• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حضورِوالا! آپ نے جو فرمایا، وہ سب قوم کا سرمایہ۔ آپ کے منہ سے نکلے ہر لفظ کو قانون کا درجہ حاصل ہے۔ آپ نے برطانوی ڈکٹیٹر اولیور کرام ویل کے ٹرائل کی مثال دیکر قوم کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی اور بتایا کہ مہذب اقوام کے ہاں اس طرح کے قومی مجرموں کا کیا انجام ہوا کرتا ہے۔ میں چاہوں گا کہ انسانی تاریخ کے اِن انمٹ نقوش کی تفصیل سے پڑھنے والوں کو آگاہ کیا جائے۔ 17ویں صدی میں برطانیہ بادشاہت سے جمہوریت کے ارتقائی سفر کی طرف گامزن تھا۔ شاہ چارلس نے پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا، جس پر جمہوری جدوجہد کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ پارلیمنٹ نے ان احکامات کو ماننے سے انکار کر دیا۔ پارلیمنٹ نے شاہی دستوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی فوج تشکیل دی، جس کی قیادت اولیور کرام ویل نے سنبھالی۔ لیفٹیننٹ جنرل اولیور کرام ویل کی قیادت میں جمہوریت پسندوں کو کامیابی نصیب ہوئی اور 30جنوری 1649کو شاہ چارلس کا سر قلم کر دیا گیا۔ توقع تو یہ تھی کہ اس فقید المثال کامیابی کے بعد جمہوریت کی صبح خوش جمال کا سورج طلوع ہو گا لیکن ایک بار پھر آمریت کا گرہن لگ گیا۔ جنرل اولیور کرام ویل نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور پارلیمنٹ کی خود مختاری کا مذاق اڑایا۔ 3ستمبر 1658کو جنرل اولیور کرام ویل ملیریا کے باعث مر گیا تو اس کے بیٹے رچرڈ نے اقتدار سنبھالا۔ عوامی بغاوت کے نتیجے میں رچرڈ کو معزول ہونا پڑا تو جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے شاہ چارلس دوم کو بلا کرعنانِ اقتدار اُس کے حوالے کر دی گئی۔ پارلیمنٹ میں مطالبہ ہوا کہ کرام ویل کا ٹرائل کیا جائے تو یہ سوال کھڑا ہوا کہ مرُدے سے سوال جواب کیسے کئے جا سکتے ہیں؟ اس پر قانونی ماہرین نے یہ رائے دی کہ کرام ویل کی ہڈیاں نکال کر ان سے سوالات کئے جائیں اور جب ان کی طرف سے کوئی جواب نہ آئے تو اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ اولیور کرام ویل نے اپنا جرم قبول نہیں کیا۔ اس کے بعد عدالت فیصلہ سنائے۔ چنانچہ اولیور کرام ویل کی قبر کھود کر اس کے ڈھانچے کو زنجیروں میں جکڑ کو کٹہرے میں لایا گیا۔ اسے فردم جرم پڑھ کر سنائی گئی۔ جواب نہ ملنے پر خاموشی کا یہ مطلب لیا گیا کہ ملزم نے صحت جرم سے انکار کیا۔ ٹرائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے پھانسی کی سزا سنا دی تو علامتی طور پر اس کا سر قلم کر کے باقیات پھینک دی گئیں جبکہ کھوپڑی نشان عبرت کے طور پر پارلیمنٹ کے باہر ایک کھمبے سے لٹکا دی گئی۔

حضورِوالا! یوں لگتا ہے جیسے ان انگریزوں کے برعکس ہم اپنے ڈکٹیٹرز سے بہت پیار کرتے ہیں۔ ہم گوروں کی طرح کم ظرف نہیں جنہوں نے شعور بیدار ہونے پر کرام ویل کی ہڈیاں قبر سے نکال کر اس کا ٹرائل کیا یا پھر شاہ چارلس اول کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔ ہم تو وضعدار، رحم دل اور بامروت لوگ ہیں۔ ہم رومانیوں کی طرح منتقم مزاج اور سنگدل بھی نہیں، جنہوں نے اپنے ڈکٹیٹر نکولی چائو شسکو کو مختصر ٹرائل کے بعد فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کر کے گولیوں سے بھون ڈالا۔ ہم ایرانیوں کی طرح پتھر دل بھی نہیں جنہوں نے رضا شاہ پہلوی کو مرنے کے بعد بھی وطن واپس آنے کی اجازت نہ دی۔ ہم فرانسیسیوں جیسے جلاد صفت بھی نہیں جنہوں نے شاہ لوئی ششم کو گلوٹین سے مار ڈالا۔ ہم روسیوں کے مثل بے رحم بھی نہیں جنہوں نے زار نکولس دوئم کو پھانسی دیدی۔ چاڈ کے ڈکٹیٹر حسینی ہبرے گزشتہ سترہ برس سے سینیگال میں پناہ لئے ہوئے ہیں، ان کو واپس لانے کی کوششیں بار آور ثابت نہ ہوئیں تو چاڈ کی عدالت نے غیر حاضری میں ہی موت کی سزا سنا دی۔ مالی کے ڈکٹیٹر جنرل موسیٰ تروڑا کو منتخب حکومت کا تختہ الٹنے پر حراست میں لیا گیا تو عدالت نے 12ہفتے میں مقدمے کی سماعت مکمل کر کے سزائے موت سنا دی۔ یونان کے ڈکٹیٹر جارج پاپڈو پولس کو دو برس قبل سزا سنائی گئی۔

حضورِوالا! ہم نے تو جنرل ایوب خان کو پورے پروٹوکول سے رخصت کیا، جنرل یحییٰ خان کو قومی پرچم میں لپیٹ کر لحد میں اتارا گیا، جنرل ضیاء الحق قومی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر دیکر رخصت کیا گیا۔ آپ نے درست فرمایا، عدلیہ کیساتھ کھلواڑ ہوتا رہا۔ ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو عدالت طلب کیا جاتا تو اس کی گاڑی اسپتال کی طرف مُڑ جاتی۔ اکبر بگٹی کیس ہو یا لال مسجد کا مقدمہ، عدالتیں ملزم کو طلب کرنے کے لئے نوٹس جاری کرتی رہیں مگر طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا ملزم نے ایک بار بھی حاضر ہونے کا تردد نہ کیا۔ بالعموم عدالتیں مفرور ملزم کو اس کی عدم موجودگی میں سزا سنا دیتی ہیں مگر اس لاڈلے ملزم کو حاضر نہ ہونے کے باوجود باعزت بری کر دیا گیا۔ جنرل (ر) حمید گل، حق مغفرت کرے، للکارتا رہا کہ میں نے IJI بنائی، میرا ٹرائل کرو لیکن کوئی اس کا بال بھی بیکا نہ کر سکا۔ ہاں البتہ ان طاقتور لوگوں کے برعکس برق گرتی رہی تو بیچارے سیاستدانوں پر جو عدالتی احکامات کو من وعن تسلیم کرتے چلے آئے ہیں۔

حضورِ والا !آپ کے ارشاداتِ عالیہ کو سنہرے حروف سے لکھنے کی خواہش ہے لیکن کیا کروں یادِ ماضی عذاب ہے یارب۔ چند ماہ ہوتے ہیں، ایک ’’بابا جی‘‘ نے قبروں سے ہڈیاں نکال کر ٹرائل کرنے کی بات کی تھی۔ تب بھی میں نے داد وستد کے ڈونگرے برسانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی لیکن جب ’’باباجی‘‘ رخصت ہوئے تو معلوم ہوا کہ اسرار و رموز میں لپٹی اس پہیلی کا مطلب کیا ہے۔ وہ شاید یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ فی الحال اس ڈکٹیٹر کو کچھ نہ کہیں، اسے اپنے ضمیر کی آگ میں جلنے دیں۔ جب یہ دنیا سے رخصت ہو جائیں گے تو پھر ان کی ہڈیاں نکال کر کرام ویل کی طرح ٹرائل کریں گے تو نئی تاریخ رقم ہو گی۔

حضورِ والا! گڑے مردوں کو اکھاڑنے اور ایک دوسرے کو لتاڑنے سے کیا حاصل؟ ماضی میں سب سے غلطیاں ہوئیں۔ جیمز رسل نے کہا تھا، محض مُردے اور بیوقوف اپنی رائے تبدیل نہیں کرتے وگرنہ زندوں کی دنیا تو تغیر و تبدل سے بھرپور ہوا کرتی ہے۔ کم ظرف لوگ اپنی غلطیوں پر ڈٹ جاتے جبکہ اعلیٰ ظرف اپنی غلطیوں کا اِدراک ہونے کے بعد محض اصلاح ہی نہیں کرتے بلکہ ازالہ کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ ہم سب کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر اپنی غلطیاں سُدھارنے کا ایک موقع ضرور ملتا ہے۔ ہمیں آپ سے اعلیٰ ظرفی کی توقع ہے، امید ہے کہ ڈکٹیٹر کے ٹرائل کے لئے اس کے مرنے کا انتظار نہیں کیا جائے گا اور اس مختصردور میں ادارے کی شان و شوکت بحال ہو گی۔ بھٹو کے ٹرائل کے دوران فرانسیسی وکیل موسیو رابرٹ باڈیز نے کہا تھا ’’History will judge the judges‘‘ تب سے اب تک تاریخ کے اس ٹرائل کا سلسلہ جاری ہے، اس سے پہلے کہ تاریخ کوئی فیصلہ دے، فیصلہ کرنا ہو گا۔

تازہ ترین