• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محبان اردو کو مبارک ہو۔ ان کی زبان اور مالدار ہوگئی کہ اس میں ایک نئی گالی شامل ہوگئی ہے اور وہ ہے ’ دہری شہریت‘۔کسی کی تضحیک مقصود ہو، کسی کی عزت خاک میں ملانی ہو، دنیا کی نگاہوں میں ذلیل و رسوا کرنا ہو، اُس کے دامن پر دہری شہریت کا داغ لگا دیجئے عمر بھر خوار ہوتا رہے گا، منہ چھپائے چھپائے پھرے گا اور ڈرے گا کہ کسی روز یہ نہ ہو کہ گلی کے لڑکے اس کے پیچھے دہری شہریت کے نعرے لگاتے ہوئے، ہاتھوں میں پتھر اٹھائے دوڑیں۔لفظ اپنا مفہوم کس تیزی سے بدلتا ہے، اپنے حوالے سے کٹ کر اپنے معنی کھو دیتا ہے اور نئے منظر نامے میں وہی پرانا لفظ ایک نیا لبادہ اوڑھ کر کچھ کا کچھ ہوجاتا ہے، حیرت ہوتی ہے۔
پاکستان کے قانون میں دہری شہریت حاصل کرنا جرم نہیں۔ بعض ملکوں میں اس کی اجازت نہیں، وہاں کے لوگ کسی دوسرے ملک کی وفاداری کی قسم کھائیں تو وہ اپنے ملک میں اجنبی ہو جاتے ہیں۔ جہاں تک پاکستان اور پاکستانیوں کا تعلق ہے، انہیں ہر اس ملک کی شہریت اختیار کرنے کے حق ہے جو انہیں اس کی اجازت دیتا ہے۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے پاکستانیوں کو یہ حق دلوانے کے لئے ماضی میں سفارتی جدوجہد ہوتی رہی ہے اور حکومت کی سطح پر اہل پاکستان کے موقف کو سرکاری تائید حاصل ہوئی ہے۔ ابھی چند روز پہلے تک، جب یہ لفظ دشنام طرازی کے زمرے میں نہیں آتا تھا، سمندر پار آباد پاکستانیوں کو باہر رہنے کے باوجود اپنے ملک کے انتخابات میں ووٹ کا حق دینے کی باتیں ہورہی تھیں۔ جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم میں تو ہم نے لندن کے پاکستانی سفارت خانے میں قطار میں لگ کر ووٹ ڈالا تھا۔ وہ زمانہ کسے یاد نہیں کہ لوگ دہری شہریت حاصل کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔ اب صورت یہ ہے کہ اہلِ پاکستان غضب کے سیانے ہوگئے ہیں۔ لفظ سیانے کی جگہ آپ چاہیں تو لفظ عیّار پڑھ لیں۔ دو دو پاسپورٹ لے کر اب ایسی چپ سادھ کر بیٹھے ہیں جیسے کچھ جانتے ہی نہیں۔ کبھی کوئی جیالا اٹھے (جیالا سے باہمّت فرد ہے) اور لوگوں کی جامہ تلاشی لے تو جسے زور زور سے ہلائیں گے ، اسکے وجود سے پکّے پھل کی مانند دو دو پاسپورٹ جھڑیں گے۔ اس میں پردہ نشین اور بے پردہ افراد، سب کے نام آتے ہیں۔ جب تک ہم پر اس طرح کی کوئی تہمت نہیں لگی تھی، ہم اکثر سنا کرتے تھے کہ پاکستان کی معیشت پر غیر ممالک میں آباد پاکستانی جو کروڑوں ڈالر اپنے قومی خزانے کو بھیجتے ہیں۔ پاکستان کے وزیر مالیات سمندر پار آباد پاکستانیوں کو اکثر خراجِ تحسین پیش کرتے رہے ہیں یہاں تک کہ وفاقِ پاکستان میں پوری وزارت قائم ہے جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہم وطنوں کے مفاد کا خیال رکھتی ہے۔ وہ ملک میں آئیں تو ہوائی اڈے پر انہیں خصوصی سہولتیں اور رعایتیں دی جاتی ہیں۔ پھر یہ کیا ہوا کہ اچانک دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کے اس لفظ میں نہ صرف بلا کی تذلیل کا عنصر شامل ہوگیا بلکہ سیاسی مباحثوں میں بظاہر پڑھے لکھے اور باشعور سیاست دانوں کو یہ کہتے سنا گیا کہ ایسے لوگ حلف اٹھا چکے ہیں کہ ضرورت پڑے توملکہ کے حق میں تلوار بھی اٹھائیں گے۔ اطلاعاً عرض ہے کہ یہ مہذب ملک اس طرح کے حلف نہیں اٹھواتے۔ ہم نے تیس سال پہلے جو حلف اٹھایا تھا اس میں جب ملکہ اور ان کے جانشینوں کی وفاداری کی قسم کھائی گئی تھی تو یہ بھی طے ہوا تھا کہ وفاداری قانون سے ماورا نہیں ہوگی یعنی اگر پاکستان اورانگلستان کے درمیان کرکٹ کا مقابلہ ہو رہا ہو تو ہمیں پورا اختیار ہے کہ انگلستانی ٹیم کو جی بھر کر کوسیں اور اس کر حق میں بددعا کریں۔ہم نے جب ملکہ کی وفاداری کا وعدہ کیا، یہ وہ وقت تھا جب ہمارا سبز پاسپورٹ اپنی وقعت کھو رہا تھا ۔ یہ وہ دن تھے جب کراچی سے لندن آنے والے مسافر طیارے کو روم میں بہت دیر ٹھہرنا پڑا اور اعلان ہو ا کہ تمام مسافر شہر روم کی سیر کیلئے ہمارے ساتھ چلیں البتہ پاکستانی پاسپورٹ والے یہیں ہوائی اڈے پر بیٹھ کر ہمارا انتظار کریں۔ ورنہ ہم نے وہ دن بھی دیکھے ہیں جب پورے پینتالیس سال پہلے ہم وہی سبز پاسپورٹ ہاتھ میں تھامے ولایت کے سفر پر یوں نکلے تھے جیسے ہم نہ ہوں، کوئی شاہانہ سواری ہے۔ ہم صحافت کا ایک چھوٹا سا کورس کرنے برطانیہ آئے تھے۔ واپسی کے وقت راہ میں جتنے ملک پڑتے تھے ان میں سے اکثر کو ہم نے لکھا کہ وطن لوٹتے ہوئے ہم تمہاری سر زمین دیکھنا چاہتے ہیں۔ آج یہ کہتے ہوئے خود پر یقین نہیں آتا کہ تمام ملکوں نے لکھا کہ شوق سے آئیے اور ہمیں مہمان نوازی کا شرف عطا کیجئے۔کیسا عجیب زمانہ تھا۔ نہ ویزا، نہ فیس، نہ پوچھ نہ گچھ، نہ شک نہ شبہ۔ اپنا پاکستانی پاسپورٹ دکھاتے ہوئے ہم نہایت شان سے ہالینڈ، فرانس، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ گئے۔ ہر جگہ ایک افسر مہمان داری کو اپنا منتظر پایا اور جب تک ہم اس کے وطن میں رہے، اس نے ہمارا ساتھ نہ چھوڑا اور جتنے مقامات دیکھنے کی ہم نے خواہش ظاہر کی تھی، وہ سارے دکھائے اور میزبان سرکار سے ملنے والے جیب خرچ کا کچھ حصہ بچانے کی تدبیریں بھی سجھائیں۔ صرف ایک ملک تھا جہاں ہم نے پاکستانی پاسپورٹ پر جانے سے صاف انکار کردیا۔ بھارت میں پاکستانی مسافروں کے ساتھ ہونے والے سلوک کا رونا کہاں تک روئیں۔ البتہ جب ہمیں برطانوی پاسپورٹ مل گیا تو ہم بار بار بھارت گئے ۔ مگر یہ عیاشی زیادہ عرصے جاری نہیں رہی۔ بھارت والوں کو اچانک احساس ہوا کہ اس دہری شہریت کے نام پر پاکستانیوں کے مزے آگئے ہیں اور وہ برطانوی بن کر بھارت میں دندناتے پھر رہے ہیں، ان کا کچھ علاج ہونا چاہئے۔چنانچہ انہوں نے ویزا کی درخواست میں یہ پوچھنا شروع کردیا کہ کیا تم کبھی پاکستانی شہری رہ چکے ہو۔ بالکل یوں کہ کیا تمہار ے وجود پر یہ کلنک کا ٹیکہ لگا ہوا ہے۔ بس، ہم مجرم قرار پائے، اجنبی ٹھہرے اور ہمارے ساتھ پردیسیوں والا سلوک ہونے لگا، تفصیل میں جانا فضول ہے۔ خیر، بھارت کامعاملہ جدا ہے برطانوی پاسپورٹ ہاتھ میں ہونے کا اجر یوں ملا کہ جہاں، جس ملک میں، جب جی چاہے، چلے جاتے ہیں اور چونکہ ہم برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے، کسی ملک ، خصوصاً امریکہ بہادر کے ذہن میں یہ خیال نہیں گزرتا کہ ہمارا کوئی تعلق شمالی وزیرستان سے اور کچھ مراسم جنوبی وزیرستان سے رہے ہوں گے۔دہری شہریت کے باوجود اب ہر جگہ ایک تعظیم کا احساس ہوتا ہے۔ نہیں ہوتا تو مملکت خداداد پاکستان میں جہاں کوئی ہم سے خفا ہو جائے تو اپنے ترکش سے وہ تیر نکال کر ہم پرچلائے گا جس پر موٹے موٹے حروف میں لکھا ہوگا ’ دہری شہریت‘۔
تازہ ترین