• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج جو کچھ لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں وہ بہت پڑھے لکھے عالم و فاضل حضرات کے لئے تو نہیں مگر عام قارئین اور عام تعلیم یافتہ حضرات کے لئے شاید دلچسپی کا باعث ہو گا۔ بہت ہی زیادہ عالم و فاضل حضرات سے مجھے تھوڑا سا خوف آتا ہے کیونکہ ان کے نظریات میں لچک نہیں رہتی۔ وہ ہر مسئلے پر ایک حتمی رائے قائم کر لیتے ہیں جس پر مزید غور کرنا اپنی ہتک سمجھتے ہیں۔ عام طور پر جب غور و فکر اور نظرثانی کے دروازے بند کر لئے جائیں تو انسان اپنے آپ کو عقل کل کے مقام پر فائز کر لیتا ہے اور ہر مسئلے میں اپنی رائے مسلط کرنا اپنا بنیادی حق سمجھتا ہے۔ آپ کو بہت سے لکھاریوں کی تحریروں میں عقل کل کی جھلک نظر آتی ہو گی۔ وہ ہمیشہ اپنی رائے کو حرف آخر سمجھ کر بیان کرتے ہیں اور یوں ظاہر کرتے ہیں جیسے وہ دنیائے اظہار اور سلطنت افکار کے اکبر بادشاہ ہوں، جس کے سامنے کسی کو دم مارنے کی جرأت نہیں ہونی چاہئے۔ میں اس طرح کی ’’آمرانہ تحریریں‘‘ پڑھ کر محظوظ ہوتا ہوں اور ان کی طرز تحریر کی ادبی چاشنی کے لبادے میں پوشیدہ آمریت کو حرف آخر کا درجہ دیتا ہوں۔

اردو ادب کے بہترین افسانہ نگاروں کی فہرست بنائی جائے تو سرِ فہرست چند افسانہ نگاروں میں سعادت حسن منٹو کا نام بہرحال شامل ہو گا۔ میں نے نقوش کے افسانہ نمبروں کے ذریعے بڑے بڑے افسانہ نگاروں کو آج سے تقریباً پانچ دہائیاں قبل خوب پڑھا تھا۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے وہ دور افسانے کے عروج کا دور تھا۔ اردو افسانے کے جتنے عظیم اسمائے گرامی اس دور میں شہرت کے بام پر چمکے پھر وہ مقام بعد میں آنے والوں کو حاصل نہ ہو سکا۔ میں نے یہ فقرہ تحریر کی صورت میں تو نہیں پڑھا لیکن بہت سے عالم و فاضل حضرات سے سنا ہے۔ وہ منٹو کا ایک فقرہ اکثر کوٹ کرتے تھے کہ مجھے ہر پتھر افسانہ لکھنے کی دعوت دیتا ہے۔ تخلیقی ذہن بے شک ہر لمحے تحقیق میں مصروف رہتا ہے، غور و فکر کے مراحل طے کرتا اور خیالات کی تصویریں بناتا اور مٹاتا رہتا ہے لیکن جب کتابی علم کے بوجھ تلے دب کر غور و فکر کے دریچے بند کردیئے جائیں اور اپنے نظریات و خیالات کو ہر لحاظ سے مکمل سمجھ لیا جائے تو پھر نہ اختلافی بات سننے کو جی چاہتا ہے، نہ اپنے تخلیق کردہ فلسفوں پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی مزید تحقیق یا غور و فکر پر طبیعت مائل ہوتی ہے۔ تخلیقی ادب یعنی افسانہ، شاعری، مزاح وغیرہ میں تو ایسا رویہ اپنانا ممکن نہیں لیکن کالم نگار اکثر اوقات یہ روش اختیار کر لیتے ہیں۔ اسی روش کا دوسرا پہلو ٹانگ کھینچنا، اپنی برتری کا اظہار بروزن دعویٰ کرنا اور دوسروں کو کمتر سمجھنا ہوتا ہے۔ رفتہ رفتہ سوچ اور ذہن سراپا منفی ہو جاتا ہے اور پھر ہر طرف محض نقائص، کمزوریاں، بیماریاں اور برائیاں نظر آنے لگتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قدرت کے نظام میں توازن ہے اور توازن زندگی کا گولڈن پرنسپل (اصول) ہے۔ جہاں بدبو ہوتی ہے وہاں خوشبو بھی ہوتی ہے۔ ایک طرف گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں تو دوسری طرف پھولوں کی کیاریاں۔ اسی طرح انسانوں، قوموں اور معاشروں میں نقائص بھی پائے جاتے ہیں اور خوبیاں بھی بدرجہ اتم موجود ہوتی ہیں۔ بعض دیکھنے والی نگاہیں ایسی ہوتی ہیں جو مکھی کی مانند صرف گندگی کے ڈھیر کی جانب جاتی ہیں۔ ان کو انسانوں اور معاشروں میں کوئی خوبی یا وصف نظر ہی نہیں آتا۔ وہ اپنا ذہن، اپنی صلاحیت اور توانائی صرف کمزوریاں تلاش کرنے بلکہ دریافت کرنے پر صرف کر دیتے ہیں اور اسی میں اپنی علمیت، عظمت اور بالاتری سمجھتے ہیں۔ پھر ان کی سوچ مستقل طور پر یک طرفہ، منفی اور تنقیدی روپ دھار کر عقل کل کا مقام حاصل کر لیتی ہے۔ تحقیق میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا۔ نت نئے حقائق، نیا مواد اور نئے ڈاکومنٹس سامنے آتے رہتے ہیں۔ چنانچہ تحقیقی ذہن نہ عقل کل کا مریض ہوتا ہے نہ اپنی رائے کو حتمی درجہ دے کر دوسروں پر مسلط کرنے کا خواب دیکھتا ہے۔ کامیاب کالم نگاری کا وصف تنقید اور تنقیص سمجھا جاتا ہے۔ جو قلم جتنا بڑا ہتھوڑا مارے یا گردن زدنی کرے یا مبالغہ کرے اسے اسی قدر ’’بڑا‘‘ اور بہادر قلم سمجھا جاتا ہے۔ ایسے قلم کی گزند پہنچانے کی صلاحیت(Nauisance Value) سے حکمران اور سیاست دان عام طور پر خوفزدہ رہتے ہیں چنانچہ ان لکھاریوں کی انا ترقی کی منزلیں طے کرتی کرتی کے ٹو کی چوٹی پر براجمان ہو جاتی ہے۔ وہ بولتے ہیں تو مجروح کرتے بلکہ ٹکڑے ٹکڑے کرتے چلے جاتے ہیں اور اختلاف کی آواز کو حقیر سمجھ کر دھتکار دیتے ہیں۔ نفس اور انا انسان کے خفیہ دشمن ہیں بلکہ شیطانی اوصاف کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انا انسان میں غرور، تکبر اور احساس بالاتری پیدا کرتی ہے جبکہ نفس ہر قسم کی شیطانی خواہشات کو تیز تر کرتا رہتا ہے۔ عام طور پر یہ روحانی امراض اور ذہنی احساسات شہرت، دولت اور اختیار (Power)سے جنم لیتے اور وقت کے ساتھ بڑھتے چلے جاتے ہیں اس لئے یہ بیماریاں عام طور پر سیاست، صفت اقتدار اور صحافت (میڈیا) کے میدانوں میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ بیوروکریسی کا غرور، تکبر، احساس برتری اور تحقیر آمیز انداز اختیار (پاور) سے پھوٹتا ہے جبکہ میڈیا کا غرور و تکبر شہرت سے جنم لیتا ہے۔ روحانی اور ذہنی امراض پر قابو پانے یا ان امراض سے شفا پانے کے لئے کڑی خود احتسابی ناگزیر ہے۔ ہمارے دین میں خود احتسابی پر اسی لئے زور دیا گیا ہے اور اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ہر لمحہ اپنا احتساب کرتے رہو اگر ایسا ممکن نہ ہو تو رات سونے سے قبل دن بھر کے کارناموں کا کڑا احتساب کرو، اپنی کمزوریوں پر تنقیدی نگاہ ڈالو اور اپنی غلطیوں سے سبق سیکھو۔ دراصل یہ تکبر، ہوس، انا، احساس برتری وغیرہ وغیرہ انسانی کمزوریاں ہیں، جنہیں لوگ اپنی شخصیت کا وصف سمجھتے اور طاقت بنا لیتے ہیں۔ روحانی دنیا یا روحانی کتاب کا پہلا سبق ہی نفس کشی ہے۔ نفس کو اپنا مطیع وفرمانبردار بنانا روحانی کائنات کا پہلا قدم ہے۔ مجاہدات بھی نفس کی سرکشی، غرور و تکبر کے بت ریزہ ریزہ کرنے اور اپنے اندر نرمی، ملائمت، خدمت اور حسن اخلاق پیدا کرنے کے لئے کروائے جاتے ہیں۔ خود احتسابی پاکیزگی کے عمل کی پہلی سیڑھی ہے بشرطیکہ خود احتسابی کے عمل کو شیطانی فریب سے محفوظ رکھا جائے کیونکہ شیطان بعض اوقات خود احتسابی کو خود فریبی میں بدل دیتا ہے۔ یہ بذات خود ایک اہم موضوع ہے۔ اِن شاء اللہ پھر کبھی۔

نوٹ:کچھ مہربانوں نے جواب نہ ملنے کی شکایت کی ہے۔ قارئین کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ مجھے جنگ کے ذریعے لکھے گئے خطوط یا جنگ کی معرفت بھیجی گئی ای میلز نہیں ملتیں۔ ای میل ایڈریس میری تصویر تلے دیا گیا ہے لیکن آج تک ان تک رسائی حاصل کرنے کے لئے پاسورڈ نہیں دیا گیا۔

تازہ ترین