• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قاضی حسین احمد یہ تعارف اپنی جگہ کہ وہ جماعت اسلامی کے مسلسل چار بار امیر رہے، قومی اسمبلی، سینیٹ کے رکن رہے، ملی یکجہتی کونسل اسلامک فرنٹ کے چیئرمین رہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسی قدر آور دینی، سیاسی اور سماجی شخصیت تھے کہ اب ان سا کون اور بنیں۔ تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود وہ ملک کے لئے قابل احترام تھے، ان کا سب سے بڑا حسن یہ تھا کہ وہ بہت بڑے عاشق رسول ،عظیم محب وطن، سچے، اجلے اور عوام کا درد رکھنے والے انسان تھے اگرچہ ان کی عمر74سال تھی لیکن ان کا عزم و حوصلہ جوانوں کا سا تھا اور آخری دم تک ملک میں جمہوریت اور اسلام کی سربلندی کے لئے فعال و متحرک رہے۔
انہوں نے مولانا سید ابواعلیٰ مودودی  کی فکر و مشن کے مطابق عالم اسلام کی اسلامی تحاریک کے لئے ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ جہاد افغانستان میں بھرپور حصہ لیا اور کشمیر کی آزادی کے بہت بڑے نقیب تھے۔ راقم ا لحروف سے ان کی ایک عمر کی شناسائی تھی۔ بڑی شفقت فرمایا کرتے تھے۔ ان سے اخبار نویس کی حیثیت سے قریبی تعلق رہا۔ محب وطن حلقوں کے مطابق قاضی حسین احمد کا سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے جماعت اسلامی کو مضبوط عوامی جماعت بنادیا۔ بینظیر حکومت کے خلاف قاضی حسین احمد نے1996ء میں دو بار اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ پہلی بار پولیس اور کارکنوں کے درمیان تصادم میں3کارکن شہید بھی ہوئے۔مولانا شاہ احمد نورانی  بھی ان کے ہم سفر تھے اور دونوں کے درمیان ایسی ہم آہنگی پیدا ہوئی جو آخری دم تک قائم رہی۔ ان کی امارت کے ہی دور میں ایم ایم اے کی موجودہ خیبر پختونخوا میں حکومت بھی قائم ہوئی اور وہ ایک مثالی جمہوری اسلامی حکومت تھی۔مولانا مودودی کے داماد ڈاکٹر آصف ریاض قدیر اور ہم نے قاضی صاحب قبلہ سے رابطہ کرکے یہ طے کیا کہ تین ماہ میں ایک بار قاضی صاحب کے ساتھ سینئر صحافیوں کی ایک نشست کا اہتمام کیا جائے گا۔ ڈاکٹر آصف نے چند روز قبل یہ اطلاع دی کہ قاضی صاحب نے اس تجویز پر پسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور یہ طے پایا کہ فروری کے پہلے ہفتہ میں عشائیہ دیا جائے گا لیکن کسے معلوم تھا کہ اس سے قبل ہی قاضی صاحب ہمیں اور اس قوم کو تنہا چھوڑ کر اپنے رب کی جانب واپس چلے جائیں گے جہاں ایک نہ ایک دن ہم سب نے واپس جانا ہے لیکن عظیم ہیں وہ لوگ جب بچھڑتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ نبض کائنات تھم گئی ہے، ایک خلاء پیدا ہوگیا ہے اور قاضی صاحب کے جانے سے تو ایسا خلاء پیدا ہوا ہے جو کبھی پر نہیں ہوسکے گا۔ بہت سے لوگ آئیں گے لیکن ان میں قاضی صاحب سا کوئی نہیں ہوگا۔ قاضی صاحب کا ایک حسن یہ بھی تھا کہ کسی بات پر اگر ناراض ہوتے تو جلدی اسے دور بھی کردیتے تھے۔
ایک بار حکمران وقت کی جانب سے جماعت کے حوالے سے ایک اشتہار شائع کیا گیا اس پر قاضی صاحب اتنے ناراض ہوئے کہ عدالت میں مقدمہ دائر کردیا۔ کسی نے مجھ سے کہا کہ وہ قاضی صاحب قبلہ سے بات کرکے ان کو صلح صفائی پر راغب کردے۔ پہلے میں نے معذرت کی لیکن جب اصرار ہوا تو منصورہ میں قاضی صاحب قبلہ کے پاس حاضر ہوا، میں نے زندگی میں پہلی بار انہیں شدید غصہ میں دیکھا لیکن یہ ان کی شفقت تھی کہ انہوں نے میری بات سنی لیکن جب ملکی حالات خراب سے خراب تر ہوئے تو قاضی صاحب نے ”انہیں معاف “ بھی کردیا۔ وہ ایسے عظیم رہنما تھے جنہوں نے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور سب سے اہم یہ کہ آج کے دور میں جب سیاستدانوں پر ہر طرف سے انگلیاں اٹھ رہی ہیں ان کا دامن صاف تھا، ان کی وفات سے ملک نہیں، عالم اسلام ایک بڑے رہنما ، ایک عظیم انسان سے محروم ہوگیا ہے۔
تازہ ترین