• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بدھ کے روز کنگ ایڈووڈ میڈیکل یونیورسٹی لاہور میں صحت اور غذا کے موضوع پر منعقدہ قومی سیمینار میں یہ ہوشربا انکشاف سامنے آیا کہ پاکستان میں غذائی قلت کے شکار بچوں کی تعداد خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ اسٹنٹنگ کے موجودہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان بھر میں 44فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں اور حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ فی الفور ہر تعلیمی اور طبی ادارے میں نیوٹریشن آگاہی مراکز کا قیام عمل میں لایا جائے۔ قومی ادارۂ صحت اور برطانوی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی کی ایک رپورٹ کے مطابق 6ماہ سے 23ماہ تک کے محض 15فیصد بچوں کو مناسب غذائی سہولتیں میسر ہیں جبکہ 85فیصد بچے غذائی قلت کا شکار بنتے ہیں۔ پاکستان جیسے زرعی ملک کے لیےیہ نہایت تشویشناک بات ہے کہ بچے جو ملک و قوم کا مستقبل ہیں، غذائی قلت کا شکار ہو رہے ہیں۔ ضلع تھر میں یہ صورتحال سب سےزیادہ تشویشناک ہے جہاں گزشتہ سال 480سے زائد بچے محض غذائی قلت کے سبب کھلنے سے قبل مرجھا گئے۔ خوراک کی کمی بچوں میں نشوونما کی کمی کا سب سے بڑا سبب ہے جبکہ بیشتر والدین بچوں کی نشوونما کیلئے درکار ضروری خوراک کے بارے میں بھی لاعلم ہیں۔ عمومی طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بھوکے رہنے والے بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہوتے ہیں جس سے ان کی نشوونما رک جاتی اور قوتِ مدافعت کم ہو جاتی ہے۔ اگرچہ فاقہ اور بھوک غذائیت میں کمی کے اہم اسباب ضرور ہیں لیکن موٹاپے کا شکار بڑوں اور بچوں میں بھی غذائیت کی کمی پائی گئی ہے کیونکہ خون میں نشاستہ، نمکیات اور کولیسٹرول کی سطح متوازن نہیں رہتی جس کی وجہ سے غذائیت کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔غذائیت کی کمی کے شکار ممالک میں بچوں کو بالخصوص ایسا آٹا فراہم کیا جاتا ہے جس میں وٹامنز اور دوسرے ضروری غذائی اجزاء شامل ہوں۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ فی الفور غذائی کمی کے شکار علاقوں بالخصوص تھر میں اسپیشل آٹا فراہم کیا جائے اور تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے غذائی کمی کا مقابلہ کیا جائے تاکہ بچوں کو صحتمند بنا کر ملک کے مستقبل کو روشن بنایا جا سکے۔

تازہ ترین