پاکستان کی جنگجویانہ سیاسی تاریخ کے طاقتور رہنما و سیاسی کارکن خواجہ رفیق شہید کے دونوں صاحبزادے خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق ان دنوں نیب مقدمات کی بنا پر ایام اسیری بھگت رہے ہیں۔
جہاں تک یاد پڑتا ہے، فروری 2018کے کسی دن عزیزم سعد رفیق کی جانب سے میو گارڈن لاہور میں ایک تقریب بہر ملاقات کا اہتمام کیا گیا تھا، اُس تقریب کی صدائے بازگشت اچانک ذہن میں گونج اٹھی ہے۔ رودادِ تقریب لکھتے وقت اُن دنوں عرض کیا تھا۔ ’’مولانا ابوالکلام آزاد کے ایک انمٹ تاریخ ساز قول نے قلب حزیں کو جکڑ لیا ہے، وہ قول جب انہوں نے کسی عدالتی بیان میں کہا تھا ’’می لارڈ! دنیا کی سب سے بڑی بے انصافیاں عدالتوں ہی میں ہوتی ہیں‘‘۔
مجلس متذکرہ میں جاری مکالمے کے دوران عزیزی سعد نے کالم نگار سے پوچھا ’’آپ کی موجودہ قومی منظر کے حوالے سے کیا رائے ہے؟ راقم الحروف کی زبان سے بے ساختہ جواب ادا ہوا ’’آپ سے گزشتہ ملاقات میں عرض کر چکا ہوں، ’’انہوں نے جمہوریت کی قومی ہٹی نہیں چلنے دی، وہی جواب اب بھی ہے، اس پر ایک حرف ایک نقطے کے اضافے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی‘‘۔ آج نواز شریف کی بیماری پر متبذل طبائع کے لوگ ان پہ اخلاقی باختگی کی سیاہی میں ڈھلی ہوئی ذہنی آلودگیاں انڈیل رہے ہیں، شہباز شریف کے امراض ہی نہیں عدالتی پیشیاں بھی ان کے ساتھ چپک کے رہ گئی ہیں، بقیہ سعد رفیق اور سلمان رفیق زندان کے مکیں ہیں۔ رہے نام اللہ کا۔
فروری 2018کے ان دنوں میں ہی سعد نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر جاری کردہ ایک پیغام میں کہا تھا ’’مسلسل 70برسوں سے جمہوریت پسندوں کو غدار اور چور قرار دے کر ملکی سالمیت کے لئے خطرہ قرار دیا گیا مگر ہر بار موقع ملنے پر عوام نے ووٹ ان جمہوریت پسندوں کو ہی دیا، الیکشن ہوا تو اس بار بھی یہی ہو گا، پیارے منصفو اور محسنو! اب بس بھی کر دو، خدارا پاکستان کو چلنے بھی دو۔
یاد پڑتا ہے، فروری 2018کی اس پریس گیٹ ٹو گیدر میں سعد نے یہ بھی بتایا تھا ’’ہماری والدہ جرنیلی مزاج رکھتی تھیں، ہمیں وہ شیر کی آنکھ سے دیکھتیں، سونے کا نوالہ تو یاد نہیں البتہ ان کے ہاتھوں سے دیا گیا ہر لقمہ حلال ابدیت کی پیداوار ضرور تھا‘‘۔ پاکستان کی جنگجویانہ سیاسی تاریخ کے طاقتور رہنما سیاسی کارکن خواجہ رفیق شہید کے چھوٹے صاحبزادے اور سعد کے چھوٹے بھائی خواجہ سلمان رفیق بھی بندی خانے میں ان کے ہم رکاب ہیں، یہ علیحدہ بات ہے وہ دھیمی مگر پُر عزم طبیعت لے کر آئے ہیں، سعد رفیق البتہ ’’ن‘‘ لیگ کے HAWKSکا سب سے نمایاں چہرہ قرار پائے، ان کے عزم ارادہ کا سراپا مسئلہ بداماں سے کم کبھی نہیں رہا نہ ہے، گو سعد رفیق اب خود کو اس صف میں یاد کیا جانا ضروری نہیں سمجھتے نہ ہی اس معاملے میں وہ کسی احساس برتری کا شکار ہیں۔
خواجہ سعد رفیق کی سیاسی زندگی کے نشیب و فراز، گھاٹیوں، اترائیوں اور کھائیوں کو شمار کرتے اور سنانے سے کرب آمیز احتجاجی لہجے کی تحریر کو مہمیز ملتی ہے، اپنی کہانی کا ایک قصہ اس وقت سعد نے یوں بیان کیا تھا۔ ’’قریب قریب 20برس ہونے کو آئے ہیں ’’مہربانوں‘‘ کو ’’آشیانہ ہائوسنگ اسکیم‘‘ کی کہانی، پنجاب حکومت کے اس گناہ سے شروع ہوتی ہے جب اس نے برسوں سے مقامی بدمعاشوں کے قبضے سے 300کنال اراضی واگزار کرائی۔ہمیں قومی سیاست میں آئے 33سے 36برس ہونے کو آئے، تین دہائیوں سے زائد کی اس مدت میں کوئی ایک گرفتاری ایسی بتا دو جو ’کرپشن یا قبضے‘ کے حوالے سے عمل میں لائی گئی ہو، پھر کیوں ہاتھ دھو کر ہماری جان کو آئے ہوئے ہو؟
’’جیل جانا سیاستدان کی ’’آنر‘‘ ہے لیکن تم لوگ اسے چور، ڈاکو اور لٹیرا ڈیکلیئر کر کے جیل بھجوانے پر بضد ہو، اس کی شخصیت کے وقار کی تدفین کرنا چاہتے ہو، ہم دونوں بھائیوں نے 90لاکھ تک ٹیکس دیا ہے، عجیب انوکھے قسم کے لٹیرے انہوں نے تلاش کئے ہیں۔ میں نے زندگی جدوجہد کی آشائوں اور گپھائوں میں گزاری ہے، ’’انہیں‘‘ یاد رہے میں نے زندگی کی شروعات سمن آباد موڑ پر نان حلیم کھا کر کی ہوئی ہے، ہم اس دھرتی میں رچے ہوئے ہیں، روٹین میں زندگی کرتے کرتے جس ذہنی بانجھ پن کی حرماں نصیبی ان ’’مہربانوں‘‘ کا مقدر بن جاتی ہے، اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں، ہم اقبال کے پورم پور شاہین نہ سہی لیکن جھپٹنا اور جھپٹ کر پلٹنا ہمارا قومی شعار ہے، ہم جسماً و ذہناً زندہ لوگ ہیں، وہ مردہ لوگ نہیں جن کے چہرے پر انسانوں کو اذیت دینے کے سبب زرد رو پیڑیاں جمی ہوتی ہیں۔ انہیں ہم لوگوں کے خاندانی اور سیاسی DNAکا ریکارڈ حاصل کرنا چاہئے، جس سے سو فیصد یقین کی حد تک فرق کا تعین ہو جائے گا۔
خواجہ برادران کی داستان کو پاکستان میں جمہوری المیہ کا عنوان بھی دیا جا سکتا ہے، ابھی تک ہماری قومی تاریخ کے آخری سرے پر آخری سچائی کیا ہے، یہ کہ ’’انہوں‘‘ نے جمہوریت کی آئینی گاڑی ہمواریت کے اصول کی بنیاد پر نہیں چلنے دی، قوم کو عارضی اور وقتی بڑے بڑے اخلاقی مکالموں کے نرغے میں رکھ کر ادھ موا کرتے رہنا ہے، قومی جمہوری قوتیں مزاحمت جاری رکھیں، یہ اب تک چار پانچ نسلوں کی آئینی زندگی ’’ہڑپ‘‘ کر چکے مگر انجام کار ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کی فتح اور ان کی ’’شکست فاش‘‘ قانون قدرت کی کتاب میں لکھی ہے۔ ان شاء اللہ۔
قدرت کا سلوگن تو ہے ’’ہمیشہ بلند رہو اور آگے بڑھتے رہو‘‘ تاہم عفریتوں کی آنکھیں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے تعاقب میں ہیں، 26مارچ سے شروع ہونے والا بلاول ٹرین مارچ اس تعاقب کی رفتار کو برق رفتار کر دے گا، لگتا یوں ہے ’’خواجہ برادران‘‘ کو عوام کی نظر میں ایک ’’مسلمہ خطا کار‘‘ کے روپ میں منوانا کامیاب نہیں ہو سکے گا۔