• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حوریہ ایمان

بہت دنوں کی بات ہے، کسی ملک کے ایک انصاف پسند بادشاہ کا وزیر مرگیا۔ وہ بہت عقل مند اور نیک انسان تھا، جو بادشاہ کو رعایا کی بھلائی کے لیے اچھے مشورے دیتا تھا۔ بادشاہ اس کو بہت عزیز رکھتا اور اس پر مکمل بھروسا کرتا تھا۔ بادشاہ کو اس کی موت کا بہت افسوس تھا۔ بادشاہ کو ہی نہیں بلکہ اس ملک کے عوام کو بھی وزیر کی موت کا غم تھا۔

بادشاہ اپنے درباریوں میں سے کسی کوبھی اپنا وزیر بناسکتا تھا ، لیکن اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے ملک کے ہی کسی عقل مند آدمی کو وزیر بنائے گا۔ بادشاہ اپنے ایک وفادار ملازم کے ساتھ رات کو بھیس بدل کر اپنی رعایا کے حالات جاننے کے لیے نکلتا تھا۔ایک دن آدھی رات کے وقت وہ شہر کی ایک گلی سے گزررہا تھاکہ اندھیرے کی وجہ سے ایک آدمی سے ٹکڑا گیا۔ بادشاہ نے پوچھا،تم کون ہو اور رات کے وقت یہاں کیا کررہے ہو؟

اس شخص نے جواب دیا,میں اس شہر کاایک شریف انسان ہوں ۔ دوسرے شہر سے سفر کر کے واپس آرہا ہوں۔

بادشاہ شہر میں گھوم پھر کر اپنے محل پہنچا اور دوسرے دن اس نے حکم جاری کیا کہ شہر میں رات کے وقت ہر شخص ہاتھ میں چراغ لے کر نکلاکرے۔ جو شخص ایسا نہیں کرے گا، اسے سخت سزادی جائے گی۔

کچھ دنوں بعد بادشاہ رات کے وقت شہر کی ایک گلی سے گزررہاتھاکہ وہ پھرایک آدمی سے ٹکرا گیا۔ بادشاہ کو بہت غصہ آیااور اس نے پوچھاتم کون ہواور اس وقت یہاں کیاکررہے ہو ؟

جناب ! میں اس شہر کاایک معززآدمی ہوں اوربے وقوفوں کو عقل سکھلاتا ہوں۔

بادشاہ نے پہچان لیا کہ یہ وہی شخص ہے، جو چنددن قبل اس سے ٹکرایا تھا۔’’کیا تم نے بادشاہ سلامت کا حکم نہیں سنا کہ رات کے وقت ہرآدمی ہاتھ میں چراغ لے کرنکلاکرے۔ تم نے بادشاہ کے حکم کی تعمیل نہیں کی‘‘، اس لیے تم کو سخت سزا ملے گی ۔ بادشاہ نے غصے سے کہا۔

’’جناب والا ! میرے ہاتھ میں چراغ ہے، آپ دیکھ سکتے ہیں، ‘‘اس آدمی نے جواب دیا ۔

’’مگر یہ روشن کیوں نہیں ہے ؟ ‘‘ بادشاہ نے پوچھا۔

’’جناب والا ! بادشاہ سلامت کے حکم میں صرف اتنا ہے کہ ہر آدمی ہاتھ میں چراغ لے کر چلے ۔ یہ حکم نہیں دیا کہ اس میں تیل بھی ہواور وہ روشن بھی ہو‘‘۔

بادشاہ حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس آدمی نے پھر کہا،میرا خیال ہے کہ بادشاہ کے دربار میں عقل مند وزیروں کا قحط ہے ،ورنہ ایسا حکم صادرکرنے سے پہلے وہ بادشاہ سلامت کی توجہ دلاتے اور یہ اعلان کراتے کہ’’ رات میں نکلنے والے کے ہاتھ میں روشن چراغ ہو،‘‘میری دعا ہے کہ خدا ہمارے بادشاہ سلامت کو ایک عقل مند وزیرباتدبیرعطا فرمائے‘‘ ۔

بادشاہ یہ بات سن کر دل ہی دل میں اس شخص کی عقل مندی سے بہت مرعوب ہوا وہ اس آدمی کے ساتھ ساتھ چلنے لگااور باتوں میں اس کے بارے میں ذاتی معلومات حاصل کرلیں۔

بادشاہ نے پوچھا،’’تمھارا پیشہ کیا ہے ۔ ‘‘

اس نے جواب دیا،’’محترم، میں ایک استاد ہوں۔ اس کے علاوہ بہت سے علوم حاصل کر چکا ہوں۔ میرے استاد نے مجھ سے کہا تھا کہ علم ہی انسان کو عقل مند بناتا ہے۔ باتیں کرتے کرتے اس عقل مند انسان کا گھرآگیا اور وہ رخصت ہوگیا۔ بادشاہ نے اس کے مکان اور محلے کو ذہن نشین کرلیااور اپنے محل میں واپس چلاگیا۔

دوسرے دن بادشاہ نے اپنےدرباریوں کو حکم دیا کہ اس عقل مند انسان کو عزت کے ساتھ ہمارے حضور پیش کیا جائے ۔

بادشاہ اس کی گفتگو اور عالمانہ باتیں سن کر بہت خوش ہوا اور اس کو اپنا وزیر بنالیا۔ اس وزیر نے بادشاہ کو بہت اچھے اور مفید مشورے دیے۔ بادشاہ نے حکم دیا کےملک کے ہر شہر میں زیادہ سے زیادہ مدارس قائم کیے جائیں اور وہاں بچوں کومفت تعلیم دی جائے، تاکہ ہمارے ہاں تعلیم یافتہ اور عقل مند نسل پروان چڑھےاور گلی کوچوں میں رات کو روشنی کرنے کے لیے تیل کےچراغ لگائیں جائیں،تاکہ رات میں آنے جانے والوں کو اندھیرے کی وجہ سے دشواری نہ ہو۔ 

تازہ ترین