• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تمام سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ عام انتخابات اپنے مقررہ وقت پر سال 2013ء میں منعقد ہوں۔ عوام کی بھی یہی خواہش ہے، وہ انتخابی عمل کے راستے میں رکاوٹوں کو ناپسند کرتے ہیں۔ یہ سیاسی جماعتوں اور عوام کی دانشمندی اور سمجھداری کا واضح ثبوت ہے۔ اسی وجہ سے ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کی مہم جوئی کو عوامی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ نہ ہی کوئی بڑی اور نہ ہی کوئی چھوٹی سیاسی جماعت (بلاشبہ سوائے متحدہ قومی موومنٹ کے) ان کے ساتھ کھڑی ہونے کو تیار ہے بلکہ ان میں ہر کوئی علامہ کے ایجنڈے کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور کہہ رہی ہے کہ ان کا ”انقلاب“ دراصل انتخابات کو ملتوی کرانے کے لئے ہے۔ تمام سیاسی قوتیں بار بار سوال کر رہی ہیں کہ ڈاکٹر قادری کو 6سال کیوں نہ سوجھی کہ وہ پاکستان کو تمام برائیوں سے پاک کریں اور وہ کیوں خاموشی سے کینیڈا میں رہائش پذیر رہے۔2008ء کے الیکشن سے قبل بھی انہیں خیال نہ آیا کہ وہ انتخابی اصلاحات کا نعرہ بلند کرتے ہوئے واپس پاکستان آئیں۔ ان قوتوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر وہ پاکستان کے اتنے ہی خیر خواہ ہیں تو انہوں نے کینیڈا کی شہریت کیوں لی۔ اس کے علاوہ وہ علامہ کی تشہیر، لاہور میں23دسمبر کے جلسے اور ان کی مہم پر اٹھنے والے کروڑوں روپے کے اخراجات پر بار بار سوال کر رہے ہیں کہ یہ سارا پیسہ کہاں سے آیا۔ ڈاکٹر قادری بھرپور انداز میں ان سوالات کا جواب دے رہے ہیں مگر پاکستانیوں کی اکثریت ان کی مہم کے پیچھے اصل محرکات کے بارے میں تسلی بخش جواب نہیں پا رہی ۔
ڈاکٹر قادری بار بار کہہ رہے ہیں کہ وہ نہ ہی انتخابات کا التوا چاہتے ہیں اور نہ ہی ان میں حصہ لینا چاہتے ہیں ۔چونکہ وہ الیکشن سے باہر رہنا چاہتے ہیں لہٰذا وہ انتخابی عمل میں اسٹیک ہولڈر نہیں ہیں اور جو اصل اسٹیک ہولڈرز (عوام اور سیاسی جماعتیں) ہیں کی بات وہ سننے کو تیار نہیں۔ اگر وہ انتخابات لڑیں تو انہیں اپنی مقبولیت کا صحیح اندازہ ہو جائے۔ اگر ان کی ماضی کی انتخابی کارکردگی دیکھی جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک ناکام سیاست دان تھے اور صرف ایک سیٹ جیتنے کے علاوہ ان کی کارکردگی کچھ بھی نہیں تھی۔ جب انہوں نے انتخابی پراسس میں اپنی حیثیت دیکھ لی تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ بہتر ہے کہ سیاست سے کنارہ کشی ہی اختیار کر لی جائے۔ ان کی پاکستان عوامی تحریک جو کئی سالوں سے غیر فعال ہے نے اندرونی انتخابات نہیں کرائے عوام میں بالکل مقبول نہیں مگر اس کے باوجود وہ پاکستان کی سیاست کو ہائی جیک کرنے میں لگے ہیں تاہم اہم سیاسی کھلاڑی انہیں ایسا نہیں کرنے دے رہے۔ اگر وہ کینیڈین شہریت ترک کردیں، ہمیشہ کے لئے واپس پاکستان آجائیں،اپنی عوامی تحریک کو فعال کریں اور انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کریں تو ان کی تمام باتوں پر سنجیدگی سے توجہ دی جاسکتی ہے ورنہ ان کے قول و فعل میں تضاد رہے گا اور ان کی مہم سخت شکوک و شبہات کا شکار رہے گی۔ لوگ یہ الزام لگانے میں حق بجانب ہوں گے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں ان کا نہیں کسی اور کا ایجنڈا ہے اور وہ چند روز یہ کھیل تماشہ کر کے پھر واپس کینیڈا چلے جائیں گے ۔
پیپلزپارٹی اور نون لیگ کی ڈاکٹر قادری کی سخت مخالفت تو سمجھ میں آتی ہے کیونکہ ان کے خیالات اور نظریات علامہ سے نہیں ملتے مگر جو ڈاکٹر قادری کے لئے لمحہٴ فکریہ ہے وہ ہے تمام مذہبی تنظیموں اور مذہبی سیاسی جماعتوں کی ان کے ایجنڈے کی سخت مخالفت۔ ایک مذہبی اسکالر اور مبلغ اسلام ہونے کے ناتے سے مذہبی رہنماؤں اور جماعتوں کو تو ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے تھا جو نہیں ہوئے۔ یہاں تک کہ ان کے مذہبی نظریات اور بریلوی فرقہ سے تعلق رکھنے والے مذہبی عناصر بھی ان کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ ہر کوئی یہی کہہ رہا ہے کہ ان کی مہم کے مقاصد وہ نہیں ہیں جو وہ بیان کر رہے ہیں۔ اگرچہ پاکستان آرمی نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ وہ ڈاکٹر قادری کی لانچ کے پیچھے نہیں مگر جمعیت طلباء اسلام کے اہم رہنما حافظ حسین احمد کا کہنا ہے کہ ”شیخ راولپنڈی نے شیخ کینیڈا کے لانگ مارچ کی حمایت کی ہے اگر شیخ لندن بھی واپس گئے تو شیوخ کا ٹرائیکا لانگ مارچ کی قیادت کرے گا۔ حکومت ڈاکٹر قادری کے لانگ مارچ کو تو روک سکتی ہے مگر جو ان کے پیچھے ہیں ان کو نہیں روک سکتی“۔ حافظ صاحب کی باتیں غور طلب ہیں ان کو سرے سے رد نہیں کرنا چاہئے۔ اگر نہ ہی کوئی بیرونی طاقت اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ علامہ کے ”انقلاب“ کے پیچھے ہے تو پھر وہ زندگی کی سب سے بڑی حماقت کر رہے ہیں جس کا نتیجہ سوائے انہیں پریشانی کے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔بڑی تگ و دو کے بعد مشکل سے نون لیگ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی ”سونامی“ پر کافی حد تک قابو پایا ہی تھا کہ ڈاکٹر قادری کے ”انقلاب“ نے اس کی نیندیں حرام کر دی ہیں اور اب اس کی ساری سیاسی توانائیاں ان کے زور کو توڑنے پر لگی ہیں۔ عمران خان کی مقبولیت جو انہیں30/اکتوبر2011ء کے منٹو پارک لاہور کے جلسے کے بعد ملی ، کا بڑا نشانہ نون لیگ کاووٹ بینک تھا۔ نون لیگ نے فوراً الزام لگایا تھاکہ آئی ایس آئی کے اس وقت سربراہ احمد شجاع پاشا سونامی کے اصل پروڈیوسر اور ڈائریکٹر ہیں جس کا مقصد اسے آئندہ انتخابات میں واضح اکثریت سے محروم کرنا ہے لہٰذا نون لیگ نے اپنی ساری توپوں کا رخ عمران خان کی طرف کر دیا تھا۔جوں جوں وقت گزرتا گیا پاکستان تحریک انصاف کی عوامی حیثیت کو نقصان پہنچتا رہا جس میں اس کی اپنی غلطیوں کا بڑا عمل دخل رہا۔ خصوصاً گھسے پٹے سیاستدانوں کی عمران خان کی ٹیم میں شمولیت نے ان لوگوں کے خواب چکنا چور کر دیئے جو پی ٹی آئی کے پروگرام میں امید کی کرنیں دیکھ رہے تھے۔
ابھی نون لیگ کسی حد تک سکھ کا سانس ہی لے رہی تھی کہ اس نے سونامی کے خطرے کو ٹال دیا ہے کہ ڈاکٹر قادری میدان میں کود پڑے اور اسے ہلا کے رکھ دیا کیونکہ ان کی مہم سے زیادہ نقصان اسی کا ہونے کا احتمال ہے۔ شروع میں پیپلزپارٹی کا رویہ اسی طرح تھا جیسے عمران خان کی سونامی کے بارے میں تھا مگر جب اسے احساس ہوا کہ ڈاکٹر قادری کی مہم کہیں ساری سیاسی بساط کو ہی نہ الٹ دے اس نے ان پر حملوں کی بوچھاڑ کر دی۔ اب علامہ کے بارے میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی پالیسی میں کوئی فرق نہیں دونوں ہی ان کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ ابتدا میں پیپلزپارٹی خوش تھی کہ عمران خان صرف نون لیگ کا ہی نقصان کر رہے ہیں مگر جب اس نے دیکھا کہ اس کے ووٹ بینک پر بھی حملہ ہو رہا ہے تو اس نے پی ٹی آئی پر سخت تنقید کا آغاز کر دیا۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اور قوم اس بات پر متفق ہے کہ آئندہ انتخابات وقت مقررہ پر ہونے چاہئیں اسی میں پاکستان کی بہتری اور بھلائی ہے۔ انتخابی عمل کے خلاف کوئی بھی مہم جوئی ملک کی جڑوں کو ہلا دے گی۔
تازہ ترین