• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ میں بروکنگ انسٹیٹیوٹ نامی تھنک ٹینک دنیا بھر میں مانا جاتا ہے۔ اس ادارے میں مختلف امور کے ماہرین اپنی رائے دیتے ہیں۔ مقالے لکھتے ، بحث کرتے اور مستقبل کے بارے میں نتیجے اخذ کرتے ہیں۔اس تھنک ٹینک میں سابق امریکی صدر کے مشیر بروس ریڈل بھی کام کرتے ہیں۔ بروس ریڈل چار سابق امریکی صدور بش سینئر ، بل کلنٹن ، بش جونیئر اور اوباما کے ساتھ کام کرچکے ہیں۔ یہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے میں جنوبی ایشیا اور دہشتگردی کے امور کی مختلف حیثیتوں میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ یہ صاحب پاکستان ، بھارت ، افغانستان ، ایران کے متعدد دورے کرچکے۔ ان ممالک اور ان کے مسائل کو خوب جانتے ہیں۔آجکل ریٹائرمنٹ کے بعد بروکنگ انسٹیٹیوٹ میں لکھنے پڑھنے اور سوچ وبچار کا کام کرتے ہیں۔ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی رائے کو امریکہ ہی نہیں دنیا بھر میں بڑے غور سے سنا جاتا ہے۔ بروس ریڈل سے میرا پہلا جامع تعارف ان کی کتاب The Search for Al.Qaeda کے ذریعے ہوا تھا۔ میرے خیال میں القاعدہ اور طالبان کے اہم رہنمائوں کی زندگیوں سے متعلق اس سے بہتر کوئی کتاب نہیں جو معلومات کے خزانے اور تجزئیے کی مہارت کے ساتھ لکھی گئی ہے۔ اس کتاب کے آخر میں دنیا بھر میں دہشتگردی کے مسئلے کے حل کے لیے بروس ریڈل نے چند سفارشات بھی مرتب کیں۔ ان سفارشات میں ریڈل نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ جنوبی ایشیا میں امن کے مستقل قیام کے لیے مسئلہ کشمیرحل کرے جبکہ مشرق وسطی میں قیام امن کے لیے فلسطین کا مسئلہ بھی حل کیا جائے۔ بروس ریڈل کو عام طور پر پاکستان کا ناقد کہا جاتا ہے مگر انہوں نے کتاب میں وہ سفارشات کیں جو پاکستان کے دیرینہ مطالبات کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس کے بعد پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے ان کی ہی ایک کتاب

Deadly Embrace

اور پھر ایک اور کتاب

Avoiding Armageddon, America, India and Pakistan to the Brink and Back

بھی مارکیٹ میں آئیں۔ پاکستان کے معاملات کو عالمی نظر سے دیکھنے کے لیے یہ کتب بڑی معلومات اور تجزئیے کی حامل ہیں۔ کہتے ہیں آپ جو تلاش کرتے ہیں آپ کو وہی ملتا ہے۔ اگر تلاش درست رکھیں تو آپ کوراستہ اور روشنی ضرور ملتی ہے۔ جو لوگ ہر وقت سازش اور بے ایمانی کی طاق میں رہتے ہیں انہیں کتابوں اور معلومات سے بھی سازش اور بے ایمانی کی بوہی آتی ہے او ر وہ یہ بو حاصل کرکے پہلے سے پراگندہ ماحول کو مزید آلودہ کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے ٹی وی چینلز پر بیٹھے اکثر افلاطون اسی بیماری کا شکارہیں۔ جو لوگ تحریروں سے گیان تلاش کریں تو انہیں گیان ہی ملتاہے۔ باقی مرضی آپ کی ہے آپ تلاش کیا کرتے ہیں اور آپ کی منزل کیا ہے کیونکہ تلاش منزل سے ہی تعلق رکھتی ہے۔ کچھ سال پہلے بروس ریڈل نے اوپر درج کتاب میں لکھا تھاکہ ، پاکستان نے اپنا وتیرہ نہ بدلا تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ پاکستان کو شدید معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انتہا پسندوں کے باعث امن عامہ کے شدید مسائل بھی در آئیں گے اور یہ وہ وقت ہوگا کہ دنیا کے کسی ملک کا ائیر پورٹ اور بندرگاہ پاکستان کے کسی پڑھے لکھے شخص کو بھی قبول نہیں کرے گا اوریہ ملک خانہ جنگی کی سی کیفیت کا شکار ہو جائے گا۔بروس ریڈل کی اس بات کو میں نے قابل اعتنا نہ سمجھا مگردماغ کے کسی کونے میں یہ بات اٹک ضرور گئی۔ آرمی پبلک اسکول پر حملے اور اس کے بعد نیشنل ایکشن پلان کی تیاری اور عملدرآمد کے مختلف مراحل کو رپورٹ کرتے اکثر یہ بات مجھے یاد آتی۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان پر 8مختلف عسکریت پسند جماعتوں کے خلاف کارروائی کرنے کا کہا اور پھر پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا تو ایک بار پھر سی آئی اے کے بوڑھے یہودی کی بات میرے دماغ میں کسی ہتھوڑی کی طرح لگی۔ گرے کا مطلب خطرہ اور بلیک لسٹ کا مطلب ہم جیسے ملک کے لیے تباہی ہے۔ اگر پاکستان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے انڈیکس میں بلیک لسٹ قرار دے دیاجاتا ہے تو اسکا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان اپنے ملک کی تیارکردہ اجناس کو بیرون ملک برآمد کرنے میں شدید مشکلات کا شکار ہوگا۔ جو کنٹینر ایک ہفتے میں بیرون ملک بھیجا جاتا ہے اسے کلیئرنس میں مہینوں لگیں گے۔ بیرونی دنیا پاکستان سے بینکنگ رابطہ ختم کردے گی۔ روپیہ بے وقت اور ڈالر مزید مہنگا ہو جا ئے گا۔ ہم پتھر کے زمانے میں دھکیل دئیے جائیں گے۔ اگرکسی کو کوئی شک ہے تو وہ جان لے کہ پاکستان کی وہ حالت ہوجائے گی جو ایران اور شمالی کوریا کی ہے کیونکہ یہ دونوں ممالک بھی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف سے بلیک لسٹ قراردئیے گئے ہیں۔ خدا نہ کرے ایسا ہو۔ اس معاملے پر وزیراعظم عمران خان آئے روز اجلاس کررہے ہیں۔ سابق وزیراعظم نوازشریف نے اس معاملے پر کڑے فیصلے کرنے کی ٹھانی تو ایک اجلاس کی اخباری خبران کے خلاف ، "ڈان لیکس اسکینڈل" بنا دی گئی تھی۔ آج کی خبر ہے کہ ہمارا ایشیا پیسفک گروپ نےجائزہ لے لیا ہے بلیک لسٹ میں ڈالنے یا نہ ڈالنے کا فیصلہ جون میں آجائے گا۔ خدا خیر کرے۔ پچھلے دنوں کسی دفتری کام کے باعث اسلام آباد کی لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز سے جامعہ حفصہ میں ملنا ہوا۔ ملاقات میں ان کے ترجمان حافظ احتشام اور میرے دوست امریکہ سے کائونٹر انسرجنسی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کےحامل اسفندیار میر بھی موجود تھے۔ مولانا نے تازہ ترین ملکی صورتحال پر اپنے انداز میں تبصرہ کیا ۔ آخر میں ان سے پوچھا ، جناب آپ پاکستان کا مستقبل کیا دیکھ رہے ہیں؟ مولانا جھٹ سے بولے ، خانہ جنگی۔ مولانا کی بات سن کر مجھے ایک بار پھر بوڑھے یہودی بروس ریڈل کی بات یاد آگئی۔ مولانا اور بروس ریڈل میں زمین آسمان کا فرق مگر دونوں کا تجزیہ یکساں ہے۔ آخر کیوں ؟

تازہ ترین