضوں کا حجم دسمبر 2015ء میں 12718 روپے تک پہنچ گیا ہے جبکہ آزادی کے 63برس بعد جون 2010ء میں یہ حجم صرف 4654 ؍ ارب روپے تھا۔ اس امر میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ صرف ٹیکسوں کی چوری اور ٹیکسوں میں دی گئی چھوٹ و مراعات کی وجہ سے گزشتہ 5برسوں میں قومی خزانے کو جو مجموعی نقصان ہوا ہے اس کا حجم دسمبر 2015ء میں پاکستان کے بیرونی و داخلی قرضوں کے مجموعی حجم سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ امر بھی پریشان کن ہےکہ مجموعی ملکی پیداوار کے تناسب سے پاکستان کی ٹیکسوں ، قومی بچتوں اور سرمایہ کاری کی موجودہ شرحیں خطے کے ملکوں کے مقابلے میں انتہائی کم ہیں۔ ہمارے تخمینے کے مطابق ان تینوں شعبوں میں خطے کے کچھ ممالک کے تناسب کے مقابلے میں پاکستان تقریباً 14000؍ ارب روپے سالانہ کم وصول یا حاصل کررہا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ یہ رقوم دیانتداری سے استعمال بھی نہیں ہورہیں۔ بدقسمتی سے اس ضمن میں آنے والے برسوں میں بھی کوئی بہتر حکمت عملی نظر نہیں آرہی۔ اب پاکستان کو خود انحصاری کے زریں اصول پر مبنی ایسی معاشی پالیسی اپنانا ہوگی جس کے تحت خود اپنے وسائل سے متفقہ طور پر منظور شدہ قومی تعلیمی پالیسی 2009ء کے مطابق تعلیم کی مد میں مجموعی ملکی پیداوار کا 7فیصد (موجودہ تناسب 2.2فیصد) اور صحت کی مد میں 4فیصد (موجودہ تناسب 0.8فیصد) مختص کیا جاسکے۔ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لئے پاکستان کو اگلے 10برسوں میں کم ازکم 100؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ ا س کے علاوہ خالق کائنات کے عطا کردہ معدنی وسائل سے استفادہ کرنے، پاک چین اقتصادی راہداری پروجیکٹ کو صحیح معنوں میں پاکستان کی قسمت بدلنے والا منصوبے بنانے اور پاکستان کو اپنا انفرا اسٹرکچر بہتر بنانے کے لئے پاکستان کو ٹیکسوں اور قومی بچتوں کی شرحیں بڑھانا ہونگیں اور حکومتی و نجی شعبے کو متعلقہ شعبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔وزیر خزانہ نے سینٹ میں مزید کہا کہ معیشت کو درست سمت میں گامزن کردیا گیا ہے۔ ہم معیشت کی کارکردگی کے ضمن میں چند مزید حقائق پیش کررہے ہیں تاکہ معزز قارئین خود فیصلہ کرسکیں کہ یہ دعویٰ کس حد تک درست ہے۔
(1) موجودہ حکومت کے دور میں معیشت کی اوسط سالانہ شرح نمو صرف 4.3 فیصد رہنے کی توقع ہے جو جنوبی ایشیا کے سات ملکوں کے مقابلے میں کمتر شرح نمو ہے۔ یہ گزشتہ 34برسوں کی پاکستان کی اوسط سالانہ شرح نمو سے بھی کم ہے۔ (2) جولائی 2013ء سے دسمبر 2015ء کے درمیان پاکستان کے مجموعی قرضوں و ذمہ داریوں کے حجم میں 4700؍ ارب روپے کا زبردست اضافہ ہوا حالانکہ اس مدت میں سعودی عرب سے 157؍ ارب روپے کی امداد ملی اور حکومت نے منفعت بخش اداروں میں اپنے حصص فروخت کر کےخطیر رقوم حاصل کیں۔ (3) مالی سال 2014، 2015، اور 2016ء کے 3برسوں میں معیشت کی شرح نمو ، ٹیکسوں کی وصولی ، برآمدات اور بجٹ خسارے کے اہداف حاصل نہیں ہوسکے حالانکہ ان برسوں میں تعلیم و ترقیاتی اخراجات کی مد میں کٹوتیاں کی گئیں اور بجٹ خسارے کو کم دکھلانے کے لئے اکائونٹنگ جادوگری بھی دکھلائی گئی۔ (4) وزیر خزانہ نے گزشتہ 7ماہ میں بیرونی سرمایہ کاری کے حجم میں اضافے کا مژدہ سنایا ہے جبکہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے 34ملکوں کی تنظیم اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے 23؍ فروری 2016ء کو بالکل درست کہا ہے کہ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے حجم میں کمی تشویشناک ہے۔ (5) گزشتہ دو برسوں میں ٹیکسوں کی وصولی ہدف سے تقریباً 430؍ ارب روپے کم رہی حالانکہ وزیر خزانہ ٹیکسوں کی وصولی میں تاریخی اضافہ کرنے کے دعوے کرتے رہے ہیں۔(6) وزارت خزانہ کے ایما پر اسٹیٹ بینک نے تواتر سے شرح سود میں کمی کرتے رہنے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے جس سے حکومت کو داخلی قرضوں پر سود کی مد میں کم رقم ادا کرنا پڑ رہی ہیں چنانچہ بینکوں کے کروڑوں کھاتے داروں کو ان کی رقوم پر اور قومی بچت اسکیموں میں رقوم جمع کرانے والے لاکھوں افراد بشمول بزرگ شہریوں، ریٹائرڈ ملازمین اور معذوروں کو بھی ان کی بچتوں پر ملنے والی شرح منافع میں زبردست کمی ہوگئی ہے۔ (7) مالی سال 2015ء میں اور موجودہ مالی سال میں پاکستان کی برآمدات گرتی رہیں۔ برآمدات میں بنگلہ دیش بھی پاکستان سے آگے نکل گیا ہے۔ (8)موجودہ حکومت کے دور میں قومی تعلیمی پالیسی 2009ء کے مقابلے میں صرف 2015ء میں تعلیم کی مد میں وفاق اور صوبوں نے مجموعی طور پر 1350؍ ارب روپے کم مختص کئے ہیں حالانکہ 5سے 16 برس کے 50.8 ملین بچوں میں سے 24 ملین بچے اسکول نہیں جارہے۔ (9) یہ بات تشویشناک ہے کہ چند ہفتے قبل حکومت نے 2018ء تک ٹیکسوں کی وصولی کے ہدف کو کم کرکے 13فیصد کردیا ہے جو پہلے 15فیصد تھا۔ (10) جنوری 2014ء سے دسمبر 2015ء تک بینکوں کی جانب سے دیئے ہوئے قرضوں کے حجم میں صرف 705؍ ارب روپے کا اضافہ ہوا جبکہ عملاً بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے اسٹیٹ بینک کی معاونت سے بینکوں کے حکومتی تمسکات وغیرہ میں کی گئی سرمایہ کاری کے حجم میں 2568؍ ارب روپے کا اضافہ ہوا جس سے معیشت کی شرح نمو سست ہورہی ہے اور روزگار کے نئے مواقع کم فراہم ہورہے ہیں۔
تازہ ترین